کاش! منہ زور افسر شاہی کو بھی کوئی قابو کر سکتا

رحمت علی رازی  اتوار 7 جون 2015

پاکستان کی مفلوک الحالی اور سیاسی، معاشی و معاشرتی زبوں حالی کی ایک عام وجہ اس کے بدعنوان اور نااہل ادارے ہیں جنہیں اس بات سے قطعی طور پر کوئی واسطہ نہیں کہ ملک و عوام کی بہبود کو مقدم سمجھا جائے یانہیں۔ ایک تسلسل کے ساتھ حکومتوں کے آواگون کا عمل ایک سوشل میکانزم کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔

دولت اور اختیار کی ہوس اور مفادات کی پالیسیوں نے وطنِ عزیز کو ایک دائمی کشمکش اور خود غرضی کے تشنج میں مبتلا کردیا ہے، جسکے نتیجے میں ریاست ایک مفلوج و معذور اور بے بس و مجبور ہو کر رہ گئی ہے جس سے کُھل کھیلنے کے لیے پاکستانی ہجوم کا ہر فرد ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے درپے ہے۔ ہم بطور قوم بوڑھے ہوگئے ہیں مگر ابھی تک بالغ نہیں ہوپائے، نہ ہی کسی زاویے سے ہمارے اندر بالغ نظری کی کوئی رمق ہی بیدار ہوئی ہے۔ ہم خودپرستی اور ہوسناکی کے جام پہ جام انڈیل کر مدہوش پڑے ہیں اور جب بھی ہمیں ذرا ہوش آتا ہے تو نئی صراحیوں کی تلاش میں ہم دوسروں کی جیبیں کاٹنے چل پڑتے ہیں۔

وقت ہمیں ایک اور مہلت دینے کے لیے اب بھی لچک دکھا رہا ہے۔ اگر ہم اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لینگے تو ہمارا نشان تو کیا تاریخ ِ عالم میں ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی۔ ایک کامیاب ریاست بننے کے لیے ہمیں اپنے ریاستی اداروں میں اصلاحات کا ایک مربوط نظام لانے کی ضرورت ہے، ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ملک کو عقل سے عاری، نااہل اور مفاد پرست منہ زور افسرشاہی نے جکڑ رکھا ہے۔

منہ زور افسرشاہی کا کمال یہ ہے کہ یہ صرف اپنے مفادات کا ہی تحفظ کرتی ہے، خواہ انھیں مظلوم، بے بس اور لاوارث دیگر گروپوں کے افسروں کو روندنا ہی کیوں نہ پڑے، یہ حکمرانوں کو پہلے چکنی چپڑی باتوں سے غلط کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور پھر اسی کا جواز بنا کر ان سے اپنی خواہشات پوری کرواتے رہتے ہیں اور بدنام حکمران ہوتے رہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک منہ زور افسرشاہی کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی بھی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی نہیں بن سکی‘ اسی لیے ہمیں سب سے پہلے انتظامیہ کی تنظیم ِنو کرنے کے لیے ہنگامی اور انقلابی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ گزشتہ سال ملک میں پٹرول بحران کے جنم لینے پر حکمران اشرافیہ کو ذہنی جھٹکا لگا کہ اس طرح کے ہر بحران کے پیچھے انتظامیہ کی نااہلی کارفرما ہے‘ ایسے بحرانوں کے خاتمہ کے لیے مستقل بندوبست کرنے کی اشد ضرورت ہے، ورنہ عوام تنگ بہ تنگش ہوتے ہوتے آمادۂ جنگ ہو جائینگے۔

انتظامیہ میں اصلاحات لانے کے حکومتی اعلان کے بعد سے آج تک ہم سول سروس ریفارمز پر لکھتے آرہے ہیں، اور مختلف موضوعات کی روشنی میں انتظامی اصلاحات کی مبادیات کا ایک قابلِ عمل خاکہ بھی بارہا پیش کر چکے ہیں مگر بے حس حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے اورانھوں نے ابھی تک کسی بھی تجویز کو عملی جامہ نہیں پہنایا ۔ آج ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم شرحِ خواندگی میں رسمی اضافہ تو غیرمعمولی طور پر کیے جارہے ہیں مگر ایک باشعور نسل پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ ہم اس حقیقت سے کماحقہ‘ لاعلم ہیں کہ ایک تجربہ کار اور تربیت یافتہ جنریشن ہی سماجی اور معاشی چیلنجز سے نبردآزما ہوسکتی ہے۔

ہمارے نام نہاد تعلیم یافتہ افراد ایک ایسی ناکارہ کھیپ میں اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں جو شہری فرائض اور انسانی حقوق سے بے نیاز اور لاعلم ہیں۔ غیرمعیاری تعلیم اور متناقص امتحانی نظام کے کارن ہم ایک مہذب اور متوازن معاشرہ قائم نہیں کرپائے۔ سلطنت ِ برطانیہ میں انڈین سول سروس کو ایک قابلِ تعظیم ادارے کی حیثیت حاصل تھی، برٹش ایڈمنسٹریشن کی ریفارمز کی بات ہوئی تو آئی سی ایس کو مثال اور معیار کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس سے قبل برٹش سول سروس میں تقرریوں کا نظام مکمل طور پر موروثی تھا۔

آئی سی ایس میں خوبی یہ تھی کہ اس میں 1855ء میں مقابلے کا نظام متعارف کروایا گیا جس کی تقلید میںبرطانیہ کے پرائم منسٹر گلیڈسٹون نے 1870ء میں برٹش سول سروس ( بی سی ایس) میں بھی مقابلے کے امتحان کا نظام رائج کیا اور افسران کی ذہنی اور فکری تربیت پرخاص توجہ مرکوز کی۔ اس کا پھل یہ اُترا کہ بیسویں صدی کے آغاز پر 1200افسران کی ایک مضبوط ٹیم ہندوستان کی 30 کروڑ آبادی پر حکومت کررہی تھی، جس پر اس وقت کے برطانوی وزیراعظم لوئیڈجارج کو کہنا پڑا، ’’ انڈین سول سروس انڈین راج کا ایک اسٹیل فریم ہے، جس پر پورا برٹش راج قائم ہے‘‘۔ انڈین سول سروس کی عظمت اور فقیدالمثال کارکردگی کا انحصار افسران کی قابلیت اور معیاری تقرروتربیت پر تھا۔

اس ادارے کی ترقی اور کامیابی میں سوفیصد آکسفورڈ کے اہلِ فراست پروفیسروں اور دانشوروں کا ہاتھ تھا جنھوں نے ایک ایسا نصاب اور امتحانی نظام تشکیل دیا جسکے طفیل ایک منظم انتظامی ڈھانچہ مرتب ہوا جو آنیوالے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا معاشرے کی نچلی سطح تک اپنا رسوخ قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ 1853 میں لارڈ میکالے نے ایک کمیٹی کی بنیاد ڈالی۔ اسی ’’لارڈ میکالے کمیٹی‘‘ کی سفارشات پر آئی سی ایس کے امتحانات اور تربیت کے سسٹم کی بنیاد 1855ء میں باقاعدہ طور پر رکھی گئی۔

اس کمیٹی میں سب سے نمایاں کردار آکسفورڈ کے وائس چانسلر پروفیسر بنجمن جاوٹ کا تھا جنھوں نے مختلف یونیورسٹیوں کے بیشمار ذہین و فطین طلبہ کو تیارکر کے آئی سی ایس کا حصہ بنایا۔ آکسفورڈ کے تربیتی کورس میں ہندوستان کی علاقائی زبانوں کو بطور خاص پریکٹیکل نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔ سنسکرت، ہندی، فارسی اور عربی وغیرہ کورس کا لازمی حصہ تھیں، علاوہ ازیں پنجابی، بنگالی، مراٹھی اور برمی کے ساتھ ساتھ انڈیا کی دیگر تمام علاقائی زبانوں کو بھی سول سرونٹس کے لیے پوسٹنگ کے صوبے کے مدنظر پہلی تقرری پر اختیاری زبان کے طور پر منتخب کرنا ضروری تھا۔ آج جب ہم پاکستان سول سروس کا تصور اپنے ذہن میں قائم کرتے ہیں تو صرف اور صرف انگریزی زبان ہی پورے سسٹم میں اوّل وآخر نظر آتی ہے۔

ہمارے ہاں مقابلے کا امتحان محض انگریزی زبان کا امتحان بن کر رہ گیا ہے۔ کاٹھے انگریزوں نے سینٹرل سپریئر سروس کو برہمن راج کے کسی نارائن مندر میں تبدیل کردیا ہے جس میں صرف مخصوص قسم کے پنڈتوں ہی کو پوجا پاٹھ کی انُومَتی ہے۔ ہمارے زیادہ تر سول سرونٹس اندرون وبیرون ممالک کی اعلیٰ برہمن یونیورسٹیوں کی پیداوار ہیں جنہیں نہ تو ڈھنگ سے اُرد ولکھنا اور بولنا آتی ہے، نہ ہی انہیں پاکستان کی کسی صوبائی زبان سے شُد بُدہے بلکہ وہ تو مادری زبان کو بھی ماں کی گالی تصور کرتے ہیں۔ ایسے دوغلے، بے بنیاد اور نکمے افسران سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انتظامی اعتبار سے عوامی امیدوں پر پورے اترسکیں گے۔

لیکن کیا کیا جائے حضور! ہمارے ملک میں نوکری کا حصول صرف انگریزی جاننے میں ہے۔ کسی ادارے یاکمپنی کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے ملازم میں متعلقہ عہدے کی بابت مطلوبہ صلاحیت اور انتظامی جوہر بھی ہیں یانہیں۔ آجکل ایگزیکٹ کے جعلی ڈگریوں کے سکینڈل پر پاکستان میں بحث ومباحثہ کا ماحول خوب گرم ہے۔ کیا کبھی کسی نے اس بات پر بھی تحقیق یا بحث کی ہے کہ دنیا کے بیشمار ممالک میں ایسی متعدد نام نہاد یونیورسٹیاں ہیں جو ہر سال سیکڑوں پاکستانی طلبہ کو جعلی ڈگریاں تھما کر واپس بھیجتی ہیں، اور یہ ڈگری ہولڈرزپاکستان کے ہر ادارے میں اعلیٰ مناصب پر بے دھڑک کام کر رہے ہیں اور لمبی چوڑی تنخواہیں اور مراعات بھی سمیٹ رہے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ سول سروسز اور دیگر حساس نوعیت کے عہدوں پر بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں، تو اس سے بھی انکاری نہیں ہوا جاسکتا۔ ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ قومی جامعات سے فارغ التحصیل لائق فائق طلبہ کو تو ہم گھاس بھی نہیں ڈالتے اور ودیشی یونیورسٹیوں کی مشکوک ڈگریوں کو ہنس کر قبول کرلیتے ہیں۔ انگریزی لہجے میں اُردو بولنے والے ان ہی بابوؤں نے آج سول سروس کا بیڑا غرق کررکھا ہے جو عوام کے دکھ اور تکلیف سے بہر طورناواقف ہیں۔

ہمارے انتظامی ڈھانچے کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب بیکار تعلیمی نظام اور فرسودہ امتحانی سسٹم بھی ہے۔قیام پاکستان سے لے کر تاحال سول سروس میں اصلاحات کا ڈرامہ رچتا چلا آرہا ہے، کبھی کوئی کمیٹی تشکیل پاتی ہے تو کبھی کوئی کمیشن قائم ہوتا ہے مگر کوئی خیراندیش اس کیچڑ سے کوئی واضح بت نہیں بنا پایا جس سے کسی مخصوص شکل کا اندازہ لگایا جاسکے۔ ہمارے ملک کا امتحانی اور تعلیمی نظام جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ امتحانی سینٹر کل بھی بکا کرتے تھے، آج بھی بکتے ہیں۔ طالبعلم کل بھی نقل لگا کر پاس ہوتے تھے، سو آج بھی ہوتے ہیں۔ بوٹی مافیا کل بھی سرگرم ہوا کرتا تھا، آج بھی ویسے ہی سرگرم ہے۔

ایک امیدوار کی جگہ کسی دوسرے امیدوار کے طرف سے امتحان دینے کا رجحان آج بھی ویسے کا ویسے ہی ہے جس پر کسی نے کبھی قابو پانے کی کوشش نہیں کی۔ جس طرح حکومت کے دیگر نظاموں میں بہتری ایک سوالیہ نشان ہے عین، اسی طرح موجودہ امتحانی نظام میں بھی اصلاح کا عمل ایک ڈراؤنا خواب بن کررہ گیا ہے۔ ہمارے کل اور آج میں رَتی بھر بھی فرق نہیں آیا، اگر کچھ بدلا ہے توصرف طریقہ واردات بدلاہے۔ پہلے اعلانیہ طور پر نقل چلتی تھی اور امتحانی سینٹر بکا کرتے تھے جب کہ آج یہ سب کچھ ذرا احتیاطی تدابیر کی بنیاد پر ہوتاہے۔ بدعنوان نگران کل کے برعکس آج ذرا ڈیجیٹل طریقوں سے طالبعلموں سے مل کرانہیں نقل کرواتے ہیں، جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ منظم نقل کا رجحان آج بھی زندہ وجاوید ہے۔

کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے شفاف انتظامی نظام خشتِ اول کی حیثیت رکھتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے تعلیمی اور امتحانی نظام کی اصلاح کے لیے کوئی احسن اقدام نہیں کیا۔بہتر سے بہترین کا سفر ہر دم جاری رہنا چاہیے۔ فکری جمود قوموں کی زندگی کے لیے زہر قاتل ہوا کرتا ہے۔ ہمارے موجودہ امتحانی نظام میںبے شمار ایسی خامیاں ہیں جن کی اصلاح ہوجائے تومقابلے کے امتحانی نظام کو کافی حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ان خامیوں کی نشاندہی کے طور پر ایک تجویز تو یہ ہے کہ امتحانی مراکز کا چناؤ اکثر اوقات بہت ہی غیر حقیقت پسندانہ اور امیدوار( طالبعلم) کے گھر یا تعلیمی مرکز جہاں پروہ تعلیم حاصل کرتا رہا،سے بہت دُور بنا دیا جاتا ہے جس سے امیدوار کو بہت دشواری ہوتی ہے اور اکثر طالبعلم تو اپنے پہلے پیپر کے دن امتحانی مرکز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کافی وقت ضایع کرلیتے ہیں۔ اور تو اور لاہور میںگزشتہ سال انگریزی کے پرچہ کے دن 119 طالبعلم اپنے امتحانی مراکز میں پہنچ ہی نہ سکے اور امتحان دینے سے محروم رہے۔

ایسے میں اگر بڑے بڑے امتحانی سینٹرز بنا دیے جائیں یا جس ادارہ میں طالبعلم تعلیم حاصل کر رہا ہو، وہیں پر اس کا امتحانی مرکز بنا دیا جائے تو یہ ایک بہتر عمل ہو گا۔ اور اگر ان امتحانی مراکز کا سپرنٹنڈنٹ اور نگران کسی دیگر ادارہ سے اساتذہ کو لگا دیا جائے تو اس مشکل پر قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ طالبعلم سالوں سے جس تعلیمی ادارہ میں تعلیم حاصل کررہا ہوتا ہے، اسے وہاں آنے جانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ایسے امیدوار جن کے تمام پیپرز تسلسل سے سیکنڈٹائم یا فرسٹ ٹائم ہورہے ہوتے ہیں۔

ان کا صرف ایک پیپر کسی وجہ سے فرسٹ ٹائم کی بجائے سیکنڈ ٹائم یا سیکنڈ ٹائم کی بجائے فرسٹ ٹائم ہوجائے تو ان امیدواروں سے اکثر غلطی ہوجاتی ہے اور وہ جس وقت کمرہ امتحان میں پہنچتے ہیں، تب تک بہت سارا وقت گزر چکا ہوتا ہے اور ایسے امیدواروں کو سپرنٹنڈنٹ کمرۂ امتحان میں بٹھانے سے انکارکردیتے ہیں۔ ایسی صورت میں امیدواروں کا ایک سال ضایع ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہر وہ طالبعلم جو ایک پرچہ میں کسی وجہ سے غیر حاضر ہوجائے وہ اپنے امتحانی سینٹر کے سپرنٹنڈنٹ کو اس کی درخواست دے تو امتحانات ختم ہونے کے بعد ایک یوم اس کام کے لیے مختص کردیا جائے اور اس دن اس سے یہ پرچہ لے لیا جائے۔

اس سہولت سے وہ تمام امیدوار فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے اس دن غیرحاضر تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور خرابی جو ہمارے امتحانی نظام میں ہے وہ ہے پیپر ری چیکنگ۔ عام طور پر کئی سال سے دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ درجنوں لائق اور میرٹ پر آنیوالے امیدواررزلٹ آنے پر چند پیپرز میں کم نمبر آنے پر مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ بورڈز اور یونیورسٹیوں میں اپنے ان پیپرز کی ’’ری چیکنگ‘‘ کی درخواست دیتے ہیں۔

ری چیکنگ کا مطلب تو یہ ہونا چاہیے کہ ان کا پیپر دوبارہ چیک کیاجائے لیکن بدقسمتی سے بورڈ اور یونیورسٹی انتظامیہ پیپرچیکر کی طرف سے دیے گئے نمبروں کا ٹوٹل کرلیتے ہیں اور اگر وہ ٹھیک ہے تو امیدوار کو واپس بھجوادیا جاتا ہے اور اگر وہ غلط ہے تو اس میں درستگی کرلی جاتی ہے۔ کئی امیدوار ہر سال شکایت کرتے ہیں کہ انھوں نے 10 نمبروں کا سوال بالکل ٹھیک حل کیا ہے لیکن پیپرچیکر نے اسے صرف 2 نمبر دیے ہیں تو اس صورت میں بورڈ انتظامیہ کا جواب ہوتا ہے کہ یہ بورڈ کا اصول ہے کہ وہ پیپر چیکر کے دیے ہوئے نمبروں کو چیلنج نہیں کرسکتے جسکے باعث کئی امیدوار اچھے اداروں میں داخلہ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ کئی امیدواروں کے ٹھیک جواب پر ’’کراس‘‘ لگا ہوتا ہے، اس پر بھی بورڈ انتظامیہ امیدواروں کو یہ کہہ کر مایوس لوٹا دیتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

ایک اور دائمی مرض جس کا مداوا کرنے کی بے پناہ ضرورت ہے کہ بنیادی تعلیم سے لے کر پوسٹ لیول تک ہمارا امتحانی نظام منتخب سوالات اور رٹہ سسٹم میں جکڑا ہوا ہے۔ نصابی کتاب سرورق سے شروع ہوتی ہے اور آخری صفحہ پر ختم ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ سرورق میں رنگ کونسا استعمال کیا گیا ہے اور کیا کیا تصاویر بنائی گئی ہیں‘ وہ بھی اہم ہیںلیکن طالبعلم تمام کتاب پڑھنے کی بجائے سیلیکٹو اسٹڈی کررہے ہیں یعنی خاص خاص اسباق کی تیاری کرتے ہیں، بد قسمتی سے آج طالبعلم کا مقصد حصول علم نہیں بلکہ نمبروں کی گنتی میں اضافہ ہے، امتحان میں 10 سوال آتے ہیں ان میں سے 5 کرنے ہوتے ہیں۔

موجودہ امتحانی سسٹم میں اساتذہ امیدواروں کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ اگر فلاں فلاں اسباق مکمل تیار کر لیے جائیں تو سو فیصد نمبر کا پرچہ حل کیا جاسکتا ہے حالانکہ ایسے عمل سے طالبعلم آدھی کتاب سے ناواقف رہتاہے اور اس میںجو اہم معلومات ہوتی ہیں جنہیں حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ،سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ایک دو یاتین سوالات تو لمبے دیے جائیں اور بیسیوں سوالات 2،3، 4 اور 5 نمبروں کے ہوں ان میں تھوڑی تھوڑی چوائس بھی ہویعنی اگر کوئی امیدوار 100فیصد کا پیپر حل کرے تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہو کہ اس نے تمام کتاب پڑھی ہوئی ہے یعنی چھوٹے سوالات پوری کی پوری کتاب پر محیط ہوں۔

ان تمام نقاط پر اگر ارباب ِاختیار غور کریں تو کافی اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور جن طالبعلموں کا ایک پرچہ مس ہوا ہو، ان کو اگر یہ سہولت مہیا کردی جائے تو ان کا سال ضایع ہونے سے بچ سکتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم تعلیم کی اصل روح کو پانے سے قاصر ہیں اور سائنسی علوم اور تحقیق ومنطق کو اپنانے سے جان چھڑاتے ہیں۔ ہماری تعلیم کا محور محض رٹہ سسٹم پر کیوں گھومتا ہے۔ رٹہ تعلیم کا خطرناک ترین دشمن ہے۔ رَٹہ طالبعلم کی رہنمائی کی بجائے اُسے کنفیوژ کر رہا ہے۔

رَٹہ توطوطا بھی لگا لیتا ہے جو فطری طور پر انسانی زبانوں سے نابلد ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسی تعلیم جو مزید گمراہی کا موجب بنے وہ کسی انسان کے وضع کردہ نظام میں سدھار یا اصلاح کیسے لاسکتی ہے، بلکہ دراصل اس نظام میں مزید بگاڑ پیدا کردیتی ہے۔ یہی معاملہ ہمارے نظامِ تعلیم کا ہے جسکے ذمے دار ہمارے اغماض پسند اساتذہ اور امتحانی نظام کے سرکردہ حضرات ہیں، جو معاشرے کوایسے طلبہ و افسران فراہم رہے ہیں جن میں عوامی مسائل کا ادراک سرے سے ناپید ہے، اور وہ ان مسائل کے تجزیے سے مطلقاً عاری ہیں، اور کسی بھی صورت میں عوامی امنگوں اور انتظامی معاملات کے شعورکے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بدقسمتی سے جو استعماری نظام آج سے 67 سال قبل انگریز چھوڑ کر گئے تھے وہ آج بھی ہمارے ہاں رائج ہے اور ہم نے اسے اپنے آقاؤں کی ثقافت سمجھ کر اپنا رکھا ہے، مگر ایک بات جو ہم بھول چکے ہیں، وہ یہ ہے کہ کالونیل سسٹم کے امتحانات میں رٹہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

ہم نے رٹہ کو کامیابی کا ایک آزمایا ہوا طریقہ سمجھ لیا ہے۔ ایک ایسا طریقہ، جو سی ایس ایس کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ اس طریقہ کار سے ہماری تعلیم کی بنیاد اور اصل مفہوم ختم ہوکر رہ گئے ہیں جو طالبعلم کو معاشرتی شعور اور مسائل کا تجزیہ کرنے کی اتھارٹی سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ہمیںایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھنے کی ضرورت درپیش ہے جس میں طالبعلم کے حافظہ نہیں بلکہ علم کی پرکھ ہو۔ایک ایسا نظام تعلیم، جس میں کتابوں کو یاد کرنا نہیں بلکہ سمجھنا اور سمجھ کر عملی جامہ پہنانا مقصود ہو۔ الفاظ کی مالا جپنے سے کوئی فلسفی نہیں بنتا۔ہمیں اس حقیقت کوسمجھنا چاہیے کہ علمی ترقی کی بنیاد فکروعمل اور عملی شعور ہے۔ لفاظی، حفاظی اور نمبروں کی دوڑ صرف ِوقت، فریب ِنظر اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اس حقیقت کا ادراک ہماری علمی و عملی ترقی کا زینہ اوّل ہے کیونکہ ایک باعمل معاشرہ ایک مستند ترقی یافتہ قوم کا ضامن ہوسکتاہے۔

ہمیں کئی ماہ سے بیشمار ای میلزموصول ہو رہی ہیں جن میں چند ایک ایسی بھی ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا اسلیے بھی ضروری سا ہوگیا ہے کہ اس سے بھی اصلاح کے چند پہلو مقصود ہیں۔ محترمہ صالحہ حسن طور نے ہمارے 10 مئی کے کالم ’’ سی ایس ایس کے امتحانات میں لاوارث دربدر ہونے لگے‘‘ کے حوالہ سے لکھا ہے، ’’ میں بھی بیوروکریسی کے اسی چکربند کا شکار ہوں جس کا تذکرہ آپ نے اپنے کالم میں کیا ہے، بدقسمتی سے ہم ایک ایسے مرد زدہ معاشرے میں زندہ ہیں جہاں عورت ہونا کسی لعنت سے کم نہیں، اور اس سے بھی بڑی سماجی برائی کسی کا طلاق یافتہ ہونا ہے۔ میری شادی بہت ہی کم عمری میں ہوگئی، خدانے ایک بیٹا دیا اور ساتھ ہی طلاق بھی ہو گئی۔

مجھ پر مصائب کے وہ پہاڑ ٹوٹے کہ حواس بحال کرتے کرتے مجھے کافی عرصہ لگ گیا، اور بالآخر میںنے سی ایس ایس کا داخلہ بھیج دیا۔ تیسری اٹیمپٹ میں کلیئر ہوئی اور میرٹ پر بھی آگئی مگر حد ِعمر سے ایک سال متجاوز ہونے پر کسی گروپ کے لیے میرا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا گیا، اور یہ سب میری غلط تاریخ پیدائش کی وجہ سے ہوا، جو میرے اسکول ریکارڈ کی غلطی تھی جسے میں نے ہائیکورٹ میں ثابت بھی کردیا مگرباوجود یہ کہ مجھے انصاف نہیں ملا اور میں آج تک اپنے حق کے لیے عدالت میں جنگ لڑرہی ہوں۔

اپنے جائز حق سے محروم ہونے پر میرے حواس ایک مرتبہ پھر بکھر چکے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ ایف پی ایس سی کا رویہ بالکل فرعونوں جیسا ہے۔ وہ لوگوں کو اتنا حق بھی نہیں دیتا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑسکیں، اور وہ اپنے لاء ڈیپارٹمنٹ کو صرف اسلیے ایک بھاری بجٹ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ محروموں کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے سے دستبرار ہونے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکے۔

آپ کا کالم اسلیے بھی پڑھ کر اچھا لگا کیونکہ اس میں میرے جذبات کی ترجمانی موجود تھی۔ میرے لیے تو اب یہ قصہ تمام ہوچکا، کیونکہ میرے پاس اب پیسہ اور امید دونوں ہی نہیں رہے۔ میں نے تو صرف آپ کی اس کوشش کی داد دینے کے لیے لکھا جو اس دور میں واقعی کسی قلمی جہاد سے کم نہیں۔ آپ اپنی یہ قابل ِ ستائش کوششیں جاری رکھیں، شاید ایک دن پاکستانی قوم ان سے مستفید ہونے کے قابل ہوجائے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔