بجٹ 2015-16۔۔۔۔۔۔توقعات و خدشات

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘میں گفتگو ۔  فوٹو : ایکسپریس

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

موجودہ حکومت اپنا تیسرا وفاقی بجٹ آج پیش کرنے جارہی ہے جس کے حوالے سے مختلف حلقوںمیں متضاد باتیں ہورہی ہیں کہ یہ بجٹ کیسا ہوگا ،ا س میں عوام کو ریلیف ملے گا یا مزید ٹیکس لاگو کیے جائیں گے۔

ہمیشہ کی طرح عوام نے اس بجٹ سے بھی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں کہ حکومت اس بجٹ میں انہیں ریلیف دے گی اور انہیں سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ ’’وفاقی بجٹ 2015-16۔۔۔توقعات و خدشات‘‘ کے موضوع پر’’ ایکسپریس فورم‘‘میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیاگیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر سلمان شاہ
(سابق وفاقی وزیر خزانہ)


بجٹ کے ساتھ سب لوگ بہت زیادہ امیدیں لگا لیتے ہیں جبکہ ہر سال بجٹ پچھلی کہانی ہی پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں انکریمنٹل بجٹ ہوتا ہے جس میں ہر سال وزارتوں کے بجٹ میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور ان سے گزشتہ بجٹ یا کارکردگی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جاتا لہٰذا میرے نزدیک بجٹ انکریمنٹل نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ہونا چاہیے کیونکہ صرف اسی طرح سے ہی حالات میں بہتری آئے گی اور جب وزارتوں کوعلم ہوگا کہ ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی تووہ اپنی کارکردگی بہتر کریں گی،لوگوں کی خدمت کریں گی اور انہیں سہولیات بھی فراہم کریں گی۔

اگر بجٹ کارکردگی کی بنیاد پر بنے گا تو ہر وزارت کی کارکردگی دیکھی جائے گی، ان کے بجٹ کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور پارلیمنٹ بجٹ پاس کرنے سے پہلے اس کا جائزہ لے گی اور اس بارے میں سوال کرے گی تو بجٹ یقینا فائدہ مند ثابت ہوگا۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کاکام سال کے اختتام پر چیک اینڈ بیلنس کرنا ہے کہ جو بجٹ بنا تھا کیا اس پر ویسے ہی کام ہوا ہے، اخراجات صحیح ہوئے ہیں، ان میں کوئی بے ایمانی تو نہیں ہوئی اور اس کے علاوہ آڈیٹر جنرل کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی رائے بھی دے کہ بجٹ کتنا موثر رہا ہے ۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آڈیٹر جنرل دس سال پرانے بجٹ کی جانچ پڑتال کرتے نظر آتے ہیں جس سے ملک کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ بجٹ حکومت کی اسٹرٹیجی کا عکاس ہوتا ہے، موجودہ حکومت کا یہ تیسرا بجٹ ہے لیکن ابھی تک حکومتی پالیسی سے عوام کو فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ میرے نزدیک اس بجٹ سے یہ امید لگانا کہ حالات تبدیل ہوجائیں گے درست نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک میں نیشنل اسٹرٹیجی نہیں ہے جس کے مطابق بجٹ بننا ہوتا ہے بلکہ یہاں اپنی مرضی کے منصوبوں میں بجٹ لگا دیا جاتا ہے۔

موجودہ حکومت کی اسٹرٹیجی یہ نظر آتی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جائے اور اس کے ساتھ معاہدے کیے جائیں۔آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے وقت معاہدے میں یہ شامل ہوتا ہے کہ اخراجات اور وسائل میں توازن قائم کیاجائے اور خسارے کو کم کیا جائے۔ ہمارے ملک میںہر سال بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے لیے ایف بی آرکو ریونیو اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ کوبڑھایا نہیں جارہا اور جو لوگ اس میں پھنس چکے ہیں صرف ان پر ہی بوجھ ڈالا جارہا ہے ۔ ایف بی آر میں اتنی قابلیت نہیں ہے کہ وہ ٹیکس اکٹھا کرے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک گزشتہ سال کاٹارگٹ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ اس سال 31سو ارب روپے کا ٹارگٹ ہے۔ جب بجٹ خسارہ کم نہیں ہوتا تو ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیںا ور منصوبے التوا کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت جو منصوبے چل رہے ہیں ان کی تکمیل میں قریباََ 17برس لگیں گے بشرطیکہ نئے منصوبے شروع نہ کیے جائیں۔

میرے نزدیک ہمیں اپنے طریقہ کار کو بدلنا ہوگا اور اب حکومت کو آئی ایم ایف سے معذرت کرلینی چاہیے۔ اس وقت ہمارے ادارے ختم ہوچکے ہیں، ان کا کوئی ویژن نہیں ہے لہٰذا ہمیں ملکی ترقی کے لیے نیشنل ویژن پر کام کرنا ہوگا اور ادارے درست کرنا ہوں گے۔پاکستان کو انرجی بحران کاسامنا ہے لیکن گزشتہ دوسالوں میں اس پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیااور 2007ء میں جتنی بجلی پیدا ہوئی آج تک اس میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بھی نصف ہوگئی ہیں لہٰذا اگر موثر منصوبہ بندی کہ جائے تو لوڈشیڈنگ میں کمی کی جاسکتی ہے اوربجلی کی قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ فرنس آئل پر سات، آٹھ روپے فی یونٹ بجلی بن سکتی ہے لیکن حکومت10روپے فی یونٹ پر کوئلہ سے بجلی بنانے پر کام کررہی ہے ۔

میرے نزدیک انرجی بحران پر قابو پانے کیلئے حکومت کو انرجی سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنا ہوگا، ان میں مقابلے کی فضا پیدا کرنا ہوگی اور وزارتوں کو اس سے نکالنا ہوگا۔ انرجی کے بعد گیس کا بھی برا حال ہے اور حکومت کی ا س حوالے سے بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ایل این جی کے بارے میں بھی کسی کو علم نہیں ہے کہ وہ کہاں سے آئے گی اور اب صنعتوں پر اس کے خریدنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ایشین ٹائیگر بننے کا خواب تو دیکھتے ہیں لیکن ایشین ٹائیگر بننے کے لیے جو اصلاحات ضروری ہیں وہ ہم نہیں لاسکے ۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ہمیں ایشین ٹائیگر بننا ہے تو ہمیں اس حوالے سے موثر پالیسی بناناہوگی، اپنے ادارے بہتر کرنا ہوں گے اور وہ سارے عوامل کرنے ہوں گے جو دوسرے ٹائیگرز نے کیے جن میں جاپان، کوریا، سنگاپوراورملائیشیا شامل ہیں۔ میرے نزدیک یہ بجٹ روایتی بجٹ ہوگا، اس میں وہی پرانا طریقہ استعمال کیا جائے گا اور اس مرتبہ بھی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کرکے عوام کو لولی پوپ دے دیا جائے گا۔حکومت اگر عوام کے ساتھ مخلص ہے اور ان کی فلاح چاہتی ہے تو اسے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔

میرے نزدیک ہمیں گروتھ کوقریباََ 7 فیصد کرنا ہوگا کیونکہ اس طرح ہی لوگوں کو روزگار ملے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں لہٰذا اب ہمیں گروتھ کرنی ہے اور اس کے لیے آئی ایم ایف کی سٹیبلائزیشن سے نکلنا ہوگا۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اگر حکومت موثر پالیسی بناتی تو اس وقت ہم گروتھ کو 10فیصد تک لے جاسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

ہمارے ملک میں چیزیں مہنگی بن رہی ہیں، زراعت میں بھی ٹیکس کی وجہ سے چیزوں کے ریٹ زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہم عالمی منڈی میں پیچھے رہ گئے ہیں اور یہی حال ہماری صنعت کا بھی ہے۔ ہمیں جی ایس پی پلس سے وہ فائدہ نہیں ہورہا جو ہونا چاہیے اس لیے ہمیں اپنی صنعت کی طرف توجہ دیناہوگی اور قیمتوں کو کم کرنا ہوگا پھر کہیں جاکر ہمیں عالمی منڈی میں پزیرائی ملے گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پورا سال بجٹ آتا رہتا ہے جبکہ آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میٹروبس کا منصوبہ شروع کردیا گیا جس کی ’’پی سی ون‘‘ ہی نہیں بنی لیکن وزیراعظم کے حکم پر میٹرو بس بن گئی۔

ماضی میں ’’فیسکل رسپانسیبلیٹی اینڈ ڈیٹ لیمیٹیشن ایکٹ‘‘ پاس کیا گیا جس مقصد یہ تھا کہ ڈیٹ کو جی ڈی پی کے 60فیصد سے نیچے رکھا جائے گا لیکن ہمارے ڈیٹ میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس وقت 17 ٹریلین کا ڈیٹ ہے۔ موجودہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کی بجائے عوام کو مقروض کررہی ہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی مقروض ہیں۔ آئی ایم ایف کا پروگرام کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ہم اپنا ریونیو بھی ٹھیک طریقے سے اکٹھا نہیں کرپاتے۔

ماضی میں پانچ سال کی پلاننگ کی جاتی تھی اور پراجیکٹ کے حوالے سے جانچ پڑتال بھی کی جاتی تھی اور اس کی رپورٹ لکھی جاتی تھی لیکن اب ایسی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ میرے نزدیک ہمیں اس کو دوبارہ اپنانا ہوگا اور بہتر منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ کالا باغ ڈیم واحدمنصوبہ ہے جو پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرسکتا ہے، اس منصوبے سے پانی اور بجلی دونوں ملیں گے اور اس کے پانی سے سالانہ 30ارب ڈالر کی زرعی پیداوار ہوسکتی ہے۔

اس منصوبے سے غربت دور ہوسکتی ہے اور پھر تھر پارکرمیں کوئی بچہ بھوک سے نہیں مرے گا۔ اس کے علاوہ چولستان، ڈی آئی خان، لکی مروت، پبی اور فاٹا کی ساری بیلٹ کالا باغ ڈیم سے زرخیز ہوگی اور خوشحالی آئے گی۔ بھاشا ڈیم کو 12سال لگیں گے جبکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں 4سال لگیں گے لہٰذامیرے نزدیک کالا باغ ڈیم بننا چاہیے اور سب کو مخلص ہوکر ملک کے لیے کام کرناچاہیے۔

میاں نعمان کبیر
( سینئر نائب صدر لاہور چیمبر آف کامرس )


بجٹ صرف رسمی کارروائی ہوتی ہے کیونکہ سارا سال ہی بجٹ آتا رہتا ہے اور پورا سال ہی قیمتوں میں اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ماہ قبل ریگولیٹری ڈیوٹی بھی دوبارہ سے نافذ کی گئی اس لیے میرے نزدیک یہ بجٹ اتنا زیادہ اثر انداز نہیں ہوگا ۔ لاہور چیمبر آف کامرس کی حکومت سے ہمیشہ یہ درخواست رہی ہے کہ صنعتی ترقی کے لیے بزنس کمیونٹی کو اپنا ایک ایجنڈا دیں۔

جس میں انرجی بحران کے خاتمے کے حوالے سے حکومتی پلاننگ بتائی جائے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی پالیسی بنائی جائے،امن و مان کی صورتحال بہتر بنانے کی یقین دہانی کروائی جائے ، انفراسٹریکچر اور انڈسٹریل اسٹیٹ کی تعمیر سے کاروباری ماحول فراہم کرکے انہیں اعتماد میں لیا جائے۔ ہماری زرعی صنعت پاکستان کی طاقت بن سکتی ہے ، ہمیں اسے فروغ دینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اسے کہاں تک آگے لے جاسکتے ہیں اور اس سے ہماری ایکسپورٹ میں کیسے اضافہ ہوسکتا ہے ۔ میرے نزدیک ایکسپورٹ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے ہمارے ملک میں سرمایہ آئے گا اور پاکستان کو عالمی منڈی تک رسائی حاصل ہوگی۔

اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی جس سے ملکی معیشت مضبوط ہوگی لیکن بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانے کیلئے پہلے یہاں کے مقامی بزنس مین کو خوشحال کرنا ہوگا۔ہمارے ملک کو انرجی بحران کا سامنا ہے اور حکومت کوشش کے باوجود بھی اس پر قابو نہیں پاسکی۔ ہمارے ملک میں موجود بجلی گھر اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کی بجلی کی ضرورت پوری کرسکیں لیکن انہیں چلایا نہیں جارہا۔ بدقسمتی سے ہائیڈل پر کوئی کام نہیں ہورہا، کوئلہ سے بجلی کی پیداوار بھی سیاسی نعروں اور دعوو ں تک محدود ہے اور اس کا حاصل ابھی نظر نہیںا ٓرہا اور یہی صورتحال ’’ونڈمل‘‘ کے ساتھ ہے ۔ ہم چینی سرمایہ کاروں کے شکرگزار ہیں جو یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیںلیکن یہ حقیقت ہے کہ اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ابھی بہت وقت درکار ہے اور بزنس کمیونٹی مزید انتظار کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ لاہور کی قائداعظم انڈسٹریل اسٹیٹ کی آج سے دو سال قبل بجلی کی ڈیمانڈ70میگا واٹ تھی جوکہ اب کم ہوکر 28میگاواٹ رہ گئی ہے ،ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انڈسٹری بند ہورہی ہے۔ ہمارے حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ میں کمی واقع ہوئی ہے ، میرے نزدیک یہ حکومت کا کوئی کارنامہ نہیں ہے کیونکہ جب انڈسٹری بند ہوگی اور بجلی کی ڈیمانڈ میں کمی آئے گی تو لوڈ شیڈنگ خودبخود کم ہوجائے گی۔اس بجٹ کے حوالے سے حکومت سے میری گزارش ہے کہ ریونیو اکٹھا کرنے پر زورکم دیں بلکہ ریونیو اکٹھا کرنے کے دائرہ کار کووسیع کریں اور صرف 8فیصد لوگو ں پر سارا بوجھ نہ ڈالیں۔ امید ہے کہ حکومت اس بجٹ میں اچھی پالیسیاں متعارف کروائے گی۔

اس کے علاوہ سیلز ٹیکس میں کمی کی جائے گی اور بینکنگ کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ صنعت لگ سکے۔ گزشتہ ایک سال میں قریباََ 700ارب روپیہ کی پاکستانی سرمایہ کاری دوبئی منتقل ہوگئی کیونکہ جب سرمایہ داروں کووہاں بہتر ماحول ملا تو انہوں نے وہاں سرمایہ کاری کردی اور یہی سرمایہ کاری کا اصول ہے لہٰذا جب تک ہماری مقامی بزنس کمیونٹی خوشحال نہیں ہوگی تب تک حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بجٹ سے پہلے چیمبر سے سفارشات منگوائی جاتی ہیں لیکن ان پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا جاتا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان سفارشات کو بھی بجٹ میں شامل کرے۔

جاوید اقبال
(سینئر ممبرلاہور سٹاک ایکسچینج )


اس بجٹ کے حوالے سے سٹاک مارکیٹ میں مثبت باتیں ہورہی ہیں اور مارکیٹ انڈیکس میں روزانہ اضافہ بھی ہورہا ہے لہٰذا امید ہے کہ اس بجٹ کے مثبت اثرات ہوں گے بشرطیکہ ملکی سیاسی حالات اور امن و امان کی صورتحال بہتر رہے۔

دھرنوں نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا تاہم موجودہ حکومت کی بہتر معاشی پا لیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت بہتری کی طرف جارہی ہے لہٰذا اگر سیاسی حالات بہتر رہے تو معیشت مضبوط ہوگی اور اس بجٹ سے عوام کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس بجٹ میں امید ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات پورے کرے گی، ہورڈنگ پیریڈمیں تبدیلی کی جائے گی اور بونس شیئر پر عائد ٹیکس بھی ختم کردیا جائے گا۔ اس امید کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں بہتری کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ چین کے ساتھ معاشی معاہدہ بھی خوش آئند ہے ، حکومت کی پالیسی اچھی ہے اس لیے امید ہے کہ یہ بجٹ سٹاک مارکیٹ کے لیے اچھا ہوگا۔

آمنہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)


بجٹ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتاکیونکہ یہاں امراء کا راج ہے اورسہولیات بھی ہمیشہ امراء کو ہی ملتی ہیں جبکہ غریب ہمیشہ سے پستا آیا ہے اور آج بھی اس کی حالت زار اچھی نہیں ہے۔

میرے نزدیک اس بجٹ سے عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا ۔ اس بجٹ میں حکومت کو خواتین کے لیے خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں اور ان کے لیے خصوصی پیکیج دینا چاہیے جس میں ان کی ملازمتوں کا کوٹہ، گھریلو استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی و دیگر سہولیات شامل ہوں۔ حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ا س طرح کا بجٹ دیا جائے جس سے گھریلو بجٹ خراب نہ ہو کیونکہ اگر اس بجٹ سے ہر گھر کا بجٹ خراب ہوگا تو یہ پھر یہ بجٹ نہیں محض شعبدہ بازی ہوگا۔

عوام یہ چاہتے ہیں کہ ملکی دولت اور ان سے اکٹھا کیا گیا ٹیکس شفاف طریقے سے خرچ کیا جائے لیکن آج تک ایسا نہیں ہوسکا اس لیے اس بجٹ سے میری امیدیں وابستہ نہیں ہیں۔ خواتین کے حوالے حکومت کہتی ہے کہ ہم خواتین کو ایمپاور کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکیں میرے نزدیک جب تک انہیں ترقی کے نئے مواقع فراہم نہیں جائیں گے تب تک ایسا ممکن نہیں ہے۔

اس کے علاوہ جب تک خواتین کی تعلیم کے لیے خصوصی بجٹ نہیں آئے گا اوران کی فنی تربیت کے ساتھ ساتھ کاروبار کے لیے الگ قرضہ سکیم نہیں دی جائے گی تب تک خواتین کی ترقی نہیں کرسکتی۔

میرے نزدیک خواتین کے لیے صرف چند لوگوں کے کام کرنے سے یا آواز اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا،حکومت کو اس حوالے سے موثر پالیسی بنانے کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ سیالکوٹ میں حکومت نے فیکٹریوں کے ساتھ مونٹیسریز بنائی ہیںلیکن ان سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا کیونکہ جن خواتین کو فیکٹری میں کام کے دوران بات کرنے کی اجازت نہیں ہے وہ اپنے بچوں کو مونٹیسری میں کیسے چھوڑ کر آئیں گی۔ اگر ہم اسی طرح پیسہ ضائع کرتے رہیں گے اور موثر اقدامات نہیں کریں گے تو ملکی معاشی حالت میں بہتری نہیں آئے گی۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جب تک ہم عورت کو شانہ بشانہ لے کر نہیں چلیں گے تب تک ہماراملک ترقی نہیں کرسکتا۔ میرے نزدیک پارلیمنٹ میں چند خواتین کو نمائندگی دے کر خواتین کے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے لہٰذاجب تک ہم ان کی تعلیم سے لے کر روزگار تک کے معاملات حل نہیں کریں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے ۔

ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابر ملازمتوں کا کوٹہ دیا جائے اور ان کی ترقی کے لیے خصوصی بجٹ لایا جائے اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی ترقی کے لیے خصوصی بجٹ لانا چاہیے ،جس میں ان کے لیے الگ قرضہ سکیم بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ کاروباری میدان میں آگے آسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔