اردوان کے ساتھ ترکی بہ ترکی ؟

وسعت اللہ خان  منگل 9 جون 2015

یہ تو آپ نے سن پڑھ ہی لیا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے شاندار تیرہ برس کے گڈ گورننس ریکارڈ کے باوجود ترک ووٹروں نے ان کا یہ خواب توڑ دیا کہ ترکی کو پارلیمانی نظام کے بجائے ایک طاقتور صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ساڑھے پانچ سو نشستوں پر مشتمل قومی اسمبلی میں تین سو تیس نشستوں کی دو تہائی اکثریت درکار تھی۔

لیکن ہوا یہ کہ دو روز قبل ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سادہ اکثریت ( دو سو چہتر ) سے بھی محروم ہو گئی۔لگ یوں رہا ہے کہ بیس برس بعد ترکی میں کمزور مخلوط حکومتوں کا زمانہ لوٹ رہا ہے کہ جس سے تنگ آکر عوام نے لگاتار تین پارلیمانی انتخابات (دو ہزار دو ، سات ، گیارہ ) میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو مضبوط حکومت سازی کے لیے منتخب کیا۔تو کیا عوام ناشکرے ہوتے ہیں یا پھر حکمرانی ہی میں یہ وصف ہے کہ وہ سیدھے چلتے چلتے طوالت کے باعث غیر محسوس انداز میں ٹیڑھی ہوتی چلی جاتی ہے۔

رجب طییب اردوان منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی موروثی سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔وہ تو ایک معمولی ترک کوسٹ گارڈکے صاحبزادے ہیں۔گھریلو اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اردوان بھی نوعمری میں سڑک پر سوڈے کی بوتلیں اور خشخشی مرمرے بیچتے رہے۔انھوں نے نوجوانی میں پہلوانی کی ، تھیٹر ڈرامے لکھنے کا تجربہ کیا ، نیم پروفیشنل فٹ بالر رہے۔ایم بی اے بھی کیا۔

اسلام پسند نجم الدین اربکان کی سیاست سے انسیت رہی اور انیس سو چورانوے میں اربکان کی ویلفئیر پارٹی کے پلیٹ فارم سے ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے مئیر کی چار سالہ مدت کا انتخاب بھی جیت گئے اور پھر بطور مئیر کارکردگی ان کے شاندار سیاسی عروج کی بنیاد بنی۔مئیر اردوان نے تین برس میں ہی دو ارب ڈالر کی مقروض بلدیہ کو گرداب سے نکالنے کے لیے کرپشن کنٹرول کی اور استنبول میں چار ارب ڈالر کے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے۔ان منصوبوں سے شہر میں پانی کی قلت ختم ہوئی ، پبلک ٹرانسپورٹ میں پٹرول کے بجائے گیس کے استعمال سے فضائی آلودگی نصف رہ گئی۔

پچاس کے لگ بھگ نئے پل بنے ، سڑکیں اور چوک چوڑے ہوئے۔ تجاوزات کے خلاف سخت قوانین نافذ ہوئے۔ یوں استنبول کے ٹریفک مسائل قابو میں آگئے۔اس سے پہلے کہ اردوان کی چارسالہ مدت ختم ہوتی۔ فوج کے دباؤ پر اربکان حکومت ختم ہوگئی اور ویلفئیر پارٹی کو آئینی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا۔رجب طیب اردوان نے ردِ عمل میں ایک متنازعہ نظم لکھی جس میں گنبد ، مینار جیسے استعارے استعمال ہوئے۔چنانچہ مئیر کے عہدے سے برطرف ہوئے ، مقدمہ چلا ، دس ماہ قید کی سزا ہوئی مگر عملاً چار ماہ جیل میں رہے۔

اردوان اور ان کے ساتھیوں نے ویلفئر پارٹی کی سیاسی غلطیوں اور کمزوریاں کا ناقدانہ جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فوج کے گہرے سیاسی اثر و نفوذ کے ہوتے کسی مہم جوئی کے بجائے مرحلہ وار تبدیلی ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ چنانچہ اردوان ، عبداللہ گل اور دیگر ساتھیوں نے سن دو ہزار ایک میں کالعدم ویلفئیر پارٹی کی جگہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور استنبول کی بلدیاتی کارکردگی کو قابلِ عمل ملک گیر سیاسی ماڈل کے طور پر پیش کیا۔

دو ہزار دو کے پارلیمانی انتخابات میں اقتصادی کساد بازاری اور کمزور مخلوط حکومتوں کے ستائے ووٹروں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو بھاری اکثریت سے منتخب کیا۔عبداللہ گل وزیرِ اعظم بنے اور جب ایک برس بعد رجب طیب اردوان کی عدالتی بریت ہوئی تو ایک ضمنی انتخاب کے ذریعے وہ رکنِ اسمبلی اور پھر وزیرِ اعظم بنے۔ عبداللہ گل صدرِ مملکت ہو گئے۔

اگلے دس برس میں ترکی کی قومی آمدنی میں چونسٹھ فیصد اور فی کس آمدنی میں تینتالیس فیصد اضافہ ہوا اور ترکی کا شمار تیز رفتار ترقی کرنے والے ٹاپ ٹین ترقی پذیر ممالک میں ہونے لگا۔ قومی کرنسی لیرا مستحکم ہوئی اور افراطِ زر کی شرح بتیس سے کم ہو کر نو فیصد پر آ گئی۔دو ہزار دو میں ترکی آئی ایم ایف کا ساڑھے تئیس ارب ڈالر کا مقروض تھا۔دو ہزار بارہ تک یہ قرضہ اتار دیا گیا۔

تعلیمی بجٹ دو ہزار دو میں سات ارب لیرا تھا جو دو ہزار گیارہ میں بڑھ کے چونتیس ارب لیرا تک پہنچ گیا۔ پہلی بار تعلیمی بجٹ دفاعی بجٹ سے آگے نکل گیا۔یونیورسٹیوں کی تعداد دس برس کے دوران اٹھانوے سے بڑھ کے ایک سو چھیاسی ہوگئی۔لازمی اور مفت تعلیم کا دورانیہ آٹھ برس سے بڑھا کر بارہ برس کر دیا گیا۔لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ انرول کرنے کو ترجیح دی گئی۔اٹھارہ برس سے کم عمر کی آبادی کے لیے صحت کی سرکاری سہولتیں مفت قرار دی گئیں۔( گویا آدھی آبادی تحفظِ صحت کی چھتری تلے آ گئی)۔

انفراا سٹرکچر پر بھاری سرمایہ کاری ہوئی۔انیس سو تئیس سے دو ہزار دو تک نواسی برس میں ترکی میں چھ ہزار کلومیٹر پختہ شاہراہیں بنیں لیکن دو ہزار دو کے بعد سے اگلے دس برس کے دوران تیرہ ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ہائی ویز تعمیر ہوئیں۔ہائی اسپیڈ ٹرین سروس شروع کی گئی۔آبنائے باسفورس کے آر پار دنیا کی سب سے گہری سمندری ریلوے سرنگ تعمیر ہوئی۔ ایئرپورٹوں کی تعداد چھبیس سے پچاس ہوگئی۔

عدالتی اصلاحات کی کوششیں بھی ہوئیں۔سزائے موت ختم کردی گئی۔ دو ہزار نو میں بغاوت کے الزام میں تین سو کے لگ بھگ اعلٰی فوجی افسروں کی گرفتاریاں ہوئیں اور ان پر مقدمات قائم کر کے واضح پیغام دیا گیا کہ فوج سویلین قوانین سے بالا مقدس گائے نہیں۔کرد اقلیت سے ترک ریاست کی پچیس سالہ جنگ ختم ہوئی۔اس جنگ میں چالیس ہزار جانیں تلف ہوئی تھیں۔اردوان حکومت نے کرد زبان کو قومی درجہ دے کر لسانی حقوق بحال کردیے۔کرد علاقوں کی ترقی کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوا۔

ترکی نے خارجہ امور میں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے باوجود فلسطینیوں کی کھل کے حمائیت کی ، مصر میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے والی فوجی حکومت کے لتے لیے۔سعودی ایرانی علاقائی مناقشے میں اپنا وزن سعودی کیمپ میں ڈالا مگر ترکی کو ایک مسلم جمہوری رول ماڈل کے طور پر مشرقِ وسطی میں بطور مثالیہ پیش کرنے کی بھی بھرپور کوشش جاری رہی۔

تو پھر ایسا کیا ہوگیا کہ دو روز قبل پارلیمانی انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تیرہ برس میں پہلی بار حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی۔

بات یہ ہے کہ پچھلے تین برس میںترکی میں آزادیِ اظہار پر سختیاں بڑھ گئی ہیں۔دو ہزار دو میں ترکی دنیا کے ایک سو انہتر ممالک کے پریس فریڈم انڈیکس میں سویں نمبر پر تھا، آج ایک سو چونوے نمبر پر ہے۔حکومت نے ویب سائٹس بند کرنے اور کھولنے کا اختیار بھی حاصل کرلیا ہے۔ سرکار مخالف مظاہروں کو سختی سے کچلنے کا رجہان بھی بڑھا ہے۔سرکردہ مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نے بھی بڑھتی ہوئی بے اعتدالیوں کے سبب اردوان حکومت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بیوروکریسی میں گولن کا اچھا خاصا اثرونفوذ ہے۔چنانچہ بہت سے اسکینڈلز چار دیواری سے باہر آئے اور اردوان حکومت کی شہرت کو بٹہ لگا۔

انفرااسٹرکچر کی ترقی کے نام پربے تحاشا تعمیراتی کمرشلائزیشن کے سبب ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان پر شہری نوجوان طبقہ بالخصوص نالاں ہے۔کروڑوں ڈالر کے کرپشن اسکینڈلز نے گڈ گورننس کی چیمپئن اردوان حکومت کے کئی وزرا ، ان کی اولادوں اور اعلی افسران کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔اس ضمن میں متعدد گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔اقتصادی ترقی کے باوجود بے روزگاری کی شرح دس فیصد سے بڑھ کے بارہ فیصد تک بتائی جا رہی ہے۔

اور اس پر یہ خبریں بھی سونے پر سہاگہ کہ ماحولیاتی تحفظ یافتہ اتاترک نیشنل پارک میں ساڑھے تین سو ملین ڈالر کی لاگت سے صدر اردوان کے لیے ایک ہزار کمروں کا پچاس ایکڑ پہ پھیلا محل عدالتی امتناع کے باوجود مکمل کیا گیا اور اس محل میں سربراہانِ مملکت کا استقبال عثمانی دور کی وردیوں میں ملبوس سپاہی کرتے ہیں۔گویا صدر اردوان خود کو منتخب نمایندے کے بجائے عثمانی سلطان تصور کرتے ہیں۔تبھی تو وہ بااختیار وزارتِ عظمی چھوڑنے کے بعد جب گذشتہ برس صدر منتخب ہوئے تو اپنے لیے ایک کمزور وزیرِ اعظم پسند فرمایا۔

شام کی خانہ جنگی میں اردوان حکومت کی جانب سے شدت پسند دولتِ اسلامیہ کے بارے میں نرم روی برتنے کا بھی اندورون و بیرون پختہ تاثر ہے اور اس بابت شامی سرحد پر آباد ترک کردوں کو سب سے زیادہ مسائل اور شکایات ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ اردوان میں یہ خو بھی آتی چلی گئی کہ وہ اپنی مخالفت یا ناکامی کے اندرونی اسباب تلاش کرنے کے بجائے اس کا ذمے دار امریکا اور اسرائیل سمیت بیرونی طاقتوں اور ان کے ترک ایجنٹوں ( حزبِ اختلاف ) کو ٹھہرانے لگے۔تو کیا ترک ووٹر بھی ملک کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے کی صدر اردوان کی درخواست کو دھتا بتا کے بیرونی ایجنٹ ہو گئے ؟

کوئی بھی حکمراں جب تیرہ برس سے ’’جی سر ، واہ سر ، زبردست سر’’ مسلسل سنے گا تو وہ ’’ نو سر’’ ہضم کرنے کے قابل بھلا کہاں رہتا ہے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔