تحقیق و جستجو اور سائنس

عابد محمود عزام  جمعـء 5 جون 2015

’’تحقیق‘‘ کا لفظ بنیادی طور پر کسی موجودہ یا نئے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حقائق کے حصول کی جستجو کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ایجادات و اختراعات، بازیافت ودریافت کا عمل کسی بھی طرح بہ حسن وخوبی انجام نہیں پا سکتا۔ گویا انسانی زندگی کی روانی میں تحقیق کا اہم حصہ ہے اورانسانی تاریخ کی ساری ترقی اورکامیابی اسی صفت کی مرہون منت ہے۔

جب کہ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے، جس کو جستجو کرتے ہوئے تحقیق کی گھاٹی سے گزرکر اپنا مقصد پالینے کا حد درجہ شوق ہے۔کوئی خوش سلیقگی کے ساتھ اس عمل سے گزر جائے تویقیناً کامران ٹھہرتا ہے اور اس کی کامیابی سے دوسروں کے اذہان، قلوب اور جسم وجان کی سیرابی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔

زندگی کے ہر شعبے میں ’’سائنس‘‘ کی نمایاں ترقی ’’تحقیق‘‘ کے مرہون منت ہی ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں سائنس کی دنیا میں بہت بڑے اقدامات اٹھائے گئے۔ انسانی زندگی پر سائنس کے کرشموں کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سائنس نے توانائی، زراعت، طب، ہتھیاروں، خلا، مواصلات، ٹرانسپورٹ اورکمپیوٹر وغیرہ کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہوا ہے۔ سائنس کی مدد سے پوری دنیا کی قومیں ایک دوسرے کے نزدیک آ گئی ہیں اور پوری دنیا نے ایک گلوبل گاؤں کی شکل اختیار کرلی ہے۔ انٹرنیٹ کو ہی دیکھ لیجیے۔ اب ہزاروں میل کی دوری کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

دور دراز بیٹھ کر بھی لوگ بیک وقت اپنے عزیزوں کی آواز کو اپنے کانوں سے سن اور لب و لہجے وصورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ گویا اپنے گھروں میں بیٹھ کر لوگ ہزاروں میل کی مسافت پر موجود اپنوں سے بالمشافہ ملاقات کا حظ اٹھا سکتے ہیں۔ اب کوئی بھی شخص اپنے موبائل پر بھی وہ سب حاصل کر سکتا ہے، ماضی میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

تحقیق کی مدد سے سائنس روز نت نئی اور حیران کن ایجاد دنیا کے سامنے لے آتی ہے۔ بعض ایجادات تو اس حد تک عقل کو دنگ کر دینے والی ہوتی ہیں کہ ان کی صداقت پر آسانی سے یقین ہی نہیں آتا۔ تقریباً ڈیڑھ دو سال قبل ایک امریکی کمپنی نے آواز اور آنکھوں کے اشاروں سے کمپیوٹر کو تابع کرنے کا فن جانا تھا، لیکن اب سائنس نے مزید ترقی کرتے ہوئے حال ہی میں حیران کن پیش رفتوں میں ایک ناقابل یقین پیش رفت کا اضافہ کیا ہے۔

ایجاد قدرے توجہ طلب اور حیران کن ہے۔ اسپین میں باسک سینٹر برائے دماغ، زبان اور ذہنی صلاحیت کے ماہر بلیئر آرمسٹرونگ نے ذہنی سوچ سے کمپیوٹر کھولنے اور لاگ آن کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے، جسے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا انقلاب قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کی جانب سے تیار کیا گیا یہ سسٹم کامیابی سے کام کرتا ہے۔

جس کے بعد جلد ہی پاس ورڈ اور فنگر پرنٹس سے نجات کے ساتھ کمپیوٹروں تک رسائی تیز ہو جائے گی اور مستقبل میں اسے مزید بہتر بنا کر حساس نیٹ ورکس اور فوجی تنصیبات کے لیے استعمال کرنا ممکن ہو گا۔ یقیناً یہ عجیب اور ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والی پیش رفت ہے، جو کہ صرف تحقیق کا نتیجہ ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیق ہی نے اس قابل بنایا کہ آج وہ ایسی چیز پیش کر سکے ہیں، جس کی بہ ظاہر کوئی اور مثال نہیں ہے۔

اہل مغرب نے تحقیق وجستجو کے بل بوتے پر نہ صرف دنیا بھر میں اپنی فوقیت کا لوہا منوایا ہے، بلکہ ان کی ایجادات سے موجودہ دور میں انسان کو ہر قسم کی سہولت بھی میسرآئی ہے۔ افسوس! تعلیم و تحقیق پرعدم توجہ کے باعث دنیا کے تمام مسلمان ممالک ملکر بھی سائنس کے میدان میں مغرب والوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ مسلم ممالک سائنس کی ترقی میں مغرب سے میلوں پیچھے ہیں، حالانکہ آج کی جدید سائنس کی بنیاد صدیوں پہلے مسلمان سائنس دانوں نے اپنی تحقیق اور ایجادات کے ذریعے رکھی تھی۔ مسلمان سائنس دانوں نے دنیا کو ایسی ایجادات کے تحفے دیے، جن میں سے بہت سی تو آج بھی دنیا کے استعمال میں ہیں۔

تجرباتی سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی۔ اس کا اعتراف ترقی یافتہ دنیا نے بھی کیا ہے۔ انگریز مصنف ’’رابرٹ بریفالٹ‘‘ نے اپنی کتاب ’’The Making of Humanty‘‘ ’’دی میکنگ آف ہیومینٹی‘‘ میں لکھا ہے ’’مسلمانوں نے سائنس کے شعبے میں جو کردار ادا کیا وہ حیرت انگیز دریافتوں یا انقلابی نظریات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس ان کی مرہون منت ہے۔‘‘ جب کہ ایک دوسرے انگریز مصنف ’’جان ولیم ڈریپرا‘‘ نے اپنی کتاب ’’یورپ کی ذہنی ترقی‘‘ میں لکھا ہے۔

’’مسلمانوں نے سائنس کے میدان میں جو ایجادات و اختراعات کیں، وہ بعد میں یورپ کی ذہنی اور مادی ترقی کا باعث بنیں۔‘‘ ایک دور تھا جب مسلمانوں نے تحقیق و جستجو کا دامن تھاما ہوا تھا، جس کی بدولت وہ سائنس پر چھائے ہوئے تھے، اس دور میں الخوارزمی، رازی، ابن الہیشم، الازہروی، بو علی سینا، البیرونی، عمرخیام، جابر بن حیان اور فارابی جیسے سائنس دان پیدا ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا ابھی تک ماضی کے مسلمان سائنسدانوں جیسی شخصیات پیش نہیں کر سکی تو غلط نہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ماضی کے مسلمان سائنسدان اپنی تحقیقات کی بدولت سائنس میں مشرق و مغرب کے امام مانے جاتے ہیں۔ بہت سی مغربی یونیورسٹیوں میں تو آج بھی مسلمان سائنسدانوں کی کاوشوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

تعلیم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی کی قدرو قیمت سے آگاہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور ان جاری لمحوں میں اگرکوئی اس کی حقیقت سے انکاری ہے تو وہ کھلے فریب میں مبتلا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اس دور کی ایک بڑی حقیقت ہے، جس کے بغیر چارہ نہیں ہے اور اس راہ پر کامیابی حاصل کرنا کوئی ناممکن بھی نہیں ہے۔ ذرا سمت درست کرنے کی دیر ہے۔ ذہن میں بٹھانے کی حاجت ہے کہ یہ دنیا عمل کے لیے ہے اور اس میں جو کوئی بھی’’جہدوعمل‘‘ کے حکم کو بھول گیا، وہ وقت کی رفتار سے پیچھے رہ گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ جدید دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ تب ہی ملتا ہے، جب ان مادی وسائل پر مکمل قدرت ہو۔ ہم میں سے اکثر اس بات سے آگاہ ہیں کہ اہل مغرب نے تحقیق و جستجو کا دامن تھام کرکوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کو اپنے لیے توانائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

ضایع پانی کو دوبارہ قابل استعمال کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر مخصوص آلات نصب کر کے ان کے ذریعے توانائی حاصل کرنے کا ہنرجان لیا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیںجو موجود وسائل اور ظاہر ذرایع کو بھی استعمال کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ تحقیق و تجربات کے ذریعے ان وسائل سے کچھ اخذکرنا کوئی مشکل نہیں ہے، بس ایک دیانت دارانہ فیصلہ ہمیں سیدھے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ اگر ہماری قیادتیں تعلیم پر توجہ دیں اور مسلم ممالک میں یونیورسٹیوں کی تعداد اور معیار بہتر بنانے کی سعی کریں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ انقلاب کی سی صورت تعلیم و تحقیق اور سائنس وٹیکنالوجی پر بھرپور توجہ دے کر ہی پیدا ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔