بجٹ اور بُھوک

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 11 جون 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

43کھرب اور 13ارب روپے کا قومی بجٹ پیش کردیا گیا ہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ جس روز پاکستان کا بجٹ برائے 2015-16ء پیش کیا جارہا تھا، اسی دن بنگلہ دیش میں بھی ’’مثبت‘‘ بجٹ کے ترانے گائے جا رہے تھے۔

اِدھر ہمارے وزیرِخزانہ اسحق ڈار قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کررہے تھے، اُدھر بنگلہ دیش کے وزیرِ خزانہ عبدالمحیط اپنی قوم کو باور کرانے کی کوشش کررہے تھے کہ تازہ بجٹ ان کی غربت میں کمی اور خوشحالی میں اضافے کا باعث بننے والا ہے۔ دونوں اسلامی ممالک کے دونوں وزرائے خزانہ کی باتوں پر دونوں قومیں، جن کی اکثریت عسرت زدہ اور فاقہ کشوں پر مشتمل ہے، اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کے ایک سینئر لیڈر ڈاکٹر عبدالمعین خان نے بجٹ پیش کرنے والوں کے بارے میں تلخی سے کہا: ’’یہ ایک جعلی حکومت کا جعلی بجٹ ہے۔‘‘

پاکستان میں بھی دھرنا سیاست کرنے والے کبھی اس حکومت کو ’’جعلی‘‘ کہا کرتے تھے لیکن جب سے وہ دھرنے میں ناکام ہوکر پھر سے اقتدار کے ایوانوں کا حصہ بنے ہیں، یہ حکومت اور یہ اسمبلیاں انھیں اصلی لگنے لگی ہیں۔ دھرنا سیاست کرنے والوں کے لیڈر نے اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ کو ’’امیر نواز اور غریب دشمن‘‘ قرار دیا ہے لیکن ان کے الفاظ میں اخلاص نظر آتا ہے نہ توانائی۔ خیبرپختونخوا کے تازہ بلدیاتی انتخابات، دھرنا سیاست کی ناکامی اور 35پنکچروں کی جعلی کہانیوں نے دراصل ان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔

اسحاق ڈار مگر اپنی دھن میں مست ہیں۔ وہ مان ہی نہیں رہے کہ یہ بجٹ محض امرا کی خوشنودی کا دوسرا نام ہے۔ ایک صحافی نے ان کی پریس کانفرنس میں ذرا تیکھا سا سوال کیا پوچھا، وزیرِ خزانہ نے طیش میں فرمایا: ’’اس کو باہر نکالو۔‘‘ ان کے  لہجے پر سب اخبار نویس ششدر تھے۔ اگر بیشتر صحافی ان کے  احتجاج نہ کرتے تو  شاید وزیرِخزانہ  بعد میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہ کرتے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار ویسے تو صحافیوں سے پیار کرتے ہیں لیکن اس روز بجٹ کے دباؤ کے کارن لہجہ بس ذرا سا تیکھا ہوگیا:

عشق کے لفظ پہ تشدید کہاں ہوتی ہے

بس محبت کی ذرا تیکھی زباں ہوتی ہے

ماہرینِ اقتصادیات نے تازہ بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ Quantitative تو ہے لیکن اسے Qualitative نہیں کہا جاسکتا۔ جناب آصف زرداری، جنھیں وزیراعظم نوازشریف کا بجا طور پر سچا دوست اور اعانت کار کہا جارہا ہے، بھی  بجٹ سے خوش نہیں۔ یہ بجٹ کتنی جلدی اور غیر سنجیدگی میں پیش کیا گیا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس کے مندرجات اور مشمولات پر صرف ڈیڑھ دن بحث کی گئی۔ بجٹ پیش کرنے والے سرکاری صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ غریب نواز بجٹ ہے اور یہ کہ ان کے وزیراعظم کے گذشتہ دوسالہ اقتدار کے دوران مہنگائی کم ہوئی ہے۔ گویا پاکستان میں بھوک کی مقدار اور بھوکوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ عالمی ادارے مگر  اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ وزیرِخزانہ کے بجٹ پیش کرنے سے صرف دو دن قبل اقوامِ متحدہ کی ’’فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن‘‘ کی طرف سے ایک سالانہ رپورٹ جاری کی گئی۔

اس رپورٹ کو The  State  of  Food  Insecurity  in  the  World کا عنوان دیا گیا۔ اس میں دنیا کے 129ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے، یہ جاننے کے لیے کہ کس ملک میں بھوک زیادہ ہے اور وہاں کے کتنے فیصد عوام کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل رہی۔ اس جائزے میں دنیا کے دس ممالک ’’سرِفہرست‘‘ آئے ہیں جہاں بھوک حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے اور جہاں غریبوں کو نانِ جویں بھی میسر نہیں۔ پاکستان اس میں تیسرے درجے پر آیا ہے۔ بھارت کا پہلا اور چین کا دوسرا نمبر ہے۔ بھارت میں بیس کروڑ، چین میں تیرہ کروڑ اور پاکستان میں تقریباً پانچ کروڑ افراد دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی غربت ہم سے کہیں کم ہے۔ وہاں صرف ڈھائی کروڑ غریب افراد روٹی سے محروم ہیں۔ مہاتما گاندھی، جن کا ملک بھوک میں اول نمبر پر آیا ہے، نے ایک بار کہا تھا: ’’دنیا میں شدید بھوک کے ماروں کو خدا بھی روٹی کی شکل میں نظر آتا ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ اس بھارت کے موجودہ وزیرِاعظم ملک میں اسلحے کے ڈھیر لگانے کے لیے تو دنیا بھر میں بھاگتے دوڑتے نظر آرہے ہیں لیکن اپنے ملک کے بیس کروڑ غریبوں کو صبح و شام پیٹ بھر کر روٹی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

اس رپورٹ میں دنیا کے باقی چھ ممالک جہاں بھوک غالب ہے، ان میں ایتھوپیا، انڈونیشیا، تنزانیہ، فلپائن، نائجیریا اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ بھوک کے مارے ان ممالک میں نصف تعداد مسلمان ممالک کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 80 کروڑ ایسے بدقسمت لوگ موجود ہیں جنھیں دن کے چوبیس گھنٹوں میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔

اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریمؐ کا ارشادِ گرامی ہے: (مفہوم) ’’تم میں سے وہ شخص جو خود تو پیٹ بھر کر سوئے لیکن اس کا ہمسایہ رات بھر بھوکا رہے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ اگر ہم بحیثیتِ مجموعی رسول اکرمؐ کے ارشادِ گرامی پر عمل کررہے ہوتے تو آج اقوامِ متحدہ کو اپنی رپورٹ میں یہ نہ کہنا پڑتا کہ پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی بھوکی ہے اور روٹی کے ایک ایک لُقمے کو ترس رہی ہے۔

حکمرانوں کے مگر اپنے پیٹ بھریں تو عوام کی بھوک ختم ہو۔ ہاں نجی سطح پر کئی ایسی تنظیمیں نظر آتی ہیں جو کسی سرکاری دستگیری اور امداد کے بغیر بھوکوں کو روٹی بھی دے رہی ہیں اور ان کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری کرتی ہیں۔ لاہور میں ہمارے دوست میاں اخلاق الرحمن بھی ایسے ہی مخیر افراد اور انسانیت نوازوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اخلاق الرحمن صاحب نے اپنے چند دوستوں کے تعاون سے ’’پاک ہیلپ لائن‘‘ نام کی ایک این جی او بنا رکھی ہے۔ اس کے پرچم تلے وہ مختلف اسپتالوں میں غریب مریضوں اور ان کے لواحقین کو مفت کھانا بھی دیتے ہیں اور ممکن ہو تو ادویات بھی فراہم کرتے ہیں۔

کبھی کبھار وہ لاہور شہر کے مختلف علاقوں میں کھانے کے اسٹال بھی لگاتے ہیں جہاں نہایت معمولی سی قیمت پر بھوک کے ماروں کو صحت مند اور صاف ستھرا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ میاں اخلاق الرحمن صاحب ضرورت مند طالب علموں کا ہاتھ بھی تھامتے ہیں۔ اور اب وہ غریب طالب علموں کے لیے ایک شاندار یونیورسٹی بنانے کا بھی ڈول ڈال رہے ہیں۔ ملک ریاض صاحب کے بحریہ ٹاؤن کا بچھایا گیا وسیع دستر خوان بھی تہی دستوں اور بھوک کے ماروں کے لیے عظیم نعمت ہے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب بھی اپنی آرگنائزیشن ’’اخوت‘‘ کے تحت ضرورت مندوں کی بھوک منفرد انداز میں ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھوں نے اس عظیم کام کے لیے مسجد کو مرکز بنایا ہے۔  ہمارے دو دوست، جناب لختِ حسنین اور عبدالرزاق ساجد صاحب، بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی کی خاطر ایسے ہی کارِ خیر انجام دے رہے ہیں۔ دونوں برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن ان کے قائم کردہ ادارے (’’مسلم ہینڈز‘‘ اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘) پاکستان سمیت بوسنیا، ایتھوپیا، برما کے روہنگیا مسلمانوں کی اعانت و امداد بھی کررہے ہیں۔

کراچی میں حاجی حنیف طیب صاحب بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے قدم قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘‘ بھی مصیبت اور بھوک کے ماروں کی دستگیری کرتی نظر آتی ہے۔

ہمارے ملک میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے بھی غریب عوام کو دھوکا دیا ہے اور انھوں نے بھی جو بھٹو اور ان کی باقیات کے خلاف نعرہ زن ہوکر اقتدار میں آئے۔ ہمارے حکمرانوں کی اپنی بھوک ہی ختم نہیں ہوپارہی۔ ملک آدھا کردیا گیا لیکن یہ بھوک نہ مٹ سکی۔ کہا جاتا ہے کہ صرف قبر کی مٹی ہی انسان کی بھوک مٹا سکتی ہے لیکن حکمرانوں کو قبر یاد ہے نہ اس کی مٹی۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔ ہمیں اس مبارک مہینے میں خاک نشینوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔