کیا آپ حالتِ سکون میں ہیں؟

ندیم جاوید عثمانی  اتوار 14 جون 2015
ہمارے یہاں مسئلہ یا کوئی بحران تو پیدا ہوجاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اُس کا کوئی حل پیدا نہیں ہوتا۔ فوٹو:فائل

ہمارے یہاں مسئلہ یا کوئی بحران تو پیدا ہوجاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اُس کا کوئی حل پیدا نہیں ہوتا۔ فوٹو:فائل

ہمارے یہاں اس سے بڑھ کر مضحکہ خیزسوال کوئی اور ہو نہیں سکتا کہ اگر آپ کسی شخص سے یہ پوچھیں کہ کیا آپ حالتِ سکون میں ہیں؟ ایسا سوال پوچھنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کا تعلق پاکستان سے نہ ہو اور دوسرے وہ جن کو پاکستان کے حالات و مسائل کادرست اندازہ نہ ہو۔ دوسری قسم کے لوگوں میں ہمارے حکمران اور سیاستدان آتے ہیں۔

حکمرانوں کے مطابق راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے اور سیاستدانوں کے مطابق مسائل تو ہیں مگر اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ مسائل کی سب سے اہم وجہ ان کا موجودہ حکمران نہ ہونا ہے ورنہ ایسے مسائل تو وہ چٹکی بجاتے ہی حل کردیں اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے دعوے دار سیاستدانوں کو بھی جب حکومت ملی تو جن مسائل کو وہ اپنی ایک چٹکی کی مار سمجھتے تھے اُن کو حکومت ملتے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلے کوئی چیونٹی نہیں جن کو وہ اپنی چٹکی میں دباکر مسل دیں، بلکہ یہ مسائل تو ہاتھی ہیں لہذا اُن کی چٹکی چھوٹی کی چھوٹی رہ جاتی ہے اور ہاتھی پھل پھولنے لگتے ہیں۔

کہتے ہیں جب روم جل رہا تھا تو نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا اور روم کے جلنے کے حوالے سے یہ بات پڑھتے ہوئے اکثر یہ سوال میرے ذہن میں کلبلانے لگتا تھا کہ روم تو جل گیا مگر وہ چین کی بانسری کہاں گئی جسے نیرو بجارہا تھا؟ پھر جیسے جیسے پاکستان کے حالات کا مشاہدہ کرنا شروع کیا تو یہ بات خود ہی سمجھ آگئی کہ وہ چین کی بانسری ابھی بھی سلامت ہے اور نیرو سے وراثتی طور پر منتقل ہوتی ہوئی پاکستانی حکمرانوں کے پاس آگئی تھی۔ جسے ہر حکمران اپنے دورِ حکمرانی میں بجا کر آنے والے حکمران کو بطور تحفتاً دے کر چلتا بنتا ہے!

پاکستانی عوام کو وہ وقت بھی یاد ہوگا جب پرویز مشرف کے دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے متعلق خبریں آنا شروع ہوئیں تو لوگ ایسی خبروں کا تمسخر اُڑایا کرتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر روز کے حساب سے بجلی جائے۔ دراصل یہ وہ وقت تھا جب لوگ بجلی کے کسی بڑے بریک ڈاؤن یا ہونے والے کسی فالٹ کے باعث شاذو نادر ہی اس عذاب کو جھیلتے تھے !

مگر پھر گزرتے وقت نے ثابت کردیا کہ کیسے ان خبروں پر مذاق اُڑانے والوں کے اپنے دن رات بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔

پھر تو یوں ہونے لگا اگر کسی کو اپنے کسی عزیز سے ملنے کے لئے جانا ہو تو پہلے فون کرکے عزیز کی دستیابی سے قبل اس بات کی تصدیق کی جانے لگی کہ آپ کے یہاں بجلی دستیاب ہے کہ نہیں؟ لوگ حال احوال کے بجائے آپ کے یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کیا ہے جیسے سوالات پوچھنے لگے اور اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ایسے سوالات ازرائے ہمدردی پوچھے جارہے ہوں بلکہ یہ جاننے کی جستجو زیادہ ہوتی کہ سامنے والا کہیں ہم سے کم عذاب میں تو نہیں۔

خوشی اور غم کے موقعوں پر خوشی اور غم سے زیادہ جنریٹرز لازم و ملزوم ہوگئے اور کچھ ایسے لوگ جنھیں خوش فہمی کے باعث یہ اُمید تھی کہ ایک دن بجلی کے اس بحران پرقابو پالیا جائے گا اُن کی اُمید بھی اُس وقت ٹوٹ گئی جب K.E.S.C یعنی کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن صرف KE رہ گیا۔ کسی بھی عقلمند کے لئے K.E.S.C میں سے سپلائی اور کارپوریشن کا غائب ہونا ہی اس نکتے کو سمجھانے کے لئے کافی تھا کہ آئندہ کے لئے کیا صورتحال ہونے والی ہے!

جب لوگوں نے بجلی کی اس غیر موجودگی کا حل گیس کے جنریٹرکی صورت میں نکالا توستم یہ ہوا کہ بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی لوڈشیڈنگ بھی سامنے آنا شروع ہوگئی۔ اب جنریٹرز کے لئے گیس تو کیا فراہم ہوتی غریبوں کے چولہے بھی ٹھنڈے کردیئے گئے اور سب سے تکلیف دہ پہلو یہ کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ کے اوقات کار بجلی کی لوڈشیڈنگ سے زیادہ ستم ڈھانے لگے کہ صبح سات بجے سے نو بجے تک اور شام چھ بجے سے رات آٹھ بجے تک اور یہ وہ اوقات کار ہیں جس میں تقریباَ ہر گھر میں گیس کی عام گھنٹوں کی بہ نسبت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں مسئلہ یا کوئی بحران تو پیدا ہوتا ہے اُس کا کوئی حل پیدا نہیں ہوتا۔

اب آتے ہیں اُس مسئلے کی جانب جس کی سرگوشیاں فی الوقت تو بڑی آہستہ سُنائی دے رہی ہیں لیکن اگر ان سرگوشیوں کی رفتار اسی طرح بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے بھیانک شور میں پانی کے بحران کی صدائیں بھی شامل ہوچکی ہوں گی اور اس بات کا ثبوت لوگوں کی گفتگو میں بجلی اور گیس کے بعد ایک نئے سوال کا اضافہ ہوتا جارہا ہے کیا آپ کے علاقے میں پانی آرہا ہے؟

اگرچہ پانی کے اس موجودہ بحران کے لئے احتجاج کے حوالے سے خبریں پڑھنے اور سُننے میں آرہی ہیں مگر آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ایسے احتجاج اُس وقت بھی ہوئے تھے جب عوام بجلی کے بحران کے باعث بلبلاتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے پھر گیس کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج مگر ہوا کیا؟ لوگ جب احتجاج کرتے کرتے تھک گئے اور پھر اپنے گھروں کو بیٹھ گئے اور یہی صبر آہستہ آہستہ اُن کی عادت میں تبدیل ہوتا گیا اب تو اس عادت کی انتہا یہ ہے کہ 8 گھنٹے کے بجائے اگر 6 گھنٹے لائٹ جائے تو لوگ شُکر ادا کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کا شُکر ہے آج تو بجلی صرف 6 گھنٹے گئی۔ یہ سوال اُٹھانے والا کوئی نہیں کہ آخر یہ 4 اور 6 گھنٹے بھی کیوں؟

مہنگائی کا طوفان ہو یا امن و امان سے متعلق صورتحال، ہر شخص ان کے ہاتھوں پریشان ہے تو وہیں بجلی، گیس اور اب پانی انسانی زندگی کی وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر گزارہ ممکن نہیں تو کیا ان تمام حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپ میں اب بھی اتنی ہمت ہے کہ یہاں کسی شخص سے یہ پوچھ سکیں کہ ـ۔ـ ’کیا آپ حالتِ سکون میں ہیں‘؟

اگر یہی حالات رہے تو ایک لمحے کو تصور کریں کہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارے گھر کی خواتین بجلی کے تاروں پر کپڑے سُکھارہی ہوں گی، لڑکیاں بالیاں گیس کے پائپ میں جھولا ڈالے ساون کے گیت گارہی ہوں گی اور بچے نلوں میں غبارے لگائے اپنے اپنے غباروں میں ہوا بھر رہے ہونگے شاید اُس وقت بریکنگ نیوز بھی کچھ اس طرح کی ہونگی کہ کراچی کے فلاں علاقے میں بجلی کا تار گرنے سے ایک شخص کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوگیا اور سینکڑوں لوگ جائے وقوع کی جانب دوڑ پڑیں گے۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں آپ غلط سمجھے ہلاک ہونے والے شخص کو دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ اُس تار کو دیکھنے جس میں بجلی آرہی تھی!

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔