کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے 2 ماہ میں 34 ملزمان بری

اصغر عمر  پير 8 جون 2015
انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ناقص تفتیش کے الزام میں تفتیشی افسران کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ناقص تفتیش کے الزام میں تفتیشی افسران کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی: انسداد دہشت گردی کی8خصوصی عدالتوں نے اپریل اور مئی میں قتل، اقدام قتل، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے کے 40 سے زائد مقدمات میں ملوث34 ملزمان کو بری کردیا ہے جب کہ سرکار نے خصوصی عدالتوں کے ان فیصلوں کے خلاف تاحال سندھ ہائیکورٹ میں اپیلیں دائر نہیں کیں۔

تفصیلات کے مطابق 21 اپریل کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتII نے محمد عارف ،گل نواز اور محمد وسیم کو غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے کے 7مقدمات سے بری کیا تھا یہ مقدمات سی آئی ڈی نے2013 میں درج کیے تھے، اسی طرح 27 اپریل کو ملزم عجب خان کو اتحاد ٹاون پولیس اسٹیشن میں درج بھتہ خوری کے مقدمے سے بری کردیا گیا، 20مئی کو عابد زیب خان کو بھتہ خوری کے مقدمے سے بری کیا گیا اور سپرمارکیٹ پولیس اسٹیشن میں درج غیرقانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے کے 2 مقدمات سے ملزم نبیل کو بھی بری کیا گیا، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے مقدمات سے ملزم اسد عباس زیدی کو بری کیا اسی عدالت نے محمد کامران کوغیر قانونی اسلحہ رکھنے کے 2 مقدمات سے بری کیا۔

اورنگی پولیس اسٹیشن میں درج مقدمے میں ملوث محمد سلمان کے خلاف بھی استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا عدالت نے جاوید اور نذیر کو اغوا برائے تاوان، پولیس مقابلے، غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے 3 مقدمات سے بری کردیا اسی عدالت نے سعید آباد پولیس اسٹیشن میں اغواء برائے تاوان کے الزام میں درج مقدمے سے امام الدین کو بری کردیا پاکستان بازار پولیس اسٹیشن میں محمد سلمان کے خلاف مقدمے کو بھی عدالت نے منظور نہیں کیا اورملزم بری کردیا گیا، سرجانی پولیس کی جانب سے عباس رشید کے خلاف بھتہ مانگنے کے مقدمے کو بھی عدالت نے مسترد کرتے ہوئے ملزم کو بری کردیا۔

جمشید کوارٹر پولیس اسٹیشن میں شکیل احمد کے خلاف درج مقدمے سے بھی ملزم کو عدالت نے 16مارچ کو بری کردیا، شارع نورجہاں تھانے کی حدود میں قتل، اقدام قتل اور پولیس مقابلے کے الزامات سے صاحب داد کو 28 مئی کو بری کیا گیا اسی عدالت نے شہزاد اور احسان مہاجر کو کلاکوٹ تھانے میں درج دہشت گردی کے مقدمات سے بری قرار دیا اسی عدالت نے بغدادی پولیس اسٹیشن میں درج 3 مقدمات سے تنویر اقبال کو بری کیا، سرسید تھانے میں درج مقدمے میں محمد محسن کو بھی بھتہ خوری کے مقدمے سے بری قراردیا گیا، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت IV نے 27 مارچ کوگلا خان عرف گل خان کو 3 مختلف مقدمات سے بری کیا، ملزم کے خلاف مقدمات گلستان جوہر تھانے میں درج کیے گئے تھے، ملزم کے خلاف سکھن تھانے میں دھماکا خیز مواد رکھنے کا مقدمہ بھی درج تھا، عدالت نے اس مقدمے سے بھی بری کردیا اسی عدالت نے گلشن اقبال پولیس اسٹیشن میں محمد آصف کو قتل اور دہشت گردی کے الزامات سے بری کردیا۔

عدالت V نے گلشن معمار، شاہ لطیف ٹاون اور شیرشاہ پولیس اسٹیشن میں در ج مقدمات سے ندیم ناصر،کاشف عرف عباس اور ذوالفقار کو بری کردیا، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت VII نے بھی 20 مارچ کو 2 ملزمان عبدالحکیم اور رحمن علی کو اقدام قتل ، پولیس مقابلے، غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے 3 مقدمات سے بری کردیا اسی عدالت نے 3 اپریل کو محمد حسین ، محمد شاہد اور محمد حنیف کو قتل ، اقدام قتل اور دیگر الزامات سے بری کردیا، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت VIII نے 29 مئی کو ملزم جلیل احمد کو دھماکا خیز مواد رکھنے کے الزام سے بری کیا، عدالت نے پولیس مقابلے اور اقدام قتل کے الزامات پر مبنی مقدمے سے ملزم شہاب الدین کو بری کیا، عدالت نے 9 مئی کو بھی 2 ملزمان کو بھتہ خوری کے الزامات سے بری کیا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت IX نے میٹھادر پولیس اسٹیشن میں محمود اعظم قاسم اور دیگر کے خلاف غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور کار سرکار میں رکاوٹ ڈالنے کے مقدمات غلط قرار دیتے ہوئے انھیں19مارچ کو بری کردیا اسی عدالت نے سید حبیب حسین کو پولیس مقابلے اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے 3 مقدمات سے 18اپریل کوبری کردیا، اسی عدالت نے رسالہ پولیس اسٹیشن میں ناصر کے خلاف دھماکا خیزمقدمے سے بھی ملزم کو بری کردیا، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت X نے 7اپریل کوڈاکس پولیس اسٹیشن میں درج بھتہ خوری کے مقدمے سے ملزم فرید نواز کو بری کردیا تھا۔

ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ملزمان کو خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے7دن اور سرکار کو 30 دن دیے گئے ہیں تاہم پراسیکیوٹر جنرل آفس کی جانب سے ان مقدمات سے ملزمان کی بریت کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر نہیں کی گئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل آفس نے خود تسلیم کرلیا ہے کہ ان مقدمات کی تفتیش ٹھیک نہیں ہوئی۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ناقص تفتیش کے الزام میں تفتیشی افسران کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے تاہم اب تک کتنے تفتیشی افسران کے خلاف کارروائی ہوئی اس بارے میں کوئی رپورٹ تیار نہیں کی گئی، ایسے وقت میں جب کراچی میں دہشت گردی کے خلاف رینجرز کی نگرانی میں خصوصی آپریشن جاری ہے ملزمان کی دہشت گردی کے مقدمات سے بریت سے آپریشن کرنیوالی فورسز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں صورتحال پر استغاثہ کا موقف جاننے کے لیے پراسیکیوٹر جنرل سندھ سے فون پر رابطے کی کوشش کی گئی تاہم وہ دستیاب نہ ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔