کیا کیا چھوڑیں ہم؟

شیریں حیدر  ہفتہ 13 اکتوبر 2012
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بستر پر لیٹی تو سوچ رہی تھی کہ ہر ’’لاپتہ‘‘ کی کڑیاں حساس ادارے سے ملائی جاتی ہیں۔

اب حساس ادارے کے ایک افسر کا اغوا ور ان کے ڈرائیور کا قتل، ان کے گھر سے نکلتے ہی ایک آباد علاقے سے اغوا ہو جانا! اسے کس کے کھاتے میں ڈالا جائے گا؟ ڈیفنسII۔ اسلام آباد کا علاقہ ابھی اتنا گنجان آباد نہیں مگر ایسا بھی آسان نہیں کہ یہاں سے کسی کو قتل اور اغوا کر کے فرار ہو جایا جائے؟ ہم تو خود کو اتنا محفوظ سمجھتے تھے کہ ڈیفنس ٹو ایک ایسی آبادی ہے جو ہر طرف سے چار دیواری میں محفوظ ہے، اس کے داخلے اور خروج کے آٹھ گیٹ ہیں جن میں سے تین اس وقت مستعمل ہیں۔

دل ابھی تک ملالہ اور اس کے ساتھ زخمی ہونے والی بچیوں کی طرف سے ملول تھا، جنھیں جانے کس جرم کی پاداش میں اس سفاکی سے نشانہ بنایا گیا اور وہ معصوم بچیاں موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔ ہر ہر کروٹ کے ساتھ دعائیں کر رہی تھی کہ اللہ سب پر کرم کرے۔ دوسروں کا دکھ سنا اور اس پر افسوس کیا جا سکتا ہے مگر ان کی طرح سے محسوس کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

اپنے دفتر سے اٹھتے اٹھتے مجھے چار بج جاتے ہیں، واپسی پر کچھ نہ کچھ کام ہوتا ہے کہ انھیں جلدی جلدی کرتے ہوئے بھی… ایف الیون سے ڈیفنس ٹو تک پہنچتے پہنچتے آج کل سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے۔ گھر پہنچ کر چائے پینے کے دوران ہی مغرب ہو جاتی ہے اور مغرب کے بعد صاحب گھر لوٹتے ہیں تو وہی ہمارا رات کے کھانے کا وقت ہوتا ہے۔ رات کو جلدی سونے اور صبح سویرے اٹھنے کے اصول پر ہم سختی سے کار بند ہیں… ڈیفنس۔2 کے زیادہ تر گھروں کی طرح ہمارے گھر کا قصہ بھی ہے کہ بچے اپنی پڑھائیوں کے سلسلے میں یا بیاہ کر اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے ہیں اور ہم ماں باپ گھر بنا کر، ان گھروں میں ان کے کمرے سجا کر ان کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

عام دنوں جیسا ایک دن تھا اور عام شاموں جیسی شام، جب میں راستے سے چند کام نمٹاتی ہوئی گھر لوٹی تو صاحب ابھی تک نہ لوٹے تھے۔ کھانا تیار کیا اور انتظار کرنے لگے،اماں جی بے قراری سے کبھی اٹھتیں اور کبھی بیٹھتیں، میں اس خیال میں تھی کہ دیر سویر ہو جاتی ہے… ممکن ہے کہ ٹریفک میں پھنس گئے ہوں۔ فون کرنے کا ارادہ کیا اور فون کیا تو ان کا فون بند… یقیناً فون چارج نہیں کیا ہو گا اور بیٹری ’’ڈیڈ‘‘ ہو گئی ہو گی۔ کھانا تیار ہو چکا تھا،بلکہ ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔ اب سوائے انتظار کے کوئی چارہ نہ تھا کہ جب تک فون دوبارہ چارج کر کے آن نہ ہوتا، ان سے رابطہ کیونکر کیا جاتا۔ ایک گھنٹہ انتظار کا یوں گزرا کہ جیسے کئی گھنٹے گزر گئے ہوں۔

’’کڑئیے… کہیں اور کال کر کے کسی اور سے ہی معلوم کر لو!‘‘ میں اس وقت ان کے مخصوص ’’کڑئیے‘‘ کہنے کے انداز سے بھی محظوظ نہ ہو سکی تھی۔ جس کسی کو بھی میں کہتی، اس نے بھی تو انھیں فون کر کے ہی معلوم کرنا تھا نا کہ وہ کہاں ہیں، دفتر سے وہ اٹھ چکے تھے اور اب رابطہ فقط موبائل فون پر ہی ممکن تھا جو وہ اٹھا ہی نہ رہے تھے، مگر اماں جی کی تسلی کے لیے وہ بھی کیا اور فون کر کے بھائی صاحب کو بتایا کہ ’’وہ‘‘ ابھی تک نہ لوٹے تھے۔ انھوں نے تسلی دی کہ وہ کہیں سے معلوم کرتے ہیں۔ تقریبا ایک گھنٹے کے بعد وہ آئے تو ان کے پورے چہرے پر تشویش کسی میک اپ کی طرح لپی ہوئی تھی… ’’معلوم نہیں وہ کہاں چلے گئے!‘‘

اماں جی تو وہیں ڈھے گئیں اور میری رگوں میں بے چینی 180×40سے کی رفتار سے گردش کرنے لگی، دل پرندے کی طرح پسلیوں کے پنجرے میں پھڑپھڑانے لگا۔ میں نے پانی کا گلاس لا کر اماں جی کو دیا اور بھائی صاحب سے کچھ کرنے کو کہا۔ انھوں نے وہیں بیٹھ کر اپنے موبائل فون سے دس بارہ فون کیے اور تھوڑی دیر میں ان کے گھر والے بھی پہنچ گئے۔ بھابی نے کھانا گرم کیا اور ان کے مجبور کرنے کے با وصف بھی ایک نوالہ بھی نہ لیا گیا، ’’دودھ ہی پی لیں آپ لوگ…‘‘ انھیں علم تھا کہ دن بھر میں کچھ بھی کھانے کے نام پر نہیں کھایا ہوتا مگر اس وقت تو حلق بند تھا اور کچھ بھی اچھا نہ لگ رہا تھا۔

ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ایک تفتیشی ٹیم گھر پر تھی، انھوں نے فون کا نمبر، ماڈل اور ای ایم آئی نمبر پوچھا، پہلے دو سوالوں کا جواب تو تھا مگر ای ایم آئی نمبر کا مجھے علم نہ تھا، ’’ چلیں ہم نکلوا لیں گے…‘‘

’’کسی سے کوئی دشمنی؟ کوئی لین دین کا معاملہ؟ کوئی جھگڑا ہوا ہو کسی سے؟ کسی ملازم کو فائر کیا ہو؟ کسی دفتری ملازم یا ماتحت سے ناراض ہوئے ہوں یا ملازمت سے چھٹی کا پروانہ دیا ہو (اس سوال کا جواب مجھے علم نہ تھا)، گاڑی چلانے کے دوران کسی سے اس کی غلطی پر جھگڑا کرنے کو گاڑی سے باہرتو نہیں نکل جاتے؟ کیا روزانہ ایک ہی روٹ سے دفتر جاتے ہیں؟ آپ کو کسی اور عورت کے بارے میں کوئی شک شبہ تو نہیں؟ (اس سوال پر میں نے انھیں گھوری ماری مگر اندر سے ایک خوف نے دل کے عین وسط میں چٹکی لی تھی)

’’لگتا ہے کہ انھیں اغوا کر لیا گیا ہے…‘‘ تفتیشی افسر نے کہا تو بھائی صاحب سے تھا مگر میرے چراغوں میں روشنی نہ رہی تھی، یعنی میں بے ہوش ہو چکی تھی اور اس بے ہوشی میں مجھے یہ بھی علم نہ تھا کہ اماں جی پر کیا بیتی۔ بڑی بیٹی کی آواز پر ہوش آیا جو میر ے منہ پر پانی کے چھینٹے مار مار کر مجھے ہوش دلانے کی کوشش کر رہی تھی،سب بچے پاس نظر آئے۔ یہ سب کیوں آئے ہیں… ہوش میں آنے کے بعد جس پریشانی کو بے ہوشی نے بھلا رکھا تھا وہ پوری ہولناکی سے مجھ پر واضح ہو گئی۔ میں پھر بے ہوش ہونے کو تھی کہ راحم کا چہرہ نظر آیا اور میں اٹھ بیٹھی… ’’راحم پیارے! تم پاپا سے ملنے آئے ہو اور پاپا کا کچھ پتا نہیں ہے…‘‘ سب کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔

’’پھوپھو اٹھ کر اپنا حلیہ ٹھیک کر لیں، باہر میڈیا والے آئے ہوئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں…‘‘ میں نے چونک کر دیکھا اور سوال کیا کہ انھیں کس نے بلایا ہے۔ ’’ ارے انھیں کسی کو بلانے کی ضرورت کہاں ہوتی ہے، وہ تو خود سونگھتے پھرتے ہیں… ‘‘ مگر میں نے متردد ہو کر کہا کہ ان کا سامنا میں اس پریشانی میں کس طرح کر سکتی ہوں؟ ٹیلی وژن کے مارننگ شو میں اپنی صلاحیتوں کی بنا پر انٹرویو کیے جانا ایک الگ بات ہے اور یوں پریشانی کے عالم میں کیمروں اور میڈیا کے سوالات کا سامنا کرنا بالکل مختلف بات… تاہم سب کے مجبور کرنے پر اپنا حلیہ درست کرنے کے لیے اٹھ کر اپنے ڈریسر میں گئی … آئینے میں مجھے اپنے بجائے کسی اور عورت کا عکس نظر آیا، پیلے چہرے، اڑے اڑے بال، آنکھوں میں وحشت… یہ کون ہے؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ آئینے نے بتایا کہ وہ میں ہی تھی، ناقابل یقین! کوئی ایک دن میں اتنا بوڑھا کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟

مجھے اپنے بچوں کو دیکھ کر بھی خوشی کیوں نہ ہوئی تھی؟ کیا کوئی دکھ، کوئی غم ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ماں کی آنکھوں کو اولاد کو دیکھ کر بھی ٹھنڈک نہ دے؟ میں اسی حلیے میں باہر آگئی، دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کو غم کس طرح چاٹ لیتا ہے… اس کے لیے اس سے بڑا دکھ کیا ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی پیارا لا پتہ ہو جائے!!! داخلی دروازہ کھولتے ہی مجھے لگا کہ میں کسی ایس تقریب میں ہوں جہاں ایوارڈز دیے جانا تھے۔ پورا جی سیکٹر تاحد نظر، مختلف ٹیلی وژن چینلوں کی وینوں سے ایک بازار کی طرح سجا ہوا تھا، انٹینے اور مائیک کی بہتات نظر آئی۔ اپنے دروازے سے باہر بھی نہ نکلی تھی کہ چینلوں کے اینکر شہد کی مکھیوں کی طرح چمٹنے لگے…

…آپ کے خیال میں ملالہ کو کس نے قتل کرنے کی کوشش کی ہے؟

…وزیراعظم کے خط لکھ دینے سے کیا ہماری لوٹی ہوئی دولت واپس مل جائے گی؟

…کیا آیندہ الیکشن جیتنے کے لیے ن لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد معاون ثابت ہو سکتا ہے؟

’’آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کس سلسلے میں یہاں آئے ہیں!! ‘‘ میں نے غصے کو دباتے ہوئے نحیف سی آواز میں کہا تو کسی ایک نے سوری کہا اور مائیک میرے منہ میں گھسیڑتے ہوئے سوال کیا۔

’’کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کے شوہر کی گمشدگی میں حساس ادارے کا ہاتھ ہے؟‘‘ مائیک کا کڑوا ذائقہ میرے ہونٹوں کو چھو کر معدے تک اتر گیا۔ میں نے اپنی مخصوص گھوری سے اسے دیکھا اور اس کا مائیک جھٹکا۔ مجھے ایسے فضول سوالوں کا جواب نہ دینا تھا۔ ’’حساس ادارے کو ہم سے کیا دشمنی ہو گی،حساس ادارے کو ان سے جو کچھ پوچھنا ہو، وہ ہمارے گھر آ کر ہمارے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بھی پوچھ سکتے ہیں…‘‘ ’’کیوں اور کیسے؟‘‘ حیرت سے پوچھا گیا، اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں مجھے۔

مجھے لگ رہا تھا کہ میں بے ہوش ہونے کو ہوں کہ ’’ٹن ٹن ٹن ٹن‘‘ کی آواز آنے لگی، میں نے دائیں بائیں دیکھا، کچھ سمجھ میں نہ آیا، آواز اونچی ہونے لگی… سڑک کا سارا منظر مدہم ہو گیا اور میرے کمرے کی ہلکی ہلکی روشنی میں بدل گیا۔ ’’اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے، میں نے آنکھ کھلتے ہی کہا، یہ جان کر کہ یہ ایک خواب تھا… مگر جن کے لیے یہ خواب نہیں ہوتا!!!!!! مجھے اغوا ہونے والے افسر کے گھر والوں کا خیال آیا… ہم کہیں محفوظ نہیں رہے کیا؟ اپنے گھروں میں بھی نہیں؟ والد صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے گھر سے غیر ضروری باہر نہیں نکلنا! رات کو کھانے کے بعد سیر بھی نہیں کرنی، ہوسکے تو کہیں اور شفٹ ہو جاؤ!! کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی والد صاحب! آپ کے کہنے پر ہم سیر بھی چھوڑ دیتے ہیں، شاپنگ اور تفریح بھی چھوڑ دیتے ہیں، کہیں تو ملازمتیں بھی چھوڑ دیں… لیکن کیا اس سے ہم محفوظ ہو جائیں گے؟ کیا ہمارے آنکھیں بند کر لینے سے خطرہ ٹل جائے گا؟ کل کو حالات اور بھی مشکل ہو جائیں تو کیا ہم ملک چھوڑنے کا سوچنے لگیں؟؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔