فیچر! معذوری، اب اور نہیں!

سید بابر علی / اشرف میمن  اتوار 7 جون 2015
یہ بیٹری ایک دفعہ چارج کرنے کے بعد بازو میں دو سے تین دن جب کہ ٹانگ میں چار سے پانچ دن چلتی رہتی ہےہیں ۔  فوٹو : فائل

یہ بیٹری ایک دفعہ چارج کرنے کے بعد بازو میں دو سے تین دن جب کہ ٹانگ میں چار سے پانچ دن چلتی رہتی ہےہیں ۔ فوٹو : فائل

معذوری ایک ایسا لفظ ہے جسے سُن کر ہی ہر ذی ہوش شخص کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ لفظ بہ ذات خود اتنا بھیانک نہیں لیکن اس کے ساتھ جُڑی، محتاجی، بے بسی کا تصور کرتے ہی روح تک کانپ جاتی ہے۔

لیکن کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی حادثہ ایک متحرک انسان کو معذوری سے دوچار کرکے وہیل چیئر تک محدود کردیتا ہے۔ معذوری ازل سے ہی بنی نوع انسان کے لیے تکلیف کا باعث رہی ہے۔ ماضی میں ہاتھ ، پیر سے محروم ہونے والے انسانوں نے محتاجی ختم کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے۔ کچھ نے لکڑی سے بنے مصنوعی اعضا استعمال کیے تو کچھ نے ہلکی دھاتوں کی مدد سے اپنی معذوری کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

گزرتے وقت کے ساتھ ان میں مزید بہتری آتی گئی۔ پلاسٹک، دھات یا لکڑی سے بنے ان اعضانے ظاہری طور پر تو معذوری کا شکار افراد کا عیب دور کردیا، لیکن وہ ان سے کوئی کام کرنے سے قاصر تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیزرفتار ترقی نے اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے ایسے اعضاء بنانے شروع کیے جو وزن میں ہلکے اور خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ حرکت پذیر بھی تھے۔

ان بایونک آلات کا استعمال قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں تو کافی ہورہا ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں ایک عام آدمی انہیں خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے ملک پاکستان میں جہاں ہزاروں افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہیں بم دھماکوں، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں معذور ہونے والے افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ پاکستان میں آج بھی ہاتھ پیروں سے معذور افراد کی وسائل نہ ہونے کے سبب زمانۂ قدیم میں استعمال ہونے والے پلاسٹک اور لکڑی سے بنے مصنوعی اعضا( ہاتھ، ٹانگ، بازو وغیرہ) استعمال کر رہے ہیں۔

چند برس قبل پاکستان کے معاشی حب کراچی میں بایونک اعضاء بنانے والے ایک ادارے کا قیام وجود میں آیا۔ تھائی لمب سینٹر کے نام سے قائم یہ ادارہ اپنے قیام سے اب تک قبائلی علاقوں میں ڈرون اور بم حملوں میں ہاتھ پیروں سے محروم ہونے والے افراد سے لے کر خطرناک حادثات میں معذور ہونے والے سیکڑوں افراد کی زندگی کو خوشیوں سے بھر چکا ہے۔ اس حوالے سے تھائی لمب سینٹر کے بانی سلطان علی کا کہنا ہے’’الیکٹرانکس کھلونے اورروبوٹ بچپن ہی سے دل چسپی کا محور تھے۔

بچپن میں کھلونوں کو تختۂ مشق بنایا۔ بڑے ہونے کے بعد الیکٹرانکس اور روبوٹکس کے پیشے کو مستقل اپنا لیا۔ بیجینگ یونیورسٹی سے الیکٹرونکس میں بیچلر آف انجینئرنگ (بی ای) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سنگا پور اور ہانگ کانگ اور پاکستان کے بہت سے ممتاز اداروں میں ریسرچ اینڈ ڈیوپلپمنٹ کے شعبے میں کام کیا۔ گذشتہ بیس سال سے روبوٹکس ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کرنے والے سلطان علی نے 2007 میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ وطن واپسی کے بعد میں نے مشاہدہ کیا کہ بم دھماکوں، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں جسمانی اعضا سے محروم ہونے والے افراد کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

زیادہ تر لوگ پلاسٹک اور لکٹری سے بنے مصنوعی اعضا پر انحصار کر رہے ہیں۔ یہ اعضا بھاری اور حرکت پذیر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے مزید مشکل کا سبب ہی بنتے ہیں۔ اسی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے بایونک آرگن بنانے کا فیصلہ کیا اور گذشتہ 5سال میں تقریباً تین سو افراد کو بایونک بازو، ٹانگ اور ہاتھ بنا کر لگا چکا ہوں۔ ان میں ڈرون حملوں، بم دھماکوں میں ہاتھوں، پیروں سے محروم ہونے والے افراد بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لفظ ’بایونک‘ کی اصطلاح سب سے پہلے 1958 امریکی فضائیہ کے کرنل اور میڈیکل ڈاکٹر جیک ای اسٹیل نے استعمال کی، جس کا مقصد انجنیئرنگ اور طب کی دو شاخوں ’بائیولوجی اور الیکٹرانکس‘ کے امتزاج کو انسانی مفاد میں استعمال کرنا تھا۔

اس اصطلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے طبی میدان میں بہت پیش رفت ہوئی، جس میں سب سے اہم پیش رفت مصنوعی ہاتھ، پیر یا دیگر جسمانی اعضا بنانا تھا۔ الیکٹرانک انجنیئرنگ اور طب کے ملاپ سے بننے والے بایونک اعضاء نے دنیا بھر میں معذور افراد میں زندگی کی رمق پیدا کردی ہے۔ سلطان علی کا کہنا ہے، ’دنیا بھر میں بننے والے بایونک آرگنز کے مختلف افعال کو الیکٹروڈ سینسرز کی مدد سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔

ان سینسرز سے بننے والے اعضا اُس وقت تک کام نہیں کرتے جب تک انہیں جلد کے اوپر نہ رکھا جائے۔ الیکٹروڈ سینسر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ہر ایک انفرادی حرکت کے لیے الگ سینسر استعمال کیا جاتا ہے ، مثال کے طور پر ایک بایونک بازو میں کہنی، کلائی اور انگلیوں کی حرکت کے لیے الگ الگ سینسر استعمال ہوں گے۔

اگر ہر انگلی کو انفرادی طور پر حرکت دینا چاہتے ہیں تو پھر ہر حرکت کے لیے الگ سینسر استعمال ہوں۔ بسا اوقات آپ کو ٹچ بٹن بھی استعمال کرنا پرتا ہے۔ اتنے سارے سینسرز کے استعمال سے نہ صرف اس( بایونک عضو) کے وزن میں اضافہ ہوجاتا ہے بل کہ لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔


وہ کہتے ہیں کہ میں نے پہلی بار الیکٹروڈ سینسرز کے بغیر بایونک عضو بنانے کا کام کیا ہے۔یہ آرگن مائیکرو ٹچ ٹرانسفارمیشن سینسرزپراسیس کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔ مائیکروٹچ کے ذریعے آپ اپنے بایونک ہاتھ، پیر، بازو اور ہر انگلی کی انفرادی حرکت کو ایک سینسر سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ کھال سے ٹچ ہوئے بنا کام کرتا ہے۔ مائیکرو ٹچ سینسر کے کسی قسم کے سائڈ افیکٹس بھی نہیں ہیں۔

سلطان علی کا دعویٰ ہے کہ ’مائیکرو ٹچ سینسر میری ہی ایجاد ہے جسے 2013 میں پاکستان میں متعارف کروایا تھا۔ اب تک اسے پیٹنٹ نہیں کروایا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد اسے پیٹنٹ کروانے کا مکمل ارادہ ہے۔‘ سلطان علی کے مطابق امریکا، یورپ اور دنیا کے دوسرے ممالک میں ان اعضا کی تیاری میں الیکٹروڈ سینسرز استعمال کیے جاتے ہیں۔ الیکٹروڈ سینسرز کے کام کرنے کا طریقۂ کار یہ ہے کہ ایک سینسر کو جِلد پر اور ایک سینسر کوآپریٹ کر کے پٹھوں کے ساتھ ایڈ جسٹ کیا جاتا ہے۔

یہ طریقہ کارنہ صرف انفیکشن کا سبب بنتا ہے بلکہ الیکٹروڈ سینسرز کے ہر وقت جلد سے منسلک رہنے کے بھی بہت سے مضر اثرات ہیں۔ الیکٹروڈ سینسر کے اپنے کچھ مخصوص نوعیت کے اثرات ہیں۔ ہر وقت جلد سے منسلک ہونے کی وجہ سے آپ کے پٹھوں میں الیکٹریسٹی مستقل جذب ہو رہی ہوتی ہے۔ ان مایو الیکٹرک والٹ کے پیدا ہونے سے جلد پر مختلف نوعیت کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مائیکرو ٹچ سینسر کی کاکردگی اور معیاد کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ایک بایونک عضو عموماً پندرہ سے بیس سال اور بعض مرتبہ اس سے بھی زیادہ چلتا ہے، لیکن اس کا دارومدار استعمال کنندہ پر بھی ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ اس کی مینٹی نینس کی تو یہ ایک مشینی چیز ہے اور اس کی جتنی اچھی دیکھ بھال ہوگی یہ اتنا ہی اچھا کام کرے گی۔

عموماً دو سے تین سال بعد بایونک اعضا کو مینٹی نینس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ بیٹری کی چارجنگ ٹائمنگ کم ہوجاتی ہے، جسے ہم تبدیل کردیتے ہیں۔ مینٹی نینس میں ہم سینسرز اور موٹر کی صفائی وغیرہ بھی کرتے ہیں، جس کی فیس نہایت معمولی ہوتی ہے۔ ہم سینسرز اور موٹروں کے لیے لیتھیم آئن بیٹری استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ یہ جگہ کم گھیرتی ہے اور بہت اچھا بیک دیتی ہے۔

یہ بیٹری ایک دفعہ چارج کرنے کے بعد بازو میں دو سے تین دن جب کہ ٹانگ میں چار سے پانچ دن چلتی رہتی ہے۔ بیٹری کے بیک اپ کا دارومدار استعمال پر بھی منحصر ہے ہاتھ یا ٹانگ کی حرکت جتنی زیادہ ہوگی بیٹری اتنی ہی زیادہ صرف ہوگی۔ سلطان علی کا کہنا ہے کہ ان بایونک آلات کی کارکردگی پر موسمی حالات کا کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوتا ہے۔ ہلکی بارش میں یا پانی وغیرہ گر جانے سے ان کی کارکردگی متاثر نہیں ہوتی، لیکن آپ اسے پہن کر پانی میں ڈبکیاں لگائیں تو پھر یقیناً یہ خراب ہوجائیں گے، کیوں کہ یہ آلات واٹر ریسسٹ ہوتے ہیں واٹر پروف نہیں۔ بایونک بازو یا پیر بنانے پر آنے والی لاگت کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ایک بازو بنانے کی لاگت نوے ہزار سے ڈھائی لاکھ روپے تک ہے۔

لاگت کا انحصار اُس کے افعال پر ہے۔ اگر یہی کام آپ امریکا سے کروائیں تو کم از کم تیس سے چالیس ہزار ڈالر (تیس سے چالیس لاکھ پاکستانی روپے) خرچ ہوتے ہیں اور یہ صرف ہاتھ کی قیمت ہے پورے بازو پر تقریباً 50ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔‘ پاکستان جیسے میں ملک میں جہاں ایک عام آدمی ہزار روپے کی دوائی خریدنے کی سکت نہ رکھتا ہو وہ کیسے باہر جا کر اتنے منہگے بایونک آلات لگوا سکتا ہے؟ اس خیال کے تحت میں نے پاکستان میں اس کام کا آغاز کیا، تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنے باپ، اپنے بھائی، اپنے بیٹے یا شوہر کو اپنے پیروں پر چلتا پھرتا دیکھ سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ بایو نک لمب بنانے کے لیے مائیکرو کنٹرولر چپ کا سرکٹ میں خود بناتا ہوں، موٹریں، سلیکون فنگر اور دیگرخام مال ہم اٹلی، چین اور دیگر ممالک سے منگواتے ہیں۔ دیگر شہریوں کی طرح سلطان علی بھی امن و امان کی صورت حال، بھتا خوری اور دیگر مسائل سے بہت نالاں ہیں۔ اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی اکثروبیشتر دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ اکثر فون کالز بھی موصول ہوتی ہیں جن میں مخاطب کے الفاظ کچھ اس طرح ہوتے ہیں’ ڈاکٹر صاحب ایک مریض سے لاکھ روپیہ لیتے ہیں تو پورے مہینے کی لاکھوں کی کمائی میں سے 5یا دس لاکھ روپے ہمیں بھی دے دیں۔‘ اب آپ خود بتائیں کہ اس صورت حال میں کام کیسے ہوسکتا ہے۔

میرے بہت سے دوست احباب بھی باہر جانے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ جہاں اس کام میں پیسہ بھی بہت ہے اور سکون بھی۔ ان تمام محبت کرنے والوں کے لیے میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ’یہاں میری ضرورت زیادہ ہے۔ یہاں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو معذور لوگوں کو اُن کی خوشیاں واپس لوٹا سکے۔ جب تک حالات اجازت دے رہے ہیں میں یہاں کام کرتا رہوں گا۔

نابینا افراد کے لیے ڈیوائس


سلطان علی کا کہنا ہے کہ ہم نے نابینا افراد کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی ڈیوائس تیار کی ہے، جسے پہن کر کر نابینا افراد اپنے تمام کام بنا کسی سہارے خود سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ مائیکرو ٹچ سینسرز اور دیگر جدید آلات مزین یہ ڈیوائس پہن کر نابینا ا فراد کار اور موٹر سائیکل بھی چلا سکتے ہیں۔ سلطان علی کا دعویٰ ہے، ’ہم اس ڈیوائس کا کام یاب تجربہ کرچکے ہیں۔ اس ڈیوائس میں لگے خاص قسم کے سینسرز استعمال کنندہ کے عضلات کے ذریعے تمام ہدایات فراہم کرتے ہیں، جیسا کہ آگے سڑک پر گڑھا ہے ۔ دائیں طرف مڑنا ہے، بائیں طرف مڑنا ہے، سامنے یا برابر میں گاڑی چل رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ فی الحال ہم اس ڈیوائس کو مزید بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اگلے سال کے وسط تک ہم اسے سب کے سامنے پیش کردیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔