بہت بہت شکریہ…

شیریں حیدر  اتوار 7 جون 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میٹرو کے منصوبے کا افتتاح ہوا اور میٹرو بس راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان چلنا شروع ہو گئی ہے، اس لیے نہیں کہ اس منصوبے کی کچھ افادیت ہے میرے لیے بلکہ اس منصوبے کے آغاز سے لے کر اب تک جتنی کوفت سفر کرتے ہوئے اٹھائی ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں۔

چلیں، شریف بھائیوں کے سر کے تاج میں ایک اور جڑاؤ ہیرے کا اضافہ!!! بڑے پیمانے پر کیے گئے اس افتتاح کی تقریب میں کنونشن سینٹر میں ’’ بڑے لوگوں ‘‘ کو مدعو کر کے اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا اور داد کے ڈونگرے وصول کیے گئے۔ کنونشن سینٹر سے باہرباقی شہر کا سیکیورٹی کے ہاتھوں عام آدمی کا جو حال تھا اس کی بابت تو کوئی نہ ہی پوچھے تو بہتر ہے، میری ناقص رائے ہے کہ ایسے دنوں میں تمام اداروں اور سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں عام تعطیل کا اعلان کر دینا چاہیے۔

ملک کے وزیر اعظم نے افتتاحی تقریب میں اپنے مستقبل کے منصوبوں سے بھی حاضرین کو آگاہ کیا، کراچی والوں کو خوش خبری بھی دی کہ اب میٹرو کا منصوبہ وہاں شروع ہو گا۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی کو مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنے صوبے میں میٹرو کا آغاز کریں۔ ملک کے وزیر اعظم کی طرف سے ایک صوبے کے بڑے شہر کے لیے خود اعلان کرنا اور دوسرے صوبے کے وزیر اعلی کو یہ مشورہ دینا کیا معنی رکھتا ہے۔

وہ کیوں نہیں وزیر اعلی خیبر پختونخوا  کو بھی قومی خزانے سے فنڈز دیتے تا کہ وہ اس منصوبے کا آغاز کریں یا اسی طرح پشاور میں میٹرو منصوبے کا اعلان کرتے جس طرح انھوں نے کراچی کے لیے کیا ہے؟ وزیر اعظم صاحب لاہور یا صوبہ ء پنجاب کے نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور ملک کے کسی بھی صوبے میں وہ کسی بھی منصوبے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ انھوں نے تو گویا حکومت مخالف ایک جماعت کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ان کے مقابلے میں میٹرو پراجیکٹ بنا کر تو دکھائے۔

وزیر اعظم کا یہ دعویٰ بھی قطعی درست نہیں کہ ہمارے ملک میں میٹرو دنیا کی سب سے بہترین میٹرو ہے، وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے دنیا میں شاید کہیں بھی میٹرو پر سفر نہیں کیا ہو گا، اور نہ ہی کبھی ان پر کبھی ایسی نوبت آئی ہو گی کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کریں، وہ جا کر کسی قریبی ملک، مثلا دوبئی ہی کی میٹرو سروس کا صرف چند منٹ کا سفر کر کے دیکھ لیں  تو صورتحال واضح ہو جائے گی۔

اس منصوبے نے تو میٹرو کے ٹریک کے نیچے وہ طوفان تباہی چھوڑا ہے کہ ہم سالوں تک اپنے اور اپنی گاڑیوں کے ’’  shock absorbers‘‘ کی مرمت کرواتے رہیں گے۔ سولہ ماہ کی جو اضافی کوفت انھوں نے عام انسان اور بالخصوص کسی بھی نوعیت کے مریضوں کودی ہے،ا ن کی ’’ دعائیں ‘‘ کافی عرصہ حکومت کے ساتھ رہیں گی، جن لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے ان کی بددعائیں الگ ہیں۔

ساتھ ہی اپنی تقریر میں کشکول توڑنے کو دعوی کرتے ہیں، کہاں سے توڑیں گے کشکول، کیا کوئی الہ دین کا چراغ ہاتھ آ گیا ہے؟ اگر قومی خزانے میں رقم موجود ہے تو اسے ترجیحات متعین کر کے کیوں نہیں خرچ کیا گیا؟ تعلیم اورطبی سہولتوں کا برا حال ہے، ملک کا موجودہ انفراسٹرکچر یتیموں اور لاوارثوں کی طرح پڑا ہے لیکن میٹرو کی افادیت کو اولیت دی جا رہی ہے۔

لگ بھگ سولہ ماہ کی مدت میں مکمل ہونے والا یہ منصوبہ جس پر لاگت کا تخمینہ 44.2 بلین روپے لگایا گیا تھا، تکمیل تک پہنچتے پہنچتے پچاس بلین کا ہندسہ عبور کر چکا ہے، جس کے لیے جواز یہ دیے جا رہے ہیں کہ مختلف جگہوں پر بس اسٹاپ بنانے کے لیے جو جگہ خریدی گئی ہے اس کی لاگت پہلے تخمینے میں شامل نہیں تھی، ہنسی بھی آتی ہے ایسے لطیفوں پر اور رونا بھی۔ میں نے پچاس بلین کا عدد لکھا تو اس پر زیرو ہی ختم نہیں ہونے میں آ رہے تھے۔ تئیس کلومیٹر کے اس راستے پر، جس میں راولپنڈی کے دس اور اسلام آباد کے چودہ اسٹیشن بھی شامل ہیں، فی کلو میٹر کی لاگت کا تخمینہ 21,73,913,000/- وپے ہے…

آپ دنیا کے کسی بھی ماہر کو بلا کر پوچھیں کہ اس تئیس کلو میٹر کے منصوبے پر آنے والی لاگت کے برابر رقم سے کتنے سو کلو میٹر کی سڑکیں بن سکتی تھیں یا موجودہ سڑکوں میں سے کتنے ہزار کلو میٹر سڑکیں مرمت کی جا سکتی تھیں جن کی نا گفتہ بہ حالت موت کا سامان بن چکی ہے۔ اس طرح کے منصوبے وہاں بھاتے ہیں جہاں عام آدمی کے باقی مسائل کا حکومت نے خاتمہ کر دیا ہو۔

عوام کی کون سی کلاس ہے جو کہ بیس روپے کرایے کے ساتھ  ان بسوں پر سفر کرے گی؟ اس کلاس میں سے کتنے لوگوںکو wifi  کی سہولت چاہیے ، جس پر کروڑوں روپے کی لاگت آئی ہے؟ شاہوں سے زیادہ ان کے وفادار لکھاری تو ان کی شان میں قصیدے لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں مگر ان قصیدوں سے عام آدمی کی تسلی و تشفی نہیں ہوتی۔

وزیر اعظم اپنی ٹیم کے ساتھ اس منصوبے کا افتتاح کر کے، مسکراہٹیں بکھیر کر ایوان وزیر اعظم کو سدھارے۔کاش وہ کسی مقام پر اس بس سے اترتے اور نیچے جھانک کر دیکھتے کہ پرانی سڑکوں کا کیا ہوا؟ کاش انھیں راستے میں نظر آنے والے PIMS اور بے نظیر اسپتال کی حالت زار نظر آتی۔

کاش انھیں وہ اسکول نظر آ جاتے جہاں غریب کا بچہ تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے اور وہاں نہ بجلی ہے نہ پینے کا صاف پانی ، نہ بیٹھنے کو کرسیاں اور نہ پڑھانے کو استاد!!! وہ اگر باہر دیکھتے تو انھیں پلوں کے نیچے ہر سہولت کے بغیر رہتے ہوئے خاندانوں کے خاندان نظر آتے، انھیں عام آدمی کی کسمپرسی نظر آتی، انھیں امیر اور غریب میں تفریق نظر آتی۔موجودہ حکومت کے سارے منصوبے لاہور اور زیادہ سے زیادہ اسلام آباد میں ہی شروع ہو کر کیوں ختم ہو جاتے ہیں؟ کیا ملک کے باقی شہر کسی اور نے گود لے لیے ہیں یا ملک کا جغرافیہ تبدیل ہو گیا ہے اور ہمیں علم ہی نہیں؟ کیا باقی شہروں میں انسان نہیں بستے۔

کیا وہاں سے مسلم لیگ ن کو ووٹ نہیں ملتے۔ عام آدمی کی ضروریات کیا ہیں، ان کا اندازہ حکومت کے پالیسی سازوں کو نہیںہو سکتا کیونکہ انھیں عام آدمی کے مسائل جاننے میں دلچسپی ہی نہیں، ان کے نزدیک وہ تعداد ہیں اور اعداد ہیں … جن کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق  صرف ووٹ لیتے وقت پڑتا ہے سو حکمران کے پاس اس کا بھی بندو بست ہوتا ہے۔

وہ ان کی بھوک اور ان کی لالچ کو جانتے ہیں اور یہ بے چارے اس ووٹ کی اہمیت کو نہیں سمجھتے جسے ایک روٹی یا ایک پلیٹ چاول کے عوض حکمرانوں کو دے دیتے ہیں تا کہ وہ برسر اقتدار آئیں اور اگلے پانچ برس تک ان کے جسموں کو گروی رکھ کر ، اس ملک کو نوچ کھسوٹ کر کھا کر چلے جائیں، اس کے بعد دوسرے کو باری دیں ۔

انسان اپنا سب سے بڑا محتسب ہو سکتا ہے اگر وہ خود احتسابی کے عمل سے گزرے۔ جب انسان کے ہاتھ میں طاقت اور اقتدار ہوتا ہے تو وہ سیاہی کے خرچ ہونے والے  ایک ایک قطرے کے لیے جواب دہ ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں تو لہو بھی سیاہی سے ارزاں ہو کر بہتا ہے تو حکمرانوں کو کسی جواب دہی کا خوف نہیں۔ کرسیء اقتدار تو کانٹوں کی سیج ہوتی ہے۔

جس پر بیٹھنے والا کبھی آرام میں نہیں ہو سکتا اگر اسے اللہ اور اپنے عوام کی جواب دہی کا ڈر ہو، مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں اقتدار کی نرم کرسی پر بیٹھنے والے سبھی محاسبے سے بے نیاز ہوتے ہیں، انھیں کسی کی جواب دہی کا ڈر ہے نہ خوف، بس انہیں یہی یاد کروایا جا سکتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ماں اپنے بچے کو نہیں پہچانے گی توا س روز اس کے ساتھی اس کے اعمال ہوں گے۔ اپنے اعمال کے سیاہ تھیلے پکڑ کر ایک روز ہمیں ایک ہستی کے سامنے ندامت سے پسینہ پسینہ جو ہونا ہے تو آج اس کی فکر کیوں نہ کریں ؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔