- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
رقص موت کا
انیسویں صدی کے وسط میں ایک غریب یونانی عطر فروش کے ہاں پیدا ہونے والے باسل ظاہروف کی زندگی تضادات کا عجیب مجموعہ تھی۔ اس کا غربت کی گہرائی سے امارت کی اونچائی کا سفر کسی دیومالائی داستان سے کم نہیں۔ اس نے اسلحے کے ایک معمولی آڑھتی کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گیا۔ ظاہروف کا یہ سفر چالاکی، عیاری اور مکاری سے عبارت ہے۔ وہ ایک خدا ترس آدمی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا اور ایک ایسے عاشق کے طور پر بھی جس نے 30 سال کے طویل انتظار کے بعد اپنی محبوبہ سے شادی کی۔ ظاهروف کا شمار اپنے وقت کے امیر ترین آدمیوں میں ہوتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ’’موت کا تاجر‘‘ اور ’’یورپ کا پراسرار آدمی‘‘ کے ناموں سے بھی جانا جاتا تھا۔
ہم ظاہروف کو تاریخ کے سفاک اور خود غرض ترین انسانوں میں بھی شامل کرسکتے ہیں، جس نے اپنے اسلحے کے کاروبار کو ترقی دینے کے لیے جرمنی، برطانیہ، خلافت عثمانیہ اور روس سمیت کئی ممالک کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ جنگ عظیم اول کے دوران اس نے اتحادی افواج کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی جس کے صلے میں اسے فرانس اور برطانیہ کے اعلی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ظاهروف کی شخصیت اس قدر متنازع اور پُر اسرار ہے کہ اُس کے حالات زندگی کے بارے میں بہت کم باتیں پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہیں، یہاں تک کہ اسکے اصل وطن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ وہ یونانی نسل سے تھا اور ترکی میں پیدا ہوا اور پیرس میں رہتا تھا، بعض لوگوں کے مطابق اس کو 14 زبانیں آتی تھیں اور مرنے سے پہلے اُس نے پچاس جلدوں پر مشتمل اپنی سوانح حیات اور دیگر دستاویزات نذر آتش کر دی تھیں۔
تاہم اس کی ذاتی زندگی کے متعلق حقائق پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ اُس کے دفتری معمالات، خط و کتابت، تقریریں، میٹنگز وغیرہ کے متعلق کچھ علم نہیں لیکن اِس تمام پراسراریت کے باوجود اُس کی کاروباری کامیابیوں پر کسی کو کوئی شک نہیں۔ اسلحہ کی صنعت میں اس نے بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ بعض کے مطابق دنیا کی پہلے آٹومیٹک مشین گن اور آبدوز کی مارکیٹنگ میں اس کا بہت اہم کردار تھا، جس نے یقیناً اس کو بے حد مالی فائدہ پہنچایا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اُس نے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اک بینک اور اخبار بھی خرید لیا، اِس کے ساتھ ساتھ اس نے فلاحی کاموں پر بھی توجہ دی اور کئی یونیورسٹیوں کو بھی گرانٹ وغیرہ فرہم کی۔
ہم ظاہروف کی شخصیت سے ہزار اختلافات کرسکتے ہیں لیکن اُس نے کاروبار کا ایک ایسا سنہری اصول مرتب کیا جس پر آج بھی مانتے یا نہ مانتے ہوئے تمام کاروباری لوگ کاربند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اصول ڈیمانڈ اور سپلائی یعنی مانگ اور رسد سے متعلق ہے۔ کوئی بھی کاروبار عام طور پر کسی بھی چیز کی ضرورت اور مانگ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ آپ کبھی بھی بریلی کے لوگوں ںکو بانس، سائبیریا کے رہاشیوں کو برف اور اتھوپیا کےباسیوں کو ہیٹر نہیں بیچ سکتے۔ ظاہروف نے اس اصول کو بدل دیا۔ اُس نے ’’کریٹ دی ڈیمانڈ‘‘ کے فلسفے کو اپنایا۔ یعنی اگر کسی چیز کی مانگ نہیں ہے تو وہ مانگ پیدا کردو، کاروبار چل نکلے گا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اٹلی، ترکی، اور یونان کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے تھیں اور دونوں طرف کے سپاہی ظاہروف کے کارخانوں کی گولیاں اور اسلحہ استعمال کررہے تھے اور ظاہروف کی تجوریاں میں نوٹوں سے بھر رہیں تھی۔
ظاہروف کی موت کے تقریباً 80 برس بعد آج بھی موت کا یہ کاروبار اُسی آب وتاب سے جاری ہے۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کے ظاہروف کی جگہ امریکا اور یورپ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اور مرنے کے لیے لوگوں کی فراہمی کا بندوبست مسلمانوں اور افریقہ کے ممالک نے اپنے سر لے لیا ہے۔ لہذا اسلحے کا کاروبار انسانی المیے کے باوجود آج بھی سب سے منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے اور تہذیب یافتہ ممالک اپنی انسان دوستی کے تمام دعوؤں کے باجود خون کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
ستم یہ ہے کہ کئی ترقی یافتہ ممالک اسلحے کے کاروبار میں ظاہروف کے دیے ہوۓ ’’کریٹ دی ڈیمانڈ‘‘ کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں اور دنیا میں انتشار کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات طے ہے کہ خواہ کتنی ہی تنظیمیں کیوں نہ بنالی جائیں اور کتنے ہی امن معاہدات کیوں نہ کر لئے جائیں، جب تک اسلحے کے کاروبار میں ظاہروف کا دیا ہوا ’’کریٹ دی ڈیمانڈ‘‘ کا فلسفہ حاوی رہے گا، عراق سے لے کر فلسطین اور افغانستان سے لے کر یوکرائن تک موت کا یہ رقص جاری ہے اور جاری رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔