بلوچستان؛ بہت کچھ جاننا ضروری ہے

اوریا مقبول جان  جمعـء 5 جون 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سبّی شہر سے جو راستہ مری قبائل کے ہیڈ کوارٹر کاہان کی طرف جاتا ہے، اس پر چند کلومیٹر کے بعد میدانی علاقہ ختم ہو جاتا ہے اور اونچے نیچے پہاڑ آ جاتے ہیں۔ ان پہاڑوں کے دامن میں سیلاچی قبیلے کا مسکن تلّی واقع ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے ایک راستہ کاہان کی جانب نکلتا ہے اور دوسرا راستہ کٹ منڈائی سے ہوتا ہوا ہرنائی کے سرسبز  و شاداب علاقے تک جاتا ہے۔

انگریز نے جب ریلوے لائن بچھائی تو وہ سبی سے ہرنائی اور پھر وہاں سے کوئلے کی کانوں کے علاقے شاہرگ سے گزرتی کوئٹہ جاتی۔ اس ریلوے لائن پر کئی سو فٹ اونچا پل تھا جو دو پہاڑوں کے بیچ بنایا گیا تھا۔ ٹرین ایک پہاڑ کے اندر بنائی گئی سرنگ میں داخل ہوتی، باہر نکلتی تو وہ اسی پل پر آتی اور پھر دوسرے پہاڑ میں بنائی گئی سرنگ میں داخل ہو جاتی۔

1896ء  میں بنائے جانے والے اس پل کو انگریز انجینئرنگ کا ایک معجزہ تصور کرتے تھے۔ زلزلے نے یہ پل اور سرنگیں تباہ کیں تو پھر بولان کے علاقے میں نئی ریلوے لائن بچھائی گئی اور کوئٹہ کے راستے چمن (افغان بارڈ) اور تفتان (ایران بارڈر) تک آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ پرانی ریلوے لائن تباہ ہو گئی لیکن سبی سے ہرنائی تک پٹٹری سلامت رہی اور یہی وہاں کے لوگوں کا واحد ذریعہ آمد و رفت تھا اور آج بھی ہے۔ یہ دنیا کی چند خوبصورت ریلوے لائنوں میں سے ایک ہے جو بیجی دریا کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہے۔

ہرنائی سے سبی تک زمینی راستہ تلّی کے اسی مقام سے شروع ہوتا ہے جہاں سے کاہان کو راستہ جاتا ہے۔ ہرنائی بنیادی طور پر ایک پشتون آبادی کا شہر ہے۔ جب کہ پورا راستہ بلوچ مری قبائل سے آباد ہے۔ اسی علاقے میں خجک کے مقام پر انگریزوں کی مری قبائل کے ساتھ جنگ ہوئی تھی۔ پہلی جنگ میں انگریزوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی، پھر رابرٹ سنڈیمن کی فارورڈ پالیسی‘‘ (یعنی قبائل کو اپنا ہمنوا بنانا) کا نفاذ ہوا، تو مری قبائل کو بھی ساتھ ملا لیا گیا۔1880ء کے آس پاس انگریز نے اس علاقے میں اپنے قدم جمائے اور اس نے سبی ہرنائی کو ریل کے ذریعے تو منسلک کیا، لیکن سڑک نہ بنائی اور مریوں کو ان پہاڑوں کے درمیان محصور کیے رکھا۔

وہ اگر سبی میں اپنے مویشی بیچنے بھی آتے تو ان کو باقاعدہ عارضی رہائش کا پرمٹ جاری کیا جاتا۔ یوں وہ پہاڑ جنھیں کٹ منڈائی کا علاقہ کہتے ہیں، کئی سو سال قدیم تہذیب پر رکا ہوا ایک خطہ بن گیا جہاں نہ سڑک تھی، نہ بجلی، نہ اسکول، نہ ڈسپنسری۔ ٹرین وہاں سے گزرتی تو ایسے لگتا جیسے انسانوں کے کسی سفاری پارک سے گزر رہی ہو جہاں تہذیب ایک ہزار سال پرانے ماحول پر ساکت و جامد ہو گئی ہو۔ انگریز چلا گیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سبی وہ واحد ضلع تھا جہاں ایک انگریز ڈپٹی کمشنر آرتھگنٹن ڈیوی (Arthington Devi) جو آزادی کے کئی سال بعد تک اس عہدے پر فائز رہا۔

پاکستان بننے کے بعد جب کبھی بلوچستان میں حالات خراب ہوتے، سب سے پہلے سبی ہرنائی ٹرین نشا نہ بنتی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب بلوچستان حکومت ختم کر کے آرمی ایکشن شروع کیا تو اس ٹرین کو چلانا اور بھی مشکل ہو گیا۔ اس دوران کوشش کی گئی کہ سبی، ہرنائی روڈ کو تعمیر کر لیا جائے۔ فوجی انجینئروں کے ذریعے تھوڑی دور تک روڈ بنی اور پھر اس کا راستہ مری علاقے کوہلو کی جانب موڑ دیا گیا اور ہرنائی کے پشتون سڑک کے رابطے سے محروم ہی رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مری بلوچ علاقوں میں بھی بنائی جانے والی روڈ چند سال ہی چل سکی۔ زیادہ تر آمد رفت سرکاری گاڑیوں کی رہی اور پھر مدتوں تک یہ خطّہ پھر ایک محصور علاقہ بن گیا۔

1994ء میں جب میں وہاں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے گیا تو مرحوم سکندر جمالی چیف سیکریٹری اور ذوالفقار مگسی چیف منسٹر تھے۔ اس دوران یہ بات زور شور سے زیر بحث آئی کہ ہرنائی جو ایک سرسبز علاقہ ہے اور جہاں دنیا بھر کے پھل اور سبزیاں کاشت ہوتی ہیں اگر انھیں سبی کے راستے بذریعہ سڑک ملایا جائے تو سندھ کے بازاروں تک انکو رسائی حاصل ہو جائے گی اور یوں یہ علاقہ بہت جلد ترقی کرے گا۔ یہ بلوچستان کا ایک چھوٹا سا اکنامک کاریڈور تھا۔114 سا ل کی بندش کے بعد، میں نے اس سڑک پر کام کا آغاز کرایا۔ نواب خیر بخش مری افغانستان سے واپس آ چکے تھے۔

ان کے دونوں بیٹے سرکار میں وزیر تھے اور چونکہ یہ علاقہ  بجارانی مریوں کا تھا اس لیے یہاں زیادہ مزاحمت نہ ہوئی۔ سڑک مری قبائل کے تعاون سے ہی بننا شروع ہوئی۔

تقریباً 80 کلومیٹر تک روڈ مکمل ہو کر سانگان کے علاقے تک پہنچی تو اچانک نواب خیر بخش مری کے گیزینی مری قبائل کے لوگوں نے اسے روک دیا، اس لیے کہ اس کے بعد پشتون علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ لیویز وغیرہ کی مدد سے سڑک تو بنا دی گئی اور اس پر چند سرکاری گاڑیوں نے سفر بھی کر لیا، لیکن مری قبائل کی بلوچ سرزمین سے ہرنائی کے پشتونوں کو راستہ نہ مل سکا اور وہ آج بھی برف پوش پہاڑوں سے ہوتے، کوئٹہ اور پھر بولان یا پھر مستونگ کے ذریعے ملک میں اپنے پھل اور سبزیاں لے جاتے ہیں۔

کوئٹہ میں ہمیشہ پانی کی قلت رہی ہے۔ زیر زمین پانی بہت نیچے ہے۔ اس لیے اسے پینے کا پانی مہیا کرنے کے لیے بار بار منصوبے بنائے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک منصوبہ برج عزیز ڈیم کا بھی تھا۔ پشتون علاقوں پشین،  قلعہ عبداللہ اور چمن سے ایک برساتی نالہ کوئٹہ تک آتا ہے اور پھر کوئٹہ سے افغانستان میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں سے نوشکی کے علاقے کے قریب بلوچ قبائل مینگل، مجالدینی اور بادینی کی زمینوں کو سیراب کرتا ہوا ایک بڑی جھیل زنگی ناوڑ میں ضم ہو جاتا ہے۔ برج عزیز وہ مقام ہے جہاں سے یہ نالہ افغانستان میں داخل ہوتا ہے۔

وہاں پر بند باندھ کر کوئٹہ کے شہریوں کو پینے کا پانی مہیا کرنے کا منصوبہ80ء کی دہائی کے آخر میں بنایا گیا۔ اس منصوبے کے بعد اس قدر شور مچا کہ دونوں جانب آستینیں چڑھ گئیں، بیان بازی کا آتشیں سلسلہ ایسا جاری ہوا کہ کوئٹہ شہر آگ اور خون میں لت پت ہو گیا۔ اسی دوران یورپی یونین نے بلوچستان کے لیے امداد کے طور پر ایک زرعی کالج کی منظوری دی۔ کالج پشتون علاقے میں بنے یا بلوچ علاقے میں، اس پر اس قدر ہنگامہ کھڑا ہوا کہ کوئٹہ شہر بار بار کرفیو کی زد میں آنے لگا۔

لورالائی کے قریب چمالنگ ایک علاقہ ہے جس کا کوئلہ کوالٹی کے اعتبار سے انتہائی اچھا اور پنجاب کے نزدیک ہونے کی وجہ سے سستا پڑتا ہے۔ اس پر پشتون لونی اور بلوچ مری قبائل کا ایسا جھگڑا کھڑا ہوا کہ بیچارے ٹرک، ڈرائیور مارے جانے لگے۔ یہ تمام جھگڑے افغانستان میں روس کے آنے اور بلوچستان میں افغان مہاجرین سے پہلے بھی سلگتے تھے لیکن بعد میں تو بھڑک اٹھے۔

افغانستان سے آنے والے مہاجرین کے بارے میں یوں تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم انھیں پہچانتے ہیں لیکن انھوں نے جس طرح بلوچستان میں جائیدادیں بنائیں، یہاں اپنے ہم قبیلہ پشتونوں سے شادیاں کیں۔ بلوچستان کے چپے چپے میں موجود باغات سنوارنے کا کام کیا، مزدوری کی، گھر بنانے کے کام سے لے کر تندور لگانے تک سب کام کیے۔ یوں وہ اس معاشرے کی ضرورت بن گئے۔ لیکن 80ء کی دہائی میں ایک زمانہ ایسا آیا کہ یہ سلگتی ہوئی آگ پورے بلوچستان میں پھیل گئی۔ وہ راستے جو بلوچ علاقوں سے گزرتے تھے وہاں سے پشتونوں کے لیے سفر مشکل ہو گیا اور وہ تمام مزدور جو باغات اور دیگر جگہوں پر بلوچ علاقوں میں کام کرتے تھے واپس اپنے پشتون علاقوں میں لوٹ گئے۔

دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کا ایک حربہ ہے اور یہ بہت ہی کامیاب نسخہ ہے کہ کسی بھی خطے میں موجود اختلافات جنھیں (Fault Lines) کہا جاتا ہے ان کو ابھار کر خونریزی کروائی جائے ا ور مقصد پورا کیا جائے۔ جیسے شیعہ سنی اور عرب عجم کا جھگڑا عراق میں کامیاب رہا، اسی طرح پہلے پنجابی اور بلوچستان کی دیگر اقوام کے درمیان نفرت کا بیج کامیاب رہا،  اب پشتون بلوچ ’’فالٹ لائن‘‘ کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کو ابھار نے، اس کو شدید کرنے میں ایسے وہ تمام لوگ اکھٹے ہو چکے ہیں جو اس مملکت خدادا پاکستان کے آغاز ہی سے مخالف ہیں اور جن کو اسلام کے نام پر بنا ہوا یہ ملک ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔

آپ کو بہت جلد اخبارات، رسائل اور ٹی وی ٹاک شوز میں ایسے لوگ نظر آنا شروع ہو جائیں گے جن کا تو اب اس ملک میں قومیتی ’’فالٹ لائن‘‘ پر سیاست کرنا اور رنگ، نسل اور زبان پر انسانوں کو تقسیم کرنا ہے، کہ یہی ایجنڈا ان تمام ممالک کا ہے جو پاکستان کی تباہی پر متفق ہیں۔ احتیاط لازم ہے اور بہت کچھ جاننا ضروری ہے امن و امان کے لیے اٹھایا گیا ایک چھوٹا سا غلط قدم اس آگ کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔