دنیا ابھی دردمندوں سے خالی نہیں ہوئی ہے

انتظار حسین  جمعـء 5 جون 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کسی بھلے شاعر نے کیا خوب کہا ہے اور کتنا صحیح کہا ہے کہ؎
جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے

آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی قوم و ملک پر کوئی نازک گھڑی آتی ہے سب سے پہلے ہماری نظریں سوا رتبے والوں کی طرف جاتی ہیں کہ دیکھیں وہ بیچ اس مسئلہ کے کیا بولتے ہیں۔ تو بالعموم یہ گروہ مشکل ہی میں رہتا ہے۔ قدم قدم پر آزمائش ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ انھیں اپنی لاج رکھنے کے لیے کیسے کیسے ایثار کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔

بین الاقوامی دنیا میں ایک گروہ ایسا ہے جسے سب سے بڑھ کر رتبہ ملا ہوا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔

سیاست داں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اہل اقتدار، نہیں، بالکل نہیں۔ ارے یہ ہیں نوبل پرائز جیتنے والے۔ بس سُرخاب کا پر لگتے ہی ان کا رتبہ کتنا بڑھ جاتا ہے۔ ویسے یہ برگزیدہ انسانی برادری بہت کم بولتی ہے۔ بین الاقوامی دنیا میں قصے قضئے کھڑے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ سارے قصے قضیوں سے بے تعلق رہتے ہیں۔ بس کبھی کبھی انھیں ایک احساس ستاتا ہے کہ یہ تو بڑا انسانی مسئلہ ہے۔ اس پر ہمیں بولنا چاہیے۔

ابھی انھی دنوں ایک ایسے ہی مسئلہ پر انھوں نے آواز اٹھائی ہے۔ یہ ہے برما کے روہنگی مسلمانوں کا مسئلہ۔ یہ بیچارے عجب دبدا میں پھنسے ہوئے ہیں اور کیسی عجیب دبدا ہے۔ وہ مخلوق جو بالعموم بہت امن پسند سمجھی جاتی تھی اور سمجھی جاتی ہے۔ ان کے ہاتھوں ان کی جانیں ضیق میں ہیں۔ ارے بدھ بھکشو تو اپنے بدھ فلسفہ کے پابند ہونے کے ناتے امن پسند اور تشدد بیزار چلے آتے ہیں۔ برما میں ان کی بدھیت اہنسا پر یہ کیسی آنچ آئی ہے کہ روہنگی مسلمان سب سے بڑھ کر ان سے پناہ مانگتے ہیں۔

اسی ملک برما میں ایک نیک بی بی بیٹھی ہوئی ہے، آنگ سان سو چی۔ کب سے اپنے ملک پر قابض فوج کے مقابلہ میں ڈٹی ہوئی ہے۔ خاندانی زندگی کا کھیل بکھروا ہو گیا۔ شوہر سات سمندر پار لندن میں۔ اولاد کالے کوسوں دور۔ خود رنگون میں گھر میں مقید بیٹھی ہے۔ مگر مجال ہے کہ پائے ثبات میں ڈگمگاہٹ آئی ہو۔ جب ہی تو اسے نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ ان دنوں وہ آزاد ہے اور ملک کے صدر کے انتخاب کے لیے تیاریاں کر رہی ہے۔

کتنی توقع تھی کہ وہ روہنگیوں کی حمایت میں بولے گی اور اپنے بدھ بھکشوؤں کو سمجھائے گی۔ مگر عجیب ہوا کہ وہ بی بی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی رہی۔ کوئی کلمہ ہمدردی اس کے منہ سے نہ نکلا۔ اس کی اسی روش پر اس کے مداحوں کو کتنا تعجب ہوا تھا مگر یہ سوچ کر چپ رہے کہ اس وقت اس بی بی کی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔

اور ادھر یہ حال کہ جو روہنگی برما سے ہجرت پر مجبور ہوئے انھیں کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں زیادہ مخلوق تو وہ ہے جو برطانوی عہد میں مشرقی بنگال سے نکل کر تلاش روزگار میں یہاں آئی تھی اور پھر یہیں رہ پڑی۔ مگر بنگلہ دیش کی حکومت نے ٹکا سا جواب دیدیا کہ ہمارا ان سے کوئی ناتا نہیں۔ وہ جانیں، برمی حکومت جانے۔ شاید مشرقی پاکستان نابود نہ ہوا ہوتا تو ادھر سے ایسا جواب نہ آتا۔ مگر کیا کیا جائے۔ روہنگیوں کی قسمت۔ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر یہ آوارہ پنچھی اپنا آشیانہ بنا سکتے تھے۔

لیجیے اس موقعہ پر کن حق پسندوں نے جھرجھری لی ہے۔ نوبل پرائز یافتگان نے۔ انھوں نے اس باب میں ایک کانفرنس کا اہتمام کر ڈالا۔ سب نوبل یافتگان شریک ہوئے۔ بس نوبل پرائز یافتہ برمی بی بی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے وقت نہیں نکال سکی۔ شاعر نے صحیح کہا ؎

جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے

اس موقعہ پر سب سے بڑھ کر اس بی بی کو مشکل درپیش تھی۔ صدارت کا الیکشن سر پہ کھڑا ہے۔ بدھ بھکشو برما میں اپنی جگہ ایک طاقت ہیں۔ ان کے ووٹوں کا تو پاس لحاظ رکھنا تھا۔ یہ مصلحت وقت کا تقاضا تھا۔ بیشک اب سے پہلے اس نے کسی مصلحت کو روا نہ رکھا ہو۔

اور ان دنوں جو ہم نے خبریں پڑھی ہیں بس یہی پڑھا کہ جو گھر سے بے گھر ہوئے ہیں اور برما سے یہ سوچ کر نکلے تھے کہ کہیں تو انھیں پناہ ملے گی ؎

کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل

لیکن ان کی ناویں کھلے سمندر میں آوارہ چکر کھا رہی ہیں۔ سفینۂ غم دل کو ساحل دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔

لیکن کوئی بات نہیں ؎
کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے

ان کی فریاد خالی نہیں گئی کسی نہ کسی کو سننا تھا۔ پٹرول کی دولت میں تو ان کا حصہ نہیں تھا مگر ملیشیا اور انڈونیشیا کا دل پگھل گیا۔ ادھر سات سمندر پار سے اوباما نے ان دونوں ملکوں کی دردمندی پر انھیں داد دی جنہوں نے ان نگھروں کو اپنے یہاں بسانے کی آمادگی ظاہر کی ہے۔ اوباما نے اس ذیل میں ان کی آبادکاری کے لیے ایک کروڑ ڈالر کی امداد کی پیش کش کی ہے۔

بنگلہ دیش کی بی بی کا پتھر دل تو موم نہیں ہوا مگر بہرحال دنیا میں ابھی جہاں تہاں درد مند موجود ہیں۔

باقی برمی خاتون کے سلسلے میں ہمارا کہا سنا معاف۔ ہم تو سب سے بڑھ کر اس کے برمی خطوط پڑھ کر اس کے مداح ہیں۔ کیا خطوط لکھے ہیں یا کہیے کہ کیا دردمندانہ کالم لکھے ہیں۔ برما کی عام مخلوق کے دکھ سکھ کو کیا خوب بیان کیا۔ ساون بھادوں کے بیچ ان کی خوشیاں اور ان کی پریشانیاں کس خوبی سے سمیٹی ہیں۔ موسموں اور موسموں کے پھلوں کو کیا خوب بیان کیا ہے۔ آموں سے بڑھ کر جامنوں کا بیان۔ اور پھر رنگوں کے چائے خانے۔

چائے خانوں میں بیٹھے دانشور، ان کی ہاؤ ہو۔ چائے کی پیالیوں میں اٹھتے طوفان۔ برمی زندگی کے امنڈتے دریا کو چھوٹے چھوٹے کوزوں میں سمیٹ لیا ہے۔ یہ دلِ درد مند آج نہیں تو کل پگھلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔