انتہا پسندی کیخلاف قومی پالیسی تشکیل دی جائے سیاسی و سماجی تنظیمیں 

ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جس میں سب کو انصاف کی ضمانت دی جاسکے، سیفما سیمینار


Staff Reporter October 14, 2012
سائوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ’’ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر میڈیا ، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کا کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے میزبان عامر محمود خطاب کررہے ہیں، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما حیدر عباس رضوی ، نہال ہاشمی ، نصرت عباسی ، نادر لغاری ، ملک سکندر اور معراج الہدیٰ بھی سیمینار میں شریک ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کے تحت ہفتے کو مقامی ہوٹل میں ''انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات میں سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی اور میڈیا کے کردار'' کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں موجود شرکاء نے سوات میں امن کی سفیر اور پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسفزئی اور اس کی ساتھیوں شازیہ اور کائنات پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے شرکاء نے مطالبہ کیاملوث ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرکے انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

حکومت ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے فوری طور پر ایک قومی پالیسی تشکیل دے اور اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، جبکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتیں ، سول سوسائٹی ، عوام اور معاشرے کے تمام طبقات مل کر کوششیں کریں ، تمام افراد کو آزادی اظہار کا موقع فراہم کیا جائے ، اقلیتوں سمیت معاشرے کے تمام طبقوں کو ان کے حقوق مہیا کیے جائیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں تمام طبقوں کو انصاف کی فراہمی کی ضمانت دی جاسکے ۔ سیمینار میں پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ ، جماعت اسلامی، تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ق) ، مسلم لیگ (ن) ، مسلم لیگ فنکشنل، جمعیت علماء اسلام (ف) اور پاکستان ورکرز پارٹی کے رہنمائوں سمیت سول سوسائٹی، وکلاء تنظیموں کے نمائندوں، میڈیا تنظیموں کے رہنمائوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، نام نہاد طالبان نے ملالہ یوسفزئی پر نہیں بلکہ پاکستانی قوم پر حملہ کیا ہے لیکن اس حملے سے قوم منتشر ہونے کے بجائے متحد ہوگئی ہے اور ملالہ کا تعلیم اور امن کا مشن بھرپور طریقے سے جاری رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم دہرے معیار کے لوگ ہیں۔ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں جبکہ انتہا پسندی کو روکنے کے لیے ایک ہی نظر سے کام کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں آئین بنانا اتنا آسان نہیں ، یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی حیدر عباس رضوی نے کہا کہ ملک کا موجودہ نظام فرسودہ ہوچکا ہے اور اس فرسودہ نظام کے باعث ملک میں مسائل جنم لے رہے ہیں، ملک کو اس وقت نئے نظام اور آئین کی ضرورت ہے، پاکستان کے موجودہ آئین نے عوام کے مسائل حل نہیں کیے۔انھوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک نئی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اور دہشت گردی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ عوام اور سیاسی قوتوں کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے لیکن اس ایشو کے ساتھ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کے مسئلے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا کو ملالہ کے ساتھ دیگر دو بچیوں شازیہ اور کائنات کا ذکر بھی کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی ٹھیک نہیںاور آج ملکی حالات اس وجہ سے خراب ہیں کہ ماضی میں ہم نے جو بویا تھا وہ کاٹ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات انتہائی سنگین ہیں ۔ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو خدانخواستہ ملک کو 1971ء جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل چھوڑ کر قومی مسائل پر توجہ دیں ۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ ملک میں مسائل اس وقت حل ہوں گے جب قانون کی حکمرانی ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر نادر اکمل خان لغاری نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی اصل وجہ تعلیم کا عام نہ ہونا، غربت ، مہنگائی ، بیروزگاری اور معیشت کا تباہ ہونا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کی رہنما اور ایم پی اے نصرت سحر عباسی نے کہا کہ ملک میں سب سے زیادہ ناانصافی خواتین کے ساتھ ہو رہی ہے ، لیکن خواتین کی ناانصافی کے حوالے سے تمام طبقوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جہاں تمام اداروں کا احتساب ہوتا ہے وہاں میڈیا کا بھی احتساب ہونا چاہیے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی ایڈووکیٹ نے کہا کہ موجودہ طالبان کے ساتھ شہری اور دیہی طالبان کو بھی بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ ملالہ یوسف زئی کے واقعے کے بعد قوم متحد ہوگئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما علیم عادل شیخ نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ذمے دار سیاسی جماعتیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی پہلوئوں کو بھول کر اپنی خاندانی سیاست کو مضبوط کرنے پر توجہ دے رہی ہیں جس سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہے ہیں ۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما ملک سکندر نے کہا کہ پاکستان میں کوئی نظام نہیں جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی پھیل رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی تہذیب اور علم کو چھوڑ کر دوسروں کی تخلیق کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم تباہی کے راستے کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستان ورکرز پارٹی کے رہنما یوسف مستی خان نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم اور صحت بڑے مسائل ہیں، حکومت کی عدم توجہ کے سبب ملک میں قانون شکنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے اپنے حالات کو درست نہیں کیا تو پھر مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کا معاملہ قابل مذمت ہے ۔ طالبان کو طالبان نہیں درندگان کہا جائے ۔ سینئر صحافی کمال صدیقی نے کہا کہ میڈیا کو فوری طور پر اپنا ضابطہ اخلاق تشکیل دینا چاہیے ۔

ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے کہا کہ انتہا پسندی کے حوالے سے صحافیوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کہا کہ ملک میں بڑھنے والی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ سیمینار سے سیفما سندھ کے صدر عامر محمود، جنرل سیکریٹری فیصل عزیز خان، مرکزی سیکریٹری ڈاکٹر جبار خٹک ، عمران شیروانی، ذوالفقار نقوی، ڈاکٹر ہما میر، طاہر حسن خان، فہیم صدیقی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں