فطرت سے بغاوت

عابد محمود عزام  جمعـء 12 جون 2015

فطرت سے بغاوت کا ہر راستہ تباہی و بربادی کی طرف جاتا ہے۔ انسان جیسے جیسے نفس پرستی کا شکار ہو کر فطرت سے بغاوت کرتا جاتا ہے، ویسے ویسے نت نئے مصائب اور آلام انسان کا گھیراؤ کرتے جاتے ہیں، لاکھ کوششوں کے باوجود بھی جن سے چھٹکارے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ ہم جنس پرستی بھی فطرت سے بدترین بغاوت ہے، جس کے حق میں قوانین بنا کر نئی تہذیب کے دعویداروں نے دنیائے انسانیت کو تاریخ کے بھیانک ترین فسادات میں مبتلا کر دیا ہے، جس کا انجام برا ہے۔

گزشتہ ماہ آئر لینڈ میں بھی ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے کر شادی کو جنس کی سرحد سے باہر دھکیل دیا گیا ہے، اس طرح آئر لینڈ ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے والا22 واں ملک بن گیا ہے، جب کہ اس وقت دنیا کے لگ بھگ 115 ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے، جن میں اکثریت مغربی ممالک کی ہے۔ اس طرح انسانیت کی بقا کا ابدی قانون پس پشت ڈال کر ایک بے ہودہ طرز عمل کو قانونی جواز فراہم کر کے مغربی ممالک انسانیت کی کھلی تذلیل کر رہے ہیں، جس کا براہ راست نقصان پوری انسانیت کو ہو رہا ہے۔

ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی کا نقصان کسی مذہب یا مسلک کو نہیں، بلکہ براہ راست انسانیت کو ہے۔ اگر انسانوں کی اکثریت اس قبیح شوق کی اسیر ہو جائے تو انسانیت کو بچانا ممکن نہیں رہے گا اور شاید کائنات میں موجود انسان ایک صدی کے اختتام سے پہلے ہی ختم ہو جائیں اور اگر انسانوں کی پیدائش اور بڑھوتری کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے تو یہ کائنات انسانوں کے وجود سے ہی خالی ہو جائے گی۔

طبی ماہرین ہم جنس پرستوں کی طرف سے فطرت سے متعلق دیے جانے والے جواز کے دلائل کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک ہم جنس پرستی ایک نفسیاتی معاملہ ہے۔ یہ لوگ اگرچہ کتنے ہی تعلیم یافتہ اور اعلیٰ اقدار و شعور کے حامل کیوں نہ ہوں، لیکن اس معاملے میں وہ نفسیاتی اور جنسی مریض ہوتے ہیں اور اپنی قبیح خواہش کو فطرت کا لباس پہنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اس سلسلے کو قائم رکھنے کے لیے قوانین بنوانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔

ہم جنس پرستی نے انسانی زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جنسی بے راہ روی کی دوسری تمام اقسام میں ہم جنس پرستی سب سے زیادہ غیر صحت مندانہ رویہ ہے، جو خطرناک امراض کا سبب بھی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہم جنس پرست اوسطاً 50 سال سے کم عمر جی پاتے ہیں، جو کہ عام آبادی کی اوسط عمر سے تقریبا 20 سال کم ہے۔

ہم جنسیت مختلف امراض کے پھیلاؤ سے کم از کم 40 ملین لوگوں کے موت کی نقیب بن چکی ہے، لیکن خود کو بیدار مغز تصور کرنے والے مغربی ممالک اس بات سے بھی غافل ہیں کہ ایڈز جیسا مہلک مرض ایک ترقی یافتہ سماج کے لیے کتنا خطرناک ہے اور ہم جنس پرستی ایڈز کو سب سے زیادہ اور تیزی کے ساتھ جنم دینے والا عمل ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں ہم جنس پرستوں میں ایچ آئی وی پازیٹو کے کیسوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اسی لیے دنیا بھر میں  ایچ آئی وی یا ایڈز پھیلانے کے حوالے سے انھیں خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

ہم جنس پرستی کی کھلی اجازت سے ایڈز جیسی لاعلاج بیماریوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ متعقلہ ممالک میں آبادی کی شرح خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے اور اب آبادی بڑھانے کے لیے بعض ممالک میں بچے پیدا کرنے پر والدین کے لیے کو مختلف قسم کے بونس دینے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ ماہرین یورپ میں دن بدن طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ بھی ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہ روی کو قرار دے رہے ہیں، جن سے یورپ کا خاندانی نظام مکمل طور پر بکھر چکا ہے۔

ایک سلیم الفطرت انسان کے لیے ہم جنس پرستی عقل سے ماورا فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات انواع میں نر و مادہ کا فرق محض  بقائے نوع کے لیے رکھا ہے اور نوع انسانی کے لیے اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اس سے تمدن کی بنیاد پڑے۔ اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ صنفیں بنائی گئی ہیں، ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے۔

ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصد زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے۔ ہم جنس پرست انسان اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خلل عظیم برپا کر دیتا ہے۔ وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ فطرت نے انسانیت کی بقا کا جو ایک طریقہ دیا ہے، وہ اس کو ٹھکرا کر محض خواہش کے لیے انسانیت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

ہم جنس پرستی کو پروان چڑھانے میں مغربی ممالک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کئی یورپی ممالک نے ہم جنسیت کو قانونی جواز فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر کے نہ صرف اخلاق و کردار کا جنازہ نکال دیا ہے، بلکہ معاشرے کو بھی تباہی و بربادی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ اگر کسی بھی مذہبی قید سے با لا تر ہو کر بطور انسان سوچا جائے تو بھی جو اصول سامنے آتا ہے وہ یہی ہے کہ انسانیت کی ابتدا مرد آدم اور عورت  حوا سے ہوئی ہے، اس طرح قیامت تک دو مختلف صنفوں کا جوڑے کی صورت میں زندگی گزارنا فطرت انسانی ٹھہرا، لیکن ایک ہی جنس کے دو اشخاص کو قانونی جواز فراہم کرنا سمجھ سے با لاتر ہے۔

تاریخ انسانی کا سرسری جائزہ بھی اس حقیقت کو واشگاف کر دیتا ہے کہ ہم جنس پرستی روز اول سے ایک غیر فطری اور غیر اخلاقی حرکت تصور کی جاتی رہی ہے۔ خود یورپ میں پاپائے روم بینیڈکٹ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جس طرح جنگلات کو تباہی سے بچانا ضروری ہے، اسی طرح انسانیت کو بھی ہم جنس پرستی سے بچانا ضروری ہے اور آئرلینڈ میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دیے جانے کو مسیحی کلیسیا نے انسانیت کی شکست سے تعبیر کیا اور کارڈینل پیتروپارولن نے آئرلینڈ کے قانون پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ خاندان کے تصور کو بچانے کے لیے تمام تر اقدامات کیے جانے چاہئیں، کیونکہ یہ انسانوں کے مستقبل کے لیے اہم ہے، لیکن تمام انسانی اقدامات کو پس پشت ڈال کر ہر غیر فطری امر کی پشت پناہی کرنا مغرب کا وتیرہ بن چکا ہے، جو بحیثیت مجموعی انسانیت کے لیے سم قاتل ہے۔

تف ہے ان پرجو ’’ہم جنس پرستی‘‘ جیسی مہلک وبا کو بھی شخصی آزادی سے تعبیر کر کے دنیا کو قعر مذلت میں ڈالنے پر تلے ہیں۔ یہ ایک ایسا خلاف فطرت فعل جس کی کوئی مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ کوئی مہذب معاشرہ ۔ اس فعل کا مقصد محض غیر فطری طریقے سے خواہشات نفس کی تکمیل ہے، لیکن کم فہم لوگ اس انسانیت کش فیصلے کی مذمت کرنے کی بجائے اس کی حمایت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، بلکہ اس کے حق میں قوانین بنا کر انسانیت کی بقا کو شدید خطرات سے دوچار کر رہے ہیں، جس کے خلاف آواز اٹھانا انسانی فریضہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔