بجٹ 16-2015 عوام کہاں جائیں

سید بابر علی / اشرف میمن / حسان خالد  اتوار 7 جون 2015
خوش نما وعدے توقع سے کم سہولتیں روایتی اقدامات مہنگائی میں اور اضافہ ہوگیا ۔  فوٹو : فائل

خوش نما وعدے توقع سے کم سہولتیں روایتی اقدامات مہنگائی میں اور اضافہ ہوگیا ۔ فوٹو : فائل

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے جمعہ پانچ جون کو مالی سال 16-2015 کے لیے 43 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی ہندسوں کی مدد سے خوب صورت پیکنگ میں ایک ایسا بجٹ پیش کیا گیا جو عوام کے لیے منہگائی ہی کا تحفہ لائے گا، جس کے اثرات کچھ دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی بجٹ میں تعلیم اور صحت سے زیادہ رقم دفاع کے لیے مختص کی گئی ہے۔ دفاع کے لیے 780 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ گذشتہ سال کی نسبت 11فی صد زاید ہیں۔ توانائی کے بحران سے دوچار ملک میں اس اہم شعبہ کا بجٹ محض 248 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مالی سال 2015-16کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے دوران ترقی کی شرح ہدف 5.5 فی صد رکھا ہے اور اسے 18-2017 تک بڑھا کر 7 فی صد تک لے جایا جائے گا۔ اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے کے عوام اور کاروباری طبقے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، بجٹ کے اہم نکات کے ساتھ اس کی مختصر تفصیل قارئین کی آگاہی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

٭ ’’سخاوت‘‘ کی انتہا، تنخواہ ، پینشن اور کم سے کم اُجرت میں ساڑھے سات فی صد اضافہ
وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ساڑھے سات فی صد ’خطیر‘ اضافہ کرنے کی نوید سنائی۔ انھوں نے عام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں آٹے میں نمک کے برابر اضافہ کیا، جب کہ پرائیویٹ اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹریوں کی خصوصی تن خواہ میں 100فی صد اضافے کا اعلان کیا۔ یہ خاص افراد خصوصی تنخواہ کی مد میں پہلے ہی بہت زیادہ مراعات حاصل کر رہے تھے ۔ اسی طرح پینشن کے معاملات میں بھی عوام اور خواص میں امتیاز روا رکھا گیا۔

بجٹ 2015-16 میں چار سے پانچ لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ حاصل کرنے والے افراد پر لاگو ٹیکس کی شرح 5 فی صد سے کم کرکے 2فی صد کردی گئی، جب کہ سرکاری ملازمین کے گذشتہ تین سال کا ایڈہاک ریلیف بھی بنیادی تنخواہ میں ضم کردیا گیا۔ ٹیکس کی شرح میں کمی اور تنخواہوں میں اضافے سے زیربار سرکاری ملازمین زیادہ عرصے تک اس خوشی سے مستفید نہیں ہوسکیں گے۔ شاید اسی وجہ سے حکومت نے سرکاری ملازمین کے میڈیکل الاؤنس میں 25 فی صد اضافہ کردیا ہے۔

بجٹ میں کم اُجرت پانے والے افراد کی ماہانہ اُجرت 12ہزار سے بڑھا کر 13ہزار کی گئی ہے۔ منہگائی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے ایک ہزار روپے کا اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ معمولی سا اضافہ تنخواہ دار ملازمین کی جب کہ غیرسرکاری ملازمین کے طرز زندگی میں اس بجٹ کے مثبت تو نہیں لیکن منفی اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔

٭بجلی کا بحران، ایک وعدہ اور سہی
بجٹ میں توانائی کے شعبے کو خاص ترجیح دیتے ہوئے حکومت نے گذشتہ سال کی نسبت48ارب روپے زائد مختص کیے ہیں۔ دسمبر 2017 تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے نئے ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر، ہوا، پانی اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بجٹ میں 248 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جس میں سے 73 ارب روپے سرکاری ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص کیے ہیں۔

اس پروگرام کے تحت داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 52 ارب روپے، ساڑھے چار ہزار میگاواٹ گنجائش کے دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے زمین کے حصول اور تعمیراتی کام کے لیے 21 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 969 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے نیلم جہلم منصوبے کے لیے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ تربیلا ڈیم کے چوتھے توسیعی منصوبے کے لیے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ تکمیل کے بعد یہ منصوبہ 1410میگاواٹ بجلی فراہم کرے گا۔

گدوپاور پراجیکٹ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اپ گریڈیشن کے بعد اس پراجیکٹ کی بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت میں 747 میگا واٹ کا اضافہ ہوجائے گا۔ تاہم اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے اس سال بھی کالا باغ ڈیم کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی جاسکی۔ تاہم عوام کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کیے گئے گذشہ وعدوں کی طرح اس وعدے کے وفا ہونے کی بھی کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔

٭مواصلاتی رابطوں کی راہ میں حائل بجٹ
ٹیکنالوجی کے اس دور میں سیلولر فونز اور موبائل فون سروس فراہم کرنے والی صنعت پاکستان کو ٹیکس اور دیگر مد میں خطیر رقم ادا کر رہی ہے۔ پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والی ٹیلی کام انڈسٹری گذشتہ کئی سال سے ٹیکسز کے نشانے پر ہے۔ دنیا بھر میں رابطے کے لیے اہم موبائل فونز بلا امتیاز ہر خاص و عام کی ضرورت بن چکے ہیں۔

اب موبائل فون ریچارج پر مختلف ٹیکسوں کی مد میں 25فی صد ٹیکس ادا کرنے والے صارف کو ہینڈ سیٹ خریدنے پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ مالی سال 2015-16کے بجٹ میں موبائل فون پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم جب کہ درآمدی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ موبائل فونز کی مختلف اقسام کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی شرح کو گذشتہ سال کی نسبت دگنا کردیا گیا ہے۔ ٹیکس کی نئی شرح پر عمل درآمد ہوتے ہی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی جائے گی۔

٭تھری جی فور جی، بس اب اور نہیں
گذشتہ سال حکومتِ پاکستان نے ٹیلی کام سیکٹر کو تھری جی (تھرڈ جنریشن) اور فور جی (فورتھ جنریشن) کے لائسنس کی فروخت سے خطیر رقم حاصل کی۔ تھری جی کے آنے سے پاکستان کی ٹیلی کام انڈسٹری میں جہاں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے وہیں خطیر زرمبادلہ بھی ملا۔ لیکن بجٹ 2015-16 میں کسی بھی طرح تھری جی، فور جی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے کوئی خوش خبری نہیں ہے۔

ٹیکنالوجی کی اس نئی (پاکستان میں) صنف سے لطف اندوز ہونے پر حکومت نے14فی صد ٹیکس عاید کردیا ہے۔ اس ٹیکس کا اطلاق موبائل فون پر استعمال ہونے والے انٹرنیٹ (ٹوجی، تھری جی اور فورجی) پر ہوگا۔

٭اینٹیں بجری سستی، آٹا منہگا
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں عوام کی اکثریت ذاتی گھروں سے محروم ہے، وہاں2015-16 کے بجٹ میں تعمیراتی شعبے کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ تعمیرات کی لاگت میں کمی کے لیے اینٹوں اور بجری کے سپلائرز کو تین سال کے لیے سیلز ٹیکس سے چھوٹ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ تقریر میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ بلڈرز کو گھروں اور عمارتوں کی تعمیر اور فروخت پر نافذ کم از کم ٹیکس کی مد میں تین سال کے لیے رعایت دی جائے گی۔ استعمال شدہ تعمیراتی مشینری کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 30 فی صد سے کم کرکے 20 فی صد کردی گئی ہے۔ دوسری جانب غریب آدمی کو آٹے کی قیمت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بجٹ میں فلور ملز کو ٹرن اوور ٹیکس کی مد میں دی گئی 80فی صد کی رعایت کو ختم کردیا گیا ہے، اب عوام کو 20کلو والے آٹے کے تھیلے 15روپے تک اضافی ادا کرنا پڑیں گے۔

٭زرعی شعبے پر خصوصی توجہ
بجٹ 2015-16میں زرعی شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ زرعی قرضوں کے لیے مختص رقم بیس فی صد اضافے کے ساتھ بڑھا کر 500 ارب سے 600 ارب روپے کردی گئی ہے۔

کسانوں کو اگلے تین سالوں میں 30 ہزار ٹیوب ویل لگانے کے لیے قرضے دیے جائیں گے۔ 5 ایکڑ نہری اور 10 ایکڑ بارانی زرعی اراضی رکھنے والے کاشت کاروں کو ترجیحی بنیادوں پر قرضے دیے جائیں گے۔ حکومت نے کسانوں کو شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل خریدنے کے تجویز دی ہے۔ ان ٹیوب ویل کی خریداری پر لیے جانے والے قرضے پر سود حکومت ادا کرے گی۔ زراعت کے مواقع فراہم کرنے والی صنعتوں کو خصوصی مراعات دی جا ئیں گی، جب کہ 500 افراد کو روزگار دینے والے اداروں کاٹیکس ریٹ کم کیا جائے گا۔

٭ وزیراعظم کی خصوصی اسکیمیں
بجٹ میں وزیراعظم کی خصوصی اسکیموں کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے لیے شرح سود 8 فی صد سے کم کرکے 6 فیصد کردی گئی ہے۔ بجٹ میں دوردراز علاقوں کو باقی ملک سے فائبر آپٹک لنک سے جوڑنے کے لیے 2.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

دہشت گردی کے شکار صوبے خیبر پختون خوا میں صنعتی یونٹ لگانے پر اگلے تین سالوں تک ٹیکس کی چھوٹ دے دی گئی ہے، لیکن یہ یونٹ 2018 سے پہلے لگانا ہوں گے۔ حکومت نے حالیہ بجٹ میں رائس ملز، ہوائی اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے آلات اور پلانٹ تیار کرنے والی صنعتوں کو اگلے پانچ سالوں کے لیے انکم ٹیکس سے چھوٹ دے دی ہے۔

بجٹ میں ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات پر سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فی صد اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس حکومتی اقدام سے چاول کی قیمتوں میں کمی لیکن گارمنٹس کی قیمتوں میں اضافے ہوگا۔ جس کا براہ راست اثر صارف پر ہی پڑے گا۔ حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ترجیح میں رکھتے ہوئے 64 ارب کا مراعاتی پیکیج بھی دیا ہے۔ اسی طرح حلال گوشت کی تصدیق کرنے والی کمپنیوں کو 4 سال کے لیے انکم ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔

٭ پُر تعیش ہائی برڈ کاریں سستی، منرل واٹر، دودھ دہی اور مشروبات منہگے
بجٹ 2015-16 میں 1800سی سی سے زاید کی ہائی برڈ گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس میں 25 فی صد تک رعایت دینے کا عندیہ دیا گیا ہے، جب کہ عوام الناس کی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ منرل واٹر، پیک دودھ دہی، پنیر، فلیورڈ ملک، مشروبات اور دیسی گھی پر ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی لگا کر مزید منہگا کردیا گیا ہے۔ منرل واٹر پر ٹیکس 9 فی صد سے بڑھاکر 12 فی صد جب کہ سگریٹ کی ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 58 فی صد سے بڑھاکر 63 فی صد کی جائے گی۔

٭خواتین کے لیے بُری خبر
بجٹ 2015-16کو کسی صورت خواتین کے لیے خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ حکومت نے کاسمیٹکس اور آرائش حسن کی دیگر مصنوعات پر ٹیکس کی مد میں 5 فی صد اضافہ کردیا ہے۔ بننا سنورنا خواتین کا فطری حق ہے۔

تاہم نئے بجٹ کے بعد اب انہیں اپنے حسن کے نکھار کے لیے گھریلو بجٹ میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ حکومت سے اس فیصلے سے مشکلات کا شکار پاکستان کی کاسمیٹک انڈسٹری مزید مشکلات میں گھِر جائے گی۔ پاکستان میں بننے والی بیوٹی پراڈکٹس پر لاگو سیلز ٹیکس لیوی اور ڈیوٹی کی وجہ سے خواتین بھارت، چین اور دنیا کے دیگر ممالک سے اسمگل ہوکر آنے والے کم قیمت مصنوعات زیادہ خریدتی ہیں۔ حالیہ ٹیکس سے پاکستان کی کاسمیٹک انڈسٹری مزیک مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔

٭ اہلیان کراچی کے لیے خوش خبری
وفاقی حکومت نے بجٹ میں ٹرانسپورٹ مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنے کراچی باسیوں کے لیے گرین بس ٹرانزٹ سسٹم کے نام سے بس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بجٹ میں اس منصوبے کے لیے 16ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 22 کلومیٹر طویل گرین لائن کوریڈورسرجانی سے صدر کے روٹ تک بنایا جائے گا۔ اس منصوبے سے یومیہ 3لاکھ مسافر مستفید ہوں گے۔ اس منصوبے کو دسمبر 2016 تک پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ وفاقی بجٹ میں شاہراہوں، بندرگاہوں، پلوں، موٹر ویز اور ہوائی اڈوں کی تعمیر کے لیے مجموعی ترقیاتی بجٹ کا 58اعشاریہ3فی صد حصہ (407.9ارب روپے) مختص کیے گئے ہیں۔ ان ترقیاتی منصوبوں کے تحت کراچی تا لاہور موٹر وے ترجیجی بنیادوں پر شامل ہے۔

٭ سود کی ادائیگیاں
مالی سال 2015-16کے بجٹ میں 12کھرب سے زائد رقم حکومت کی جانب سے لیے گئے بین الاقوامی قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگی۔ پاکستان کے موجودہ قرضے اور ادائیگیاں 28کھرب 50ارب روپے تک پہنچ گئی ہیں۔ اسی وجہ سے آئندہ مالی سال کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ بجٹ کی مجموعی رقم میں سے 39کھرب 10ارب روپے تو صوبوں، دفاع اور قرضوں پر سود کی مد میں ہی خرچ ہوجائیں گے اور اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو اگلے مالی سال کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 31کھرب4ارب روپے پورا کرنے میں ناکام رہا تو پھر حکومت کو اگلا مالی سال کے اخراجات کے لیے بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر ہی گزرا کرنا پڑے گا۔

٭بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور بیت المال کے بجٹ میں اضافہ
بجٹ 2015-16میں بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کی رقم 97 ارب روپے سے بڑھا کر 102 ارب روپے کردی گئی ہے۔ اس اسکیم سے پہلے 45لاکھ لوگ مستفید ہورہے تھے، اب 50لاکھ افراد اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ بجٹ میں بیت المال کا بجٹ بھی 2 ارب روپے سے بڑھا کر 4 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ نئے مالی سال کے لیے عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے وزیراعظم ہیلتھ اسکیم کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کو ابتدا میں 23 اضلاع میں شروع کیا جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت موذی بیماریوں میں مبتلا غریب افراد کو ہیلتھ انشورنس بھی فراہم کی جائے گی۔

٭ ٹیکسز اور ترسیلات زر
ہمیشہ کی طرح اس بجٹ میں بھی پہلے سے ٹیکس دینے والے طبقے پر تو بوجھ مزید بڑھادیا گیا ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوئی تجویز پیش نہیں کی گئی ہے۔ بجٹ میں نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔ لیکن بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر ایک اور بم پھینک دیا ہے۔

بجلی کے گھریلو صارفین سالانہ 75ہزار روپے کی حد سے تجاوز کرنے پر ودہولڈنگ ٹیکس ادا کریں گے۔ اس سے قبل یہ حد ایک لاکھ روپے سالانہ تھی۔ فی الوقت ایک لاکھ کے بل پر صارف سے 7اعشاریہ 5فی صد ایڈوانس انکم ٹیکس کی مد میں لیے جاتے ہیں۔ نئے مالی سال کے لیے حکومت نے کال سینٹر کو بھی ٹیکس کے دائرہ کار میں شامل کرلیا ہے۔ کال سینٹر کو ٹیکس میں دی گئی چھوٹ ختم کردی گئی ہے، جب کہ ہوائی جہاز کی فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس سے سفر کرنے والے مسافروں پر ایڈوانس ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔

فرسٹ کلاس یا ایگزیکٹو کلاس کے مسافر 16ہزار جب کہ بزنس کلاس سے سفر کرنے والے مسافر 12ہزار روپے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں ادا کریں گے۔ حکومت نے نئے بجٹ میں ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے والے افراد اور اداروں کی بینکنگ سروسز پر بھی صفر اعشاریہ چھے فی صد ٹیکس لگا دیا ہے۔

اب تمام بینک پے آرڈر، ڈیمانڈ ڈرافٹ، ٹریول چیک وغیرہ پر یہ ٹیکس وصول کرنے کے مجاز ہوں گے۔ بجٹ کے ساتھ پیش کیے فنانس بل کے تحت بینک چیک کے ذریعے رقم کی منتقلی، آن لائن ٹرانسفر اور براہ راست یا موبائل فون اکاؤنٹ کے ذریعے رقم منتقل کرنے پر بھی یہ ٹیکس وصول کیا جائے گا، جب کہ اس ٹیکس کا نفاذ اے ٹی ایم سے رقم نکالنے پر بھی ہوگا۔ اس ٹیکس کا نشانہ ہر وہ عام آدمی بنے گا جو کم آمدنی کے سبب ٹیکس کے دائرہ کار میں نہیں تھا۔

بدحالی کا شکار شپ بریکنگ کی صنعت بھی بجٹ کا نشانہ بنے گی۔ ٹیکس دینے والے شپ بریکرز مجموعی درآمدی قیمت کا ساڑھے چار فی صد ایڈوانس ٹیکس ادا کرے گے، جب کہ سالانہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے والے شپ بریکرز سے مجموعی درآمدی لاگت کا ساڑھے چھے فی صد ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ ساتھ پیش کیے گئے فنانس بل 2015میں ٹیکس چور کی نشان دہی کرنے والے فرد کو نقد انعام دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ گھر کے اس بھیدی کو لنکا ڈھانے پر ٹیکس چوری کی گئی رقم کے تناسب سے انعام دیا جائے گا۔

٭ ایٹمی توانائی کے منصوبے
بجٹ 2015-16میں ایٹمی توانائی کے منصوبوں کے لیے 30ارب72 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، جب کہ ان منصوبوں کو 15ارب 46کروڑ روپے کی غیرملکی امداد سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ اس رقم کو پہلے سے جاری منصوبوں فیول فیبری کیشن پلانٹ میانوالی، چشمہ نیو کلیئر پاور پراجیکٹ یونٹ سی تھری، ایم پی بی ٹوشنا یورینیم مائننگ پراجیکٹ، تونسہ یورینیم مائننگ پراجیکٹ اور پینسی ٹیک لیب فیز ٹو کی توسیع اور اپ گریڈیشن کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اٹامک انرجی کمیشن کے لیے 30ارب 40کروڑ، نیو کلیئر اتھارٹی کے لیے 32کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

’’حکومت کے نزدیک دودھ اور دالیں تعیشات ہیں‘‘
سوشل میڈیا پر بجٹ کے بارے میں دل چسپ تبصرے اور تصاویر
قومی بجٹ کی تکنیکی زبان کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن میڈیا کے ذریعے بجٹ کی تفہیم ایک ایسا تاثر ضرور پیدا کر دیتی ہے جس سے بہت کچھ عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آجاتا ہے اور پھر عام آدمی بھی بجٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔

لوگوں کے موڈ اور تاثرات کو جاننے کے لیے سوشل میڈیا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پاکستانی لوگ اپنے دل کی بھڑاس کس انداز میں نکال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے محض لفظوں کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنے احساسات کی ترجمانی کرنے والے کارٹون اور ترمیم و اضافہ شدہ تصاویر کے ذریعے طنز و تنقید کا تخلیقی اظہار کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

لندن میں مقیم محمد شکلیل انجم نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے: ’’جب وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ اس سال GDP میں اضافہ ہو گا، اس سے اصل میں ان کی مراد ہوتی ہے: گیس، ڈیزل اور پیڑول۔‘‘

لاہور کے نعمان علی لکھتے ہیں: ’’بجٹ تقریر دیکھ رہا ہوں۔ اسے سن کر ایسے لگتا ہے جیسے ہم نے دنیا پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔‘‘
اسلام آباد کے ماجد آغا لکھتے ہیں: ’’برآمدات 3.2 فی صد تک کم ہو گئی ہیں، لیکن اسحق ڈار ’’سب اچھا ہے‘‘ کہہ کر باس کو خوش کر دیتے ہیں۔‘‘

نجی ٹی وی کے اینکر فرید رئیس نے لکھا ہے: ’’ FBR اہداف کے مطابق ٹیکس وصولی میں ناکام ہو گئی ہے۔ نئے ٹیکس عاید کرنے کے بجائے، ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

راولپنڈی کے اویس ستی نے ٹوئٹ کی ہے: ’’حکومت کے مطابق یہ اشیاء تعیشات میں آتی ہیں، دودھ، چینی، چاول، دالیں، تیل۔ چناںچہ ان پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔‘‘

ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے وابستہ نازیہ میمن لکھتی ہیں،’’ہائر ایجوکیشن کے لیے 71.5 بلین مختص کیے گئے ہیں، جو کہ گذشتہ سال سے 14 فی صد زیادہ ہے۔‘‘

محمد وقاص خان نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے: ’’بجٹ اعداد و شمار، شعبدہ بازی، خفیہ حقائق پر مشتمل بے کار کی مشق ہے، جسے اتفاق فائونڈری کے اکائونٹنٹ نے تیار کیا ہے۔‘‘

سمیع چوہدری کہتے ہیں، ’’ایسا لگتا ہے بجٹ 2015ء کے تحت تھوکنے اور بات چیت پر بھی جی ایس ٹی لگے گا۔‘‘

عمران بروہی کے مطابق: ’’حکومت زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں دیگر اہداف کی تکمیل میں بھی ناکام رہی ہے۔‘‘

علی سومرو نے ٹوئٹ کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر اضافی ٹیکس ناقابل قبول ہے۔
اس کے علاوہ ملک کی کچھ اہم سیاسی شخصیات نے بھی بجٹ پر اپنی رائے کا اظہار سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کیا ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

ٹویٹر پر پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی کہتے ہیں،’’آصف زرداری کے دور میں بے روزگاری کی شرح 5.2 فی صد سے بڑھ کر 6.2 فی صد ہوئی جو ایک فی صد اضافہ ہے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر دو برس کے دوران بے روزگاری میں 2.1فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی بنا پر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ غریب آدمی کا بجٹ نہیں ہے۔‘‘

تحریک انصافکی راہ نما شیریں مزاری نے اس بجٹ کو ’’صنعت کاروں کی طرف سے صنعت کاروں کے لیے بجٹ‘‘ کا دل چسپ عنوان دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی جو قیمتوں میں اضافے کا اصل ذمہ دار ہے، اسے محدود کرنے کے بجائے مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ بجٹ تقریر میں جو چیز بار بار سننے میں آئی ہے، وہ ٹیکسوں میں اضافہ ہے۔
آصفہ بھٹو زرداری کہتی ہیں، سال 2015ء کا بجٹ غریب اور محروم طبقات کے لیے نہیں بنایا گیا، اہداف حاصل کرنے میں ناکامی، اعداد و شمار میں ہیر پھیر اور جھوٹے وعدے۔

پیپلزپارٹی کی راہ نما شیری رحمان کہتی ہیں کہ قرضوں میں اضافہ ، محاصل (ریونیو) میں کمی، معاشی نمو کی ہیرپھیر پر مبنی من پسند تصویرکشی اور معاشی ترقی میں استحکام کے لیے کم زور بنیادیں۔

عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے گلگت بلتستان کے لیے گندم اور نمک پر سبسڈی واپس لینے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔

عندلیب عباس کہتی ہیں: ’’ایک ایسا وزیراعظم جو اپنی ذات کے لیے بجٹ سے 100 فی صد زاید خرچ کرتا ہے، عوام سے تقاضا کر رہا ہے کہ اس کے شاہانہ طرز زندگی کے لیے دودھ، گھی اور پٹرول پر زاید ٹیکس ادا کریں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔