ایک ہلکا پھلکا کالم

رئیس فاطمہ  ہفتہ 13 اکتوبر 2012

آج کچھ ہلکی پھلکی باتیں ہوجائیں کہ موجودہ افسردہ ماحول میں اس کی بڑی ضرورت ہے۔

ہر حسّاس انسان ذہنی اور اعصابی تنائو کا شکار ہے کہ ایک طرف ملک کی ابتر سیاسی اور معاشی صورت حال اور دوسری طرف مہنگائی کے بے قابو جن کا دھمال، ہر ہفتے تین تین دن کے لیے سی این جی کا بند ہوجانا اور پٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتوں کا مسلسل بڑھنا، جس گھر میں 8افراد ہیں اور ایک کمانے والا ہے اس کی تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ 3وقت کا رزق کہاں سے آئے اور پھر صرف پیٹ ہی تو نہیں ہے، دکھ ہے بیماری ہے، کپڑا لتّہ ہے، دوائیں ہیں اور ان کے علاوہ بہت سے دیگر اخراجات ہیں، کرے تو کیا کرے؟ لیکن جس گھر میں ایک سے زیادہ کمانے والے ہیں وہ بھی بے حال ہیں کہ مہنگائی کی مار تو بلاتفریق سب پر ہی پڑ رہی ہے۔

ماہانہ تنخواہ دار انسان سب سے زیادہ پریشان اور سب سے زیادہ گھاٹے میں ہے کہ سی این جی اور پٹرول کی قیمت بڑھی تو رکشا ٹیکسی اور ویگن والوں نے منہ بھر کے کرایہ مانگنا شروع کردیا۔ کوریئر سروسز نے بھی یکم اکتوبر سے لوکل، ملک کے اندر اور باہر ڈاک بھیجنے پر اتنا زیادہ اضافہ کردیا کہ ہوش اڑ گئے۔ عام پھل فروش سے لے کر بڑے دکان داروں تک سب کھل کھیل رہے ہیں۔ دھوبی ہو یا نائی سب نے اپنے معاوضوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کہ حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔

جب حکومت کا وجود ہی نہ ہوگا تو قانون کون نافذ کرے گا؟ ویسے بھی اس ملک میں ہر طبقے اور ہر شخص کے لیے الگ الگ قانون ہے۔ قانون کی تلوار صرف غریب اور بے وسیلہ فرد پر گرتی ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کے لیے قانون ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ ایک ٹیلی فون کال پر بڑے سے بڑا پولیس آفیسر سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ چند دن پہلے ہی اخبارات میں ایک اداکارہ کے حوالے سے ایک خبر شایع ہوئی کہ وہ اپنے صنعت کار دوستوں کے ساتھ لاہور کے ایک گیسٹ ہائوس سے گرفتار ہوئیں، لیکن فوراً ہی ایک بڑی شخصیت کی ٹیلی فون کال پر انھیں چھوڑ دیا گیا۔

اسی دن کے ایکسپریس میں نصرت جاوید نے ایک واقعے پر توجہ دلائی جس میں پشاور ہائی کورٹ کے روبرو ایک خاتون کا مقدمہ پیش ہوا کہ وہ خاتون اپنے گھر کو غلط کاموں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ مذکورہ خاتون پورے ایک ماہ تک روزانہ ایک گھنٹے تک ایک مخصوص مسجد کے امام کے پاس حاضری دیں۔ افسوس کہ اتنا بڑا واقعہ کراچی کے اخبارات میں نظر سے نہیں گزرا لیکن ہم اتنا تو ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک میں قانون موم کی وہ ناک ہے جسے اپنی مرضی سے جدھر چاہو موڑ دو۔

چلیں چھوڑیں ان تکلیف دہ اور بلڈ پریشر بڑھانے والی باتوں کو کہ وہ بھی بہت مہنگی ہوگئی ہیں کیونکہ ملک کی ابتر صورت حال اور گرتی ہوئی ساکھ نے لوگوں کا بلڈ پریشر بہت ہائی کرنا شروع کردیا ہے۔ اسی لیے آج کل ضرورت ہے ہلکی پھلکی کتابیں اور ہلکی پھلکی تحریریں پڑھنے کی، سو اس کی ابتدا ہم ہی کیے دیتے ہیں۔ مشفق خواجہ لکھتے ہیں:

(1)ریل کے سفر کے دوران دو مسافر گفتگو کررہے تھے۔ ایک نے کہا، ’’عبدالعزیز خالد کے شعر کسی کو یاد نہیں رہتے۔ اگر آپ ان کے 5 شعر سنادیں تو آپ کو میں 50 روپے دونگا۔‘‘ دوسرے نے فوراً خالد کے 5شعر سنادیے۔ پہلا بہت متعجب ہوا اس نے جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور شرط جیتنے والے کے حوالے کرتے ہوئے کہا، ’’اپنا تعارف تو کرائیے۔‘‘ شرط جیتنے والے نے نوٹ اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا، ’’میں ہی تو عبدالعزیز خالد ہوں۔‘‘

(2) جن دنوں فیروز خان نون وزیراعظم تھے۔ پروفیسر ایس ایم شریف نے ان سے درخواست کی کہ انھیں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا چیئرمین بنادیا جائے۔ نون صاحب نے اس کے جواب میں کہا، ’’آپ میں اس کی صلاحیت نہیں‘‘ شریف صاحب کو تائو آگیا فرمایا، ’’اگر آپ صلاحیت کے بغیر وزیراعظم بن سکتے ہیں تو میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا چیئرمین کیوں نہیں بن سکتا۔‘‘

غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں شاعری کی ایک کتاب کے اجرا کے سلسلے میں مجتبیٰ حسین (مزاح نگار) نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس کتاب کی مقبولیت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ چھ ماہ میں ہی اس کا دوسرا ایڈیشن منظرعام پر آگیا۔ اس موقع پر خصوصی رعایت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ دوسرے ایڈیشن کی ایک جلد خریدنے والے کو اس کے پہلے ایڈیشن کی دو جلدیں مفت دی جائیں گی۔‘‘

مجتبیٰ صاحب کو شاید علم نہیں تھا کہ پاکستان میں کیسا کیسا کاریگر پڑا ہے، وہ پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے چند ہفتوں بعد ہی ایک صفحہ پھاڑ کر دوسرا صفحہ بائنڈر سے جڑوادیتے ہیں جس پر جلی حروف میں ’’بار دوم‘‘ لکھا ہوتا ہے، بلکہ اب تو یوں بھی ہونے لگا ہے کہ پہلی کاپی کے پچاس نسخے چھپنے کے بعد ایک تعداد والا نیا صفحہ لگا کر کاپی جوڑ دی جاتی ہے اور یوں حسبِ منشا دوسرا اور تیسرا ایڈیشن بازار میں آجاتا ہے۔ بعض پرانے کھلاڑی یوں بھی کرتے رہے ہیں کہ آرٹ پیپر پر شایع شدہ وہ شعری مجموعے جو ان کی زمینداری کی دین ہیں۔

خود ہی جعلی خریدار بھیج کر مارکیٹ سے اٹھوا لیتے ہیں تاکہ بکنے کی سند رہے اور پھر وہی ایک تعداد لکھنے والا صفحہ پھاڑ کر دوسرا جڑوا دیا جاتا ہے۔امجد اسلام امجد نے اپنے سفرنامے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ لکھا ہے فرماتے ہیں۔ ’’غالب کی صد سالہ برسی کے دنوں میں پاکستان نیشنل سینٹر کے صدر دفتر سے تمام نیشنل سینٹروں کو ہدایت کی گئی کہ دیگر تقریبات کے ساتھ ساتھ غالب کی زمینوں میں ایک عدد مشاعرے کا بھی اہتمام کیا جائے۔ اس پر ایک ریذیڈنٹ ڈائریکٹر نے جواب لکھا تھا کہ ’’جناب میں نے شاعر تو سارے بک کرلیے ہیں مگر یہ بتایا جائے کہ غالب کی وہ زمینیں کہاں ہیں جن پر مشاعرہ کروانا ہے کیونکہ مجھے تلاش کرنے کے باوجود ان کا سراغ نہیں مل رہا۔‘‘

اب کچھ پیروڈیاں بھی ملاحظہ فرمائیے۔ پیروڈی دراصل یونانی زبان کا لفظ ہے جس میں شعر میں معمولی سا ردوبدل کرکے مزاح پیدا کیا جاتا ہے، جیسے عبدالحمید عدم کے شعر:

شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

قتیل شفائی نے پہلے مصرعے میں معمولی سا ردوبدل کرکے یوں مزاح پیدا کردیا۔

شاید مجھے نکال کے کچھ کھارہے ہوں آپ
قتیل شفائی کا ایک شعر ہے۔

اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی

اس کی پیروڈی اس طرح کی گئی دوسرے مصرعے میں ردوبدل کرکے:

روتے روتے بیٹھ گئی آواز قتیل شفائی کی

کسی ستم ظریف نے ایک مصرعہ اقبال کا لیا اور دوسرا فیض کا اور یہ پیروڈی سامنے آئی۔

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے

اس میں پہلا مصرعہ اقبال کا ہے اور دوسرا فیض کی نظم ’’کتے‘‘ کا۔

اب ایک اور دلچسپ واقعہ سنیے۔
ہری پور ہزارہ میں قتیل شفائی اور ان کے دوستوں نے 1939 میں ڈاکٹر اقبال کی پہلی برسی کے سلسلے میں مشاعرے کا اہتمام کیا۔ چندہ اکٹھا کرنے کے سلسلے میں، جب ایک دکان دار کو انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر اقبال کی برسی کے سلسلے میں یہ مشاعرہ ہورہا ہے تو اس نے آبدیدہ ہو کر پوچھا، ’’کیا سچ مچ ڈاکٹر اقبال وفات پاگئے ہیں۔‘‘

اس پر قتیل شفائی نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’کیا آپ انھیں جانتے تھے؟‘‘ اس پر انھوں نے فرمایا، ’’کیوں نہیں، ابھی دو سال پہلے میری بھینس بیمار ہوئی تھی تو انھوں نے بڑی توجہ سے اس کا علاج کیا تھا۔‘‘ یہ سننا تھا کہ قتیل شفائی اور ان کے ساتھی بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔