ایچ ای سی کی ترقی کا خمار کب اور کیسے اُترا!

رضا ہاشمی  جمعرات 11 جون 2015
جو ادارہ اپنے ذیلی سینٹرکو ہی منظم طریقے سے نہ چلا سکتا ہو وہ پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں کو کیسے چلا پائے گا ؟ فوٹو :فائل

جو ادارہ اپنے ذیلی سینٹرکو ہی منظم طریقے سے نہ چلا سکتا ہو وہ پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں کو کیسے چلا پائے گا ؟ فوٹو :فائل

 بعض اوقات مختلف چیزوں کے بارے میں ہمارا ایک مخصوص خیال ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ایک امیج بنا ہوتا ہے اور ہماری توقع ہوتی ہے کہ کوئی مخصوص حقیقت ہمارے خیالات کے عین مطابق ہو۔ مگر جب ہماری توقعات کے برعکس حقیقت ہم پر منکشف ہوتی ہے تو ذہنی اور قلبی تکلیف سے گزرنا ایک عام سی بات ہے۔

حال ہی میں میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ عام طور پر جذبات کے بلاوجہ غلبے کو ہمیشہ رد کیا ہے مگر نجانے کیوں میں ابھی تک اس دھچکے کے اثرات سے نکل نہیں پایا۔ آپ نے ایچ ای سی کا نام سن رکھا ہوگا۔ جی ہائیر ایجوکیشن کمیشن۔ میرا اس ادارے سے اپنی 17، 16 سالہ تعلیم کے دوران ایک بار بھی واسطہ نہیں پڑا۔ مگر میڈیا کی مہربانی اور ہمارے چند دوست احباب کے منہ سے پاکستان کے اس ادارے کی تعریفیں سن رکھیں تھیں کہ ایچ ای سی مجھے خوبصورت، جدید اور ذمہ دار اور ایماندار پاکستان کی ترجمانی کرنے والا ادارہ لگا کرتا۔

مثال کے طور پر مجھے یاد ہے کہ میرے ایک کزن نے باوثوق انداز میں احسان خدا بذریعہ پرویز مشرف قرار دیا تھا تعریف و توصیف کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے اور شاید جاری و ساری رہتا اگر مجھے ایچ ای سی لاہور ریجنل سینٹر نہ آنا پڑتا۔ مجھے اپنی ڈگری کی تصدیق کے لئے لاہور سینٹر جانا پڑا، لیجئے دن شروع ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ اور فون پر ملنے والی معلومات کے مطابق صبح سات سے آٹھ بجے تک ڈگریوں کی تصدیق کروانے کے امیدوروں کو ٹوکن دئے جاتے ہیں جس کے بعد یہ سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ مقررہ وقت پر ایچ ای سی آفس پہنچ گیا۔ ٹوکن کی فراہمی پر معمور شخص چوکیدار کی وردی میں ملبوس تھا۔ اسکا رویہ ہر کسی کے ساتھ یوں تھا جیسے ہم ٹوکن فراہم کرنے کی ذمہ داری اس کے لئے نوکری نہیں بلکہ ایک امر باعث مجبوری ہو۔ وہ ہر آنے والے کو کاٹ کھانے کو دوڑتا۔ ٹوکن کے باعزت حصول کے بعد سوال کیا کہ اب کہاں جانا ہے؟ جواب ملا، سامنے! سامنے؟ دیکھا تو شیشے کی دیواروں سے بنا ایک کمرہ جس میں پچاس کے لگ بھگ خواتین و حضرات موجود ہیں۔ اندر داخل ہوا تو باقاعدہ روح کھینچ کیفیت محسوس ہوئی۔

صورتحال یہ تھی کہ شیشے کی دیواروں والے اس ویٹنگ ہال میں کم از کم پچاس ساٹھ افراد موجود تھے۔ سورج اپنی شعاعوں کا رخ کمرے کی جانب کرچکا تھا اور اے سی (جو کہ تعداد میں ایک ہی تھا) وہ بھی بند تھا۔ گھٹن کس کو کہتے ہیں میں نے پورے اہتمام سے محسوس کیا۔ مگر اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے کہ مصداق میں دوسروں کی طرح ڈھٹائی پر قائم رہا (جب کہ دل ہی دل میں اسے میں ثابت قدمی قرار دے رہا تھا جسے دل سمیت ہر حس مسترد کر رہی تھی)۔ اس کمرے کے ساتھ ایک دوسرا کمرہ متصل تھا جس میں وہ لوگ جن کا ٹوکن نمبر قریب تھا بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے کھڑکیاں نصب تھیں جہاں پر ڈگری کی تصدیق کے لئے کاغذات (فارم ڈگریاں وغیرہ وصول کئے جاتے ہیں) میرا نوے نمبر ٹوکن تھا۔

ایک بھلے مانس نے بتایا کہ یہ ٹوکن دراصل کمپیوٹر لیب کے لئے ہے۔ کمپیوٹر لیب پہنچا تو لیب انسٹرکٹر کو بھی بلاوجہ ہی سیخ پا پایا۔ کام خاص نہیں تھا۔ کمپیوٹر لیب میں بھی جو کرنا ہے ایک ہی بار کرنا ہے کی عجیب و غریب شرط تھی۔ چاہے پوری لیب خالی ہو اور اے سی اسے یخ بستہ کرنے میں مصروف ہو آپ دوبارہ نہیں جاسکتے چاہے آپ کو کوئی ضروری ترمیم کرنا رہ گئی ہو۔ خیر دوبارہ روح کھینچ کمرے میں واپس آیا۔ آتے ساتھ ہی معلوم ہوا کہ ایچ ای سی کا سرور ڈاؤن ہے۔ سو انتظار کیجئے۔ دفتر واپس جانے کی ٹینشن میں انتظار کے دوران ایک ایک منٹ جیسے بم بن کر گر رہا تھا۔ ایک ہی جگہ پر شعاعیں مرکوز کرتے کرتے شائد سورج بھی تنگ آگیا جو اسنے اب سمت بدل لی تھی۔ اب وہ دوسری طرف سے آگ برسا رہا تھا۔ کمرے سے بہتر باہر کا ماحول تھا۔ باہر گرم قدمی شروع کردی۔ اس دوران کئی لوگوں سے بات چیت ہوئی۔ ان میں سے کئی فیصل آباد، ننکانہ صاحب، ساہیوال گوجرہ، فیصل آباد سے آئے تھے اور ایچ ای سی کے کمپیوٹر سرورز ڈاؤن ہونے کی ناگہانی آفت پر رنجیدہ اور چند ایک طیش میں تھے۔ قصہ ختم  یوں ہوا کہ اس روز پانچ بجے تک سسٹم نہ چل سکا اور سب کو واپس موڑ دیا گیا۔

اگلے دن پھر وہی سڑیل چوکیدار اور ٹوکن، وہی روح کھینچ کمرہ اور وہی سیخ پا لیب والا۔ ڈگری اٹیسٹیشن کا وقت 9 بجے سے شروع تھا۔ ہم سب قطار میں لگے کھڑکی کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کھڑکی ساڑھے 9 بجے کھلی۔ کھلی تو اندر سے یخ بستہ ہوائیں بھی ساتھ آئیں، یوں لگا جسے سائبیریا کی ہوائیں ہوں۔ سائبیریا کی ہوائیں ٹھنڈ اور برف باری ساتھ لاتی ہیں لیکن یہاں کی ہوائیں تو ایک اعلان ساتھ  لائیں کہ کام 10 بجے سےشروع ہوگا اور ساتھ ہی کھڑکی بند ہوگئی۔ یہ سننا تھا کہ کھڑکی کے سامنے کھڑا نوجوان جو مجھ سے دو تین سر کے فاصلے پر تھا صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کھڑکی دوبارہ کھول دی اور اندر موجود ایچ ای سی کے افسر کو مخاطب کرکے دیر کی وجہ جاننی چاہی۔ جس کے جواب میں اس نے کھڑکی بند کردی۔اس نوجوان نے پھر کھڑکی کھولی تو وہ افسر بھڑک اٹھا۔ اس نے عظیم الشان الفظ ادا کئے جس کو سن کر مجھ پر سکتا طاری ہوگیا۔

اُس نے کہا میں آپ کو وارننگ دے رہا ہوں کہ صرف یہاں نہیں بلکہ کسی بھی سرکاری دفتر کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا ورنہ پچتاؤ گے۔ اتنے میں ایک لڑکی نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کیا؟؟ یہ ہمارے پیسوں سے سب کچھ بناتی ہے حکومت! کسی انقلابی سے متاثر  اس  لڑکی کی جرات اس افسر کو نہ بھائی۔ جواب ملا او بی بی آپ چپ کریں ورنہ ریجیکٹ لکھ دوں گا اور آپ کی ڈگری کی تصدیق نہیں ہوگی۔ وہ لڑکی بھی ہار نہ ماننے والی تھی محترمہ کہنے لگیں کرکے دکھاؤ تم ریجیکٹ، فکر اسکو ہوگی جس کی ڈگری جعلی ہوگی ایک بار کرو ریجیکٹ پھر عدالت میں ملیں گے۔ عدالت کی بات پر تو جیسے افسر صاحب کو مرچیں لگ گئیں ہوں، اور پھر کہنے لگے کہ عدالتیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ہم سرکاری افسر ہیں!!

معاملہ آگے مزید چلتا مگر سرکاری افسر کے اس ازلی سبق نے شائد سب کو اپنی اوقات ایک بار پھر یاد دلا دی۔ وہ سب جو سکتے میں تھے اپنے حق کے لئے لڑنے والوں کو سمجھانے لگ گئے اور چپ رہنے کی تلقین کرنے لگے۔ تصدیق شدہ ڈگریاں لینے کے لئے شام 4 بجے تک انتظار کریں ورنہ ڈگری نہیں ملے گی۔ یعنی ایک اور دن ختم مگر حکومتی افسر اور اداروں کو بھلا کیا کوئی عدالت کچھ کہہ سکتی ہے؟ آگے کیا ہوا؟ چھوڑیئے۔ بیشتر کی ڈگریاں مسترد ہوگئیں وہ سب اس میں ترامیم کرانے چل دئے، باقی کی تصدیق ہوگئیں۔ وہ بھی آگے چل دئے۔ مگر  حکومتی کھڑکی اور سرکاری افسری کے متعلق ایچ ای سی سے حاصل ہونے والا سبق میرا حاصل زیست ہے۔ مگر جاتے جاتے یاران نکتہ داں کے لئے میرے پاس ایک سوال یہ ہے کہ جو ادارہ اپنے ذیلی سینٹر(مرکز کو چھوڑیئے) کو ہی منظم طریقے سے نہ چلا سکتا ہو وہ پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں کو کیسے چلا پائے گا؟

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔