کڑی سے کڑی ملے، مل کے زنجیر بنے

رئیس فاطمہ  اتوار 14 جون 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہمارا قانون، ہمارا انصاف کا ترازو، ہماری عدالتیں، ہمارے سیاستداں، ہماری اسمبلیاں، ہمارے ریس کورس اور اس میں دوڑنے والے گھوڑے۔ ان گھوڑوں پہ شرطیں لگانے والے بڑے بڑے زعما اور صاحب ثروت لوگ کلف لگے سوٹ اور کھڑکھڑاتی پگڑیوں والے، ہمارا میڈیا اور اس پہ عدالتیں سجانے والے، جو اپنے اپنے کانوں میں لگے مائیکرو فون کی ہدایت سے آگے نہیں جا سکتے۔

ہم کتنے منفرد ہیں کہ چند سو روپے کی چوری کرنے والا حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہیروئن بیچنے والا خود انصاف کے رکھوالوں کو خرید لیتا ہے۔ ہمارا ملک کرپٹ سیاستدانوں، کرپٹ سرمایہ داروں، کرپٹ بیوروکریسی اور کرپٹ حکمرانوں کی وہ جنت ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں مل سکتی۔ صرف سرکاری ملازم نام کی مخلوق ہی وہ واحد مخلوق ہے جن کی تنخواہوں سے از خود حکومت بھی ٹیکس منہا کر لیتی ہے۔ مئی کے مہینے میں اگر انکم ٹیکس کی شرح سے زیادہ کٹوتی اکاؤنٹ جنرل کے آفس نے کر لی تو اس کی واپسی ناممکن۔ البتہ اگر کوئی کھانچا ہے تو ممکن ہے کہ اس زائد رقم کا چیک مل جائے۔ لیکن بعض اوقات کھانچا ہونے کے باوجود نذرانہ تو دینا ہی پڑتا ہے، کبھی نقد اور کبھی شلوار سوٹ کے کپڑے یا پھر کسی اور تحفے کی صورت میں۔

لیکن اس مملکت خداداد پاکستان میں جہاں رمضان کی آمد سے پہلے ایک ریڑھی والے سے لے کر ہول سیل کے کاروبار سے منسلک پنج وقت کے نمازی اور پورے روزے رکھنے والے قابل احترام مسلمان جس طرح اپنے طور پر ہر شے کی قیمتیں از خود بڑھا دیتے ہیں کہ کمائی کا مہینہ بھی تو یہی بابرکت شعبان اور رمضان کا مہینہ ہے۔ کیا انھیں کوئی پوچھنے والا ہے؟ عوام، بدنصیب عوام حکمرانوں سے مایوس ہو کر عسکری قوتوں اور قیادت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔

پیٹرول کی قیمتیں کم ہونے کا فائدہ کیا عوام تک منتقل ہوا؟ نہیں کیونکہ یہاں تو وہ مثال صادق آتی ہے کہ ’’کڑی سے کڑی ملے‘ مل کے زنجیر بنے۔‘‘پاکستان کے عوام کی مشکلات اس لیے ختم نہیں ہوتیں اور نہ ہی کبھی مستقبل میں ان کے ختم ہونے کے امکانات ہیں کہ یہاں تمام تر مقتدر قوتوں نے ایک دوسرے کے تحفظ کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ناقابل تسخیر زنجیر بنائی ہوئی ہے۔

بظاہر یہ ایک دوسرے کو برا بھلا بھی کہتے ہیں، ایک دوسرے کو منہ بھی چڑاتے ہیں، گریبانوں پہ ہاتھ بھی ڈالتے ہیں لیکن اندر سے یہ سب ایک ہیں۔ صرف عوام کا مائنڈ سیٹ کرنے کے لیے ہمارے قلمکار قبیلے کے کچھ افراد انھیں کرائے پر مل جاتے ہیں جو کبھی حسب ضرورت کسی ایک کو برا کہتے ہیں اور دوسرے کی تعریف کرتے ہیں لیکن چند ہفتوں بعد جب ان کی نئی دیہاڑی لگ جاتی ہے تو یہ سابقہ مالکان کی مرضی و منشا سے انھیں گردن زدنی ٹھہرانے لگتے ہیں، یہ سب مقتدر قوتوں کے ہاتھوں کی زنجیروں کے تعاون سے ہوتا ہے۔ کبھی ایک دودھ کا دھلا تو دوسرا مکمل شیطان۔ اس لاثانی ترکیب سے یہ خود اپنا وجود قائم رکھتے ہیں اور لوگوں کو ان کی اصلیت کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ کاروبار حیات یونہی چلتا رہتا ہے، باریاں بدلتی رہتی ہیں۔ See Saw کا جھولا پانچ سال ایک کے قبضے میں اور پانچ دوسرے کے۔

مضبوط ہاتھوں اور وردیوں کی زنجیر کسی اجنبی کو اندر داخل نہیں ہونے دیتی۔ کوئی ہے جو ان باریاں لینے والوں سے حساب مانگے کہ محترم الیکشن سے پہلے آپ کے پاس کیا تھا؟ اور آج کیا ہے؟ اور یہ قارون کا خزانہ آپ کے پاس کہاں سے آیا؟ آپ جو ہر جگہ کروڑوں اور لاکھوں عطیے اور مدد کے لیے مصیبت زدگان کو اور مرنے والوں کو دیتے ہیں۔ وہ آپ کے پاس کہاں سے آئے؟ کون سا چھپر ہے جو مسلسل دھن دولت کی بارش آپ پر برسا رہا ہے۔

پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ بند ہو چکا کہ معجزات اب ہوتے نہیں تو کون سا طلسمی چراغ یا پارس پتھر آپ کے ہاتھ لگ گیا ہے کہ زمینیں آپ کے لیے سونا اُگل رہی ہیں۔ سمندر پہ آپ کی حکمرانی ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین شخصیات آپ کی جیبوں میں رہتی ہیں، کیا آپ بزرجمہر ہیں؟ افراسیاب ہیں، ملکہ صبا کے جانشیں ہیں، کہ پاکستان کی زمین، آسمان، سمندر ہر جگہ آپ کی دسترس میں ہے، لیکن کسی کی مجال نہیں کہ آپ سے سورس آف انکم دریافت کر سکے؟صاحب ثروت، صاحب حیثیت، بڑے بڑے سماجی، سیاسی، عسکری رتبوں اور ’’جام جمشید‘‘ کے شیدائیوں کی زنجیر نے ملک کا ایک بازو الگ کر کے جشن بہاراں منایا تھا۔

آج بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ اپنی اپنی باری لینے کے لیے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی جان بوجھ کر پیدا کیا جا رہا ہے۔ کتنی ہی مثالیں، محاورے اور کہاوتیں آج مجسم ہو کر سامنے آن کھڑی ہوئی ہیں۔ جب سندھ کے وزیر اعلیٰ اور ان کے مصاحبین ہر اہم اجلاس میں اپنی نیندیں پوری کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دفعتاً یہ کہاوت یاد آتی ہے ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘۔ جب وفاقی حکومت کی سرد مہری کراچی کے حوالے سے بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ، پانی اور تجاوزات کے حوالے سے دن بہ دن بڑھتی دکھائی دیتی ہے تو یکایک ہاتھوں کی زنجیر بتاتی ہے کہ ’’جسے پیا چاہے وہی سہاگن‘‘ اور بدنصیب کراچی کی ابتر صورت حال پہ یقینا یہ محاورہ ہر شخص کو یاد آتا ہے کہ ’’غریب کی جورو‘ سب کی بھابی‘‘ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو کوئی ذبح نہیں کرتا۔ لیکن کچھ نادان ایک ہی دفعہ میں مرغی کے پیٹ سے سارے سونے کے انڈے نکال کر لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ذبح کی ہوئی مرغی کو سمندر میں غرق کر دینا چاہتے ہیں۔ شاید کسی ایسی ہی صورت حال پہ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:

قوم کے غم میں ڈنر کھاتا ہے حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے‘ مگر آرام کے ساتھ

زبانی کلامی گرجنا برسنا اور قومی خزانے کا تمام مال اپنے اپنے رشتے داروں اور ماڈل گرلز کے توسط سے بیرون ملک بھیجنا، جہاز جدید سازو سامان سے لیس تیار کھڑے ہیں۔ صرف بگل بجنے کی دیر ہے۔ ہاتھوں کی زنجیر کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ اس لیے کسی سے بھی خیر کی توقع کرنا محض حماقت ہے۔ گِدھ تو مردہ جانور کھاتے ہیں، لیکن اہل ہوس و اقتدار زندہ لاشیں کھا رہے ہیں اور خزانے بھر رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں لیکن کوئی مسیحا یا ملاح کے آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

دیوار چمن پہ زاغ و زغن مصروف ہیں نوحہ خوانی میں
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے‘ انجام گلستاں کیا ہو گا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔