پولیس کا محکمہ ختم کردینا چاہیے؟

رحمت علی رازی  اتوار 14 جون 2015

پاکستان کی بدنصیبی یہ رہی کہ اسے نہ تو قانون بنانے والے ادارے ہی ڈھنگ کے میسر آئے، نہ ہی قانون نافذ کرنیوالے، بلکہ اُلٹا ان دونوں نے گٹھ جوڑ کرکے کتے بلی کا جانگلوسی کھیل کھیلنے کا سمجھوتہ کرلیا، اور ریاست کو عدم تحفظ اور داخلی دہشت گردی کے منہ میں دھکیل دیا۔ اس میں اندرونی مفادات اور بالادستی کا مکروہ کاروبار پنہاں تھا جس نے آج وطن عزیز کو پولیس اسٹیٹ، دہشت گردوں کی جنت، کرۂ ارض کا جہنم اور بالخصوص ایک ناکام ریاست کے القاب و خطابات سے نواز رکھا ہے۔ ملک ِخداداد میں پولیس کا کردار انتہائی افسوسناک رہا ہے۔

اس کی نمایاں وجہ سیاسی بصیرت سے عاری وہ سیاسی غنڈے ہیں جنھوں نے ہر دور میں طاقت اور جبر کے بل پر پارلیمنٹ پر قبضہ جمائے رکھا اور عوام کے بنیادی حقوق غصب کرکے پاکستانیوں کو کبھی ایک قوم نہیں بننے دیا۔ پاکستان کے اعلیٰ ادارے ان اوباش تماش بینوں کے گھر کی لونڈیاں بنے رہے، اور چند چکنے چپڑے نوالوں کی خاطر اپنے پیروں میں گھنگرو اور گلے میں زنجیریں تک بندھوانے میںکبھی عار نہ سمجھا۔ جس طرح حکومتیں یہاں لمیٹڈ کمپنیاں رہی ہیں، انتظامی ادارے بھی ان کے برانڈ لیبل بنے رہے ہیں، جیسا کہ حکومت نے اتفاق سول سروس (آئی سی ایس) کے پولیٹیکل ٹیگ ان پر چسپاں کر رکھے ہیں۔

جب پبلک سروس کے ادارے حکومتوں کے تحفظ اور مفاد کے لیے استعمال ہونگے تو ریاست بحرانوں کے جھولے پر جھولے بغیر کیسے رہ سکے گی۔ ہمارے سول سرونٹس کی وابستگی ریاست سے کبھی نہیں رہی بلکہ ہمیشہ ہی سیاست سے رہی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج پولیس کا ادارہ ناقابل ِادراک حد تک تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ پولیس نے پاکستان کے معصوم شہریوں کو تختۂ مشق بنارکھا ہے اور اس کے اسی شرمناک کردار کی وجہ سے آج ہر شریف شہری اس کے نام سے خوف کھاتا اور نفرت کرتا ہے۔ یہ پولیس کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ معاشرہ بحیثیت ِمجموعی بے پناہ حد تک عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہے۔

شہروں، دیہاتوں، جنگلوں اور ویرانوں میں چہار دانگ، جابجاڈاکو، راہزن، چور، موالی اور دیگر ہر طرح کے جرائم کارعناصر آزاد اور بے لگام دندناتے پھرتے ہیں اوراپنی من مانیوں میں مگن پولیس ایسے مجرموں کی بلاجھجک پشت پناہی کرتی نظر آتی ہے۔ بااثر مجرموں، سیاستدانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور صنعتکاروں کے ساتھ پولیس کے کارندوں کی بخشیش و تحائف کی روایت اور پولیس افسران کی اپنے ان آقاؤں پر نوازشات کی ثقافت ایک دوسرے کی بانھوں میںبانہیں ڈالے دیسی بھنگڑے کی انگلش بِیٹ پر دیوانہ وار ناچ رہی ہیں۔ ریاست کے تمام پولیس اسٹیشنز تھانیداروں کے ذاتی ڈیروں اور تھوک پرچون کی دکانوں کا روپ دھارچکے ہیں۔

وہاں صرف ان ہی کی داد رسی ہوتی ہے جن کی یا تو کوئی بہت بڑی سفارش ہو یا ان کی جیبوں میں نوٹوں کی گڈیاں چمکتی ہوں‘ اس کے بغیر ان دکانوں پر جو بھی جاتا ہے سوائے بے عزتی اور بدسلوکی کے کچھ نہیں پاتا۔یہ وطیرہ بھی پولیس ہی کا ہے کہ مخالف پارٹیوں سے رقم ان ہی  مظلوم اورکمزور لوگوں کو چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کر کے گھروں سے اٹھالیا جاتا ہے اور ان پرناکردہ جرائم ڈال کر بڑے بڑے خطرناک مقدموں میں پھنسا دیا جاتا ہے جن میں کچھ تو اپنے گھر بار بیچ کر جان بخشی کروالیتے ہیں اور بعض عمر بھر جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں، یا پھر پولیس تشدد اور مقابلوں میں ماردیے جاتے ہیں جب کہ اصل مجرموں کو تفتیشوں اور انکوائریوں میں پاک دامن ثابت کرکے قانون کے شکنجوں سے بچا لیا جاتا ہے۔

پولیس میں اکثر و بیشتر ناجائز اختیارات استعمال کرنے والوں کی اعلیٰ حکام کی طرف سے حوصلہ افزائی انہیں مزید شیطانیاں کرنے کی طرف راغب کرتی ہے، اور کبھی کبھار معمولی سی ڈانٹ ڈپٹ بھی رسمی طور پر ہوجائے تو ہوجائے۔ آجکل افسران ِبالا کی اسی طرح کی سرزنش سے بچنے کے لیے کوئی بھی تھانہ ڈکیتی کی ایف آئی آر کاٹنے کو تیار نہیں بلکہ صریحاً ڈکیتی کی وارداتوں کو بھی چھوٹی موٹی چوریوں کی وارداتوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے، اور یہی اگر کسی کے خلاف انتقامی کارروائی مطلوب ہو تو معمولی سی چوری کو بھی خطرناک ڈکیتی کا رنگ دیدیا جاتا ہے۔ مقدمات کا اندراج بغیر رشوت کے ممکن نہیں رہا۔ رشوت تو اب پولیس کلچر کا اٹوٹ انگ بن چکی ہے‘ اسلیے پولیس کا ہر چھوٹے سے چھوٹا کارندہ بھی تھانے کے اندر یا تھانے کے باہر، ناکوں پر یا دوران ِگشت لوگوں کو عجیب و غریب طریقوں سے تنگ کرکے ڈیوٹی کرنے کے بجائے منہ مانگی رشوت بٹورنے میں مستغرق رہتا ہے جسے وہ چائے پانی کے نام پراپنا سرکاری حق سمجھتا ہے۔

لوگ چھوٹی موٹی وارداتوں کا شکار ہونے پر اکثر تھانوں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہاں مدعی کو الٹا ملزم بنادیا جاتا ہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ہمارے تھانے کے کئی ایس ایچ او منشیات فروشوں کی سرپرستی کرنے پر تبدیل ہوئے۔ تھانہ کلچر اور پولیس کی مجموعی خرابی کے ذمے دار وہ اعلیٰ افسران ہیں جو ماتحت افسروں کی غیر قانونی کارروائیوں اور خلاف ِمیرٹ کوتاہیوں کو بدستورنظر انداز کرتے اور ان پر دانستہ طورپر چشم پوشیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

کسی بھی نظام کے بگاڑ یا سدھار کے ذمے دار اس کے اوپر والے اور کرتا دھرتا ہوتے ہیں۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ہاں، محنتی و مثبت سوچ کے حامل قابل اور ایماندار اعلیٰ افسران بہت کم ہیں جو کڑے احتساب کا نظام رائج کرکے نچلی سطح کے کرپٹ اور غیر انسانی کرداروں کو راہ راست پر لاسکیں۔ ہمارے ایک ساتھی گزشتہ کئی سالوں سے کرائم پر تحقیق کر رہے ہیں۔ پاکستان پولیس سے متعلق سرسری سے جو چند شماریاتی حقائق انھوںنے ہمیں بتائے، انہیں پڑھ کر جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ ان کی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر تاحال پاکستان میں جتنے بھی جرائم ہوئے ان میں سے زیادہ تر صرف پولیس نے کیے یعنی پولیس ان جرائم میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح سے شامل یا ملوث تھی۔ 67 سالوں میں لاکھوں افراد قتل ہوئے جن میں بہت کم رجسٹرڈ قتل ہیں۔

ان میں کئی ایک کا ریکارڈ مشکوک یا ضایع شدہ ہے۔ تقریباً اتنی ہی تعداد ان اقتال کی بھی ہے جو کوشش کے باوجود تھانوں میں رجسٹرڈ نہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ کافی تعداد ایسے افراد کی ہے جو اغوا کے بعد قتل کردیے گئے۔ ان کے اغواء کی ایف آئی آر تو درج ہے مگر وہ بازیاب نہ ہوسکے اور بعد میں اطلاع ملی کہ انہیں قتل کردیا گیا۔ جو افراد پولیس کے ہاتھوں صریحاً ہلاک ہوئے ان کی تعداد بھی افسوسناک حد تک ہے مگر ان میں اکثریت کی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔ ان میں زیادہ تر پولیس تشدد، پولیس مقابلوں، جیلوں، حوالاتوں اور تھانیداروں کے خفیہ نجی تھانوں میں اور پولیس تحویل میں عدالتوں کے احاطوں میں یا قیدیوں کی گاڑیوں میں لاتے لے جاتے ہوئے ہلاک ہوئے۔

ان میں وہ قتل شامل نہیں جو پولیس کے کارندوں نے مقتولوں کی سپاریاں لے کر کیے۔ ایسے بھی لاتعداد لوگ ہیں جنہیں پولیس نے ملزمان سے مل کر یا تو حوالاتوں میں ہلاک کیا یا سوتے میں ان پرسول کپڑوں میں جاکر فائرنگ کر کے قتل کردیا۔ سندھ اور پنجاب میں لاکھوں کروڑوں کی سپاریوں کے بدلے جو قتل وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ زیادہ تر ان پیشہ ور قاتلوں کے ہاتھوں ہوتے ہیں جنہیں پولیس نے خفیہ جرائم میں شیئر ہولڈرز بناکر اپنے نجی ڈیروں پر پناہ دے رکھی ہوتی ہے اور جس دن وہ قتل کرتے ہیں وہ کسی چوری یا جھگڑے کے کیس میں یا تو حوالات میں ہوتے ہیں یا جیل میں (صرف ریکارڈ میں)۔ ان معمولی سے اعداد و شمار سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پچاس فیصد سے بھی زیادہ قتل کی وارداتوں میں پولیس اصالتا ً یا وصالتا ً یا تو براہ راست ملوث ہوتی ہے یا کسی زاویے سے معاونت فراہم کرتی ہے۔

کمزور ایف آئی آرز کی وجہ سے بیشمار پیشہ ور قاتل اور ڈکیت سیکڑوں وارداتوں میں ملوث ہونے کے باوجود آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں جن کی پولیس کے ساتھ دوستیاں اور رشتہ داریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ڈی ایس پی، تھانیدار، سب انسپکٹر، اے ایس آئی، محرر اور تفتیشی رینک کے پولیس افسروں کے مجموعی اثاثے اس وقت پاکستان کے پہلے درجے کے متمول شخص کے کل اثاثوں سے 60 فیصد زائد بنتے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پولیس کی رشوت کے نیٹ ورک کا محور ڈی ایس پی سے لے کر کانسٹیبل تک زیادہ سے زیادہ ہے۔ ایس پی دوسرے درجے پر آتا ہے جب کہ ایس ایس پی سے اوپر تک رشوت لینے کا طریق کار بالکل جدید اور مختلف ہے۔ بے ایمان اور رشوت خور رینکر آفیسرز تھانوں سے اوپر زیادہ سے زیادہ ڈی ایس پی کے عہدے تک ترقی کو پسند کرتے ہیں اور زیادہ تر تو ساری سروس تھانوں ہی میں گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پی ایس پی حضرات میں یا تو بہت دیانتدار ہیں لیکن منفی سوچ کے حامل ہیں۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ غلطی سے اگر ان سے بھلا ہو جائے تو کئی ماہ تک نہیں سوتے اور اعلیٰ اختیارات کی کمیٹی بنا دیتے ہیں کہ پتہ کریں کہ ان کے ہاتھ سے یہ بھلا کیسے ہو گیا‘ اور جو بددیانت ہیں، وہ اپنی غربت مٹانے میں پی ایچ ڈی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اعلیٰ افسران کی نالائقیوں کی وجہ سے نچلی سطح کی پولیس ایک خوفناک مافیا کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔

اس کا کارن صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو جائز طریقے سے استعمال نہیں کرتے اور ان کے دفاترتک عام سائلین کی رسائی نہیں ہے‘ اسلیے ان کی بدنامی کا زریعہ ان کے ماتحت بنتے ہیں اسی وجہ سے ابھی تک کوئی بہتری کی اُمید پیدا نہیں ہو پائی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بارہا پولیس کی نااہلی پر آنسو بہا چکی ہیں اور حسب ِضرورت اسے مطلوبہ وسائل اور مراعات بھی فراہم کرچکی ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کو عہد ِحاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کیے جانے ضروری ہیں۔

مگر ہم سمجھتے ہیں کہ پولیس کی تنخواہیں خواہ لاکھوں کروڑوں بھی کر دی جائیں اور محکمانہ سسٹم کو چاہے جس قدر بھی ماڈرنائز کردیا جائے، جب تک اہل اور قابل پولیس کمانڈر کومیرٹ پر منتخب نہیں کیا جاتا، اور جب تک محکمہ پولیس کے اہلکاروں کی نیتوں سے فتور زائل نہیں ہوجاتا،قطعی طور پر کوئی افاقہ نہیں ہونیوالا، اور آخر کب تک میرٹ اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی تربیت اور بہتری کے لیے عوام اپنے پیٹ کاٹ کر وسائل فراہم کرتے رہیں گے۔

اس بگڑے آوے کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک بے پایاں اصلاحاتی جہاد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت پولیس کو ایک منظم اور عوام دوست ادارہ بنایا جانا چاہیے تھا اور اس کا تاثر عوامی نظر میں ہر زاویہ سے منور ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے انگریز دور کی پولیس کا چہرہ آج اس قدر مسخ ہوچکا ہے اور اس میں ایسی خرابیاں سرایت کرگئی ہیں جو استعماری نظام میں تصور میں بھی نہیں آ سکتی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی کے بعد اس میں آئیڈیل ریفارمز درآتیں مگر بجائے بہتری کے یہ مزید در مزید تنزلی کا شکار ہوتا گیا، اب یہ حالت ہے کہ چور اور سپاہی میں فرق کرنا دشوار ہوچکا ہے۔ نچلی سطح پر بھرتی ہونیوالوں کا یہ عالم ہے کہ ان میں بیشتر، محافظوں کی وردیاں زیب تن کرکے وارداتیں کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے اور جرائم کے نیٹ ورک کا باقاعدہ حصہ بنے ہوئے ہیں۔

اس طرح کے متعدد ملازمین ڈکیتیوں اور دیگر سنگین قسم کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے اور جائے وقوعہ سے پکڑے بھی گئے‘ ان کے تصور میں قانون اور جرم میں کوئی تمیز نہیں۔ انھوں نے قانون کا قتل کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ محکمہ پولیس جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے اور اب کسی طور بھی اس کے لیے ممکن نہیں رہا کہ یہ لوگوں کے قیمتی جان و مال کو تحفظ فراہم کرسکے۔ انگریزوں کے عہد میں پولیس کا تشخص ایسا نہ تھا جو آج ہمارے ہاں بن چکا ہے۔ سامراجی پولیس کا مقصد اگرچہ نو آبادیاتی نظام کو تحفظ فراہم کرنا تھا، بہ ایں ہمہ عوام الناس کو بھی بلاتفریق ِمذہب اس کے ذریعے ہر چند انصاف میسر آتا تھا اور مظلوموں کی داد رسی بھی برابر ہوتی تھی۔ اس کے بعد شیرشاہ سوری ایک ایسا حکمران تھا جسکے دور میں انسان تو کیا جانوروں کو بھی انصاف ملتا تھا اور سب کے حقوق کا ہر لحاظ سے خیال رکھا جاتا تھا۔

کوتوال کا نظام شیرشاہ سوری کے عہد میں بہت منظم ہوا۔اس نے اعلان کررکھا تھا کہ کسی بھی خوبصورت عورت کو زیورات سے لادکر دُور افتادہ جنگل میں چھوڑ دیا جائے اور شہر واپس آنے تک اگراس کے زیورات یا عزت لٹ جائیں تو شیر شاہ سوری کو مظلوم عوام پر حکومت کرنے کا گویا کوئی حق نہ ہو گا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے عوام کی حفاظت کا ذمے دار مکمل طور پر کوتوال کوٹھہرا دیا تھا۔ کسی علاقے میں اگر کوئی واردات ہوجاتی تو وہ بذات خود وہاں جاکر وہاں کے کوتوال کو سرِعام پھانسی دیا کرتا تھا جسکا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ سلطنت ِسوریہ کے ہر کوتوال نے شہروں، دیہاتوں اور حتیٰ کہ جنگلوں میں بھی اپنے خفیہ ٹوہ گیر پھیلا رکھے تھے جو جاسوسی کے ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے ہر ہونے والی واردات کو وقت سے پہلے ہی سونگھ لیا کرتے تھے اور اس کی مخبری وہ فوراً کوتوال کو کردیتے تھے جس سے مجرموں کو جرم کرنے سے قبل ہی دبوچ لیا جاتا تھا۔

کوتوال جرائم کی روک تھام صرف اسلیے نہیں کرتا تھا کہ اسے اپنا فرض مقدم تھا یا عوام کا تحفظ، بلکہ اسے اپنی جان عزیز تھی، جس کے لیے اس نے اپنے علاقے کو وارداتیوں اور جرائم پیشہ افراد سے پاک کردیا تھا۔ پولیس کے اس نظام کی کامیابی کے پیچھے شیر شاہ سوری کا فلسفۂ خوف پوشیدہ تھا، کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ موت کا خوف اور زندگی کا لالچ ہی دو ایسے محرکات ہیں جو انسان کو ہر طرح کے جرم سے دُور کر سکتے ہیں۔ پولیس کا جدید نظام برصغیر میں برٹش راج نے متعارف کروایا جس میں زمینداروں، نمبرداروں اور کوتوالوں کو ختم کرکے ہر تحصیل میں مجسٹریٹ تعینات کیے گئے جن کے ماتحت داروغے اور ذیلی افسران تھانوں میں متعین کیے گئے، جنہیں سول پولیس کی طرز پر استوار کیا گیا اور اسے ملٹری پولیس سے ملحق کردیا گیا۔

بعدازاں’’ کلکتہ پولیس کمیشن 1860ء‘‘ نے پولیس ریفارمر کا ایک چارٹر پیش کیا جسکے ذریعے ملٹری پولیس کو سول پولیس سے الگ کرنے اور صوبائی سطح پر انسپکٹر جنرل اور ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کے عہدوں کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا اعلیٰ اختیاراتی عہدہ تخلیق کرنے کی سفارشات پیش کی گئیں جنہیں گورنمٹ آف انڈیا نے ’’پولیس ایکٹ 1861ء‘‘ کے نام سے منظوری دی۔ پاکستان پولیس کا موجودہ محکمانہ ڈھانچہ اسی پولیس ایکٹ کی جدید شکل ہے۔ اس میں پنجاب پولیس نے ’’پولیس رولز 1934ء‘‘ کے ذریعے مزید اصلاحات متعارف کروائیں جن پر عمل پیرا ہوکر پنجاب پولیس برٹش انڈیا کی سب سے منظم اور ترقی یافتہ پولیس کہلانے لگی اور اس کی انتظامی اور ڈسپلن کی فعالیت اس درجہ مضبوط ہوگئی کہ اسے آرمی سے بھی زیادہ طاقتور اور قابلِ استعداد سمجھا جانے لگا۔

پنجاب کے یہ اصلاحاتی قواعد ایک ماڈل کے طور پر (تھوڑی بہت ترامیم کے ساتھ) پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی پولیس ریگولیشن کا حصہ بنائے گئے جو آج تک نافذ العمل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی پنجاب پولیس ایک مکمل خود مختار ادارہ تھا جس نے 1947-48ء کے مہاجرین بحران سے نبٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1955ء میں اسے ’’ویسٹ پاکستان پولیس‘‘ کے منصوبے کے تحت دوسرے تین صوبوں کے ساتھ مدغم کردیا گیا۔ 1955ء کے بعد پاکستان پولیس دیگر اداروں کی طرح بدستور پست حالی کا شکار ہوتی گئی حالانکہ 50اور 60کے عشروں میں پولیس آرگنائزیشن میںخاطر خواہ اصلاحات لاگو کی گئیں۔

2001ء اور 2006 میں پاکستان پولیس کے لیگل فریم ورک میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں جن کے ذریعے صوبائی حکومتوں کے اختیارات کم کرکے ضلعوں کومنتقل کردیے گئے اور پولیس کو قابل ِمواخذہ بنانے کا عمل شروع کیا گیا۔ اسی پلان کے تحت ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کرکے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 کی وساطت سے ضلعی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسی پلان ہی کے تحت پولیس ایکٹ 1861ء کو پولیس آرڈر سے 2002ء میں تبدیل کردیا گیا جس سے پولیس آرگنائزیشن میں طوفانی تبدیلیاں پیدا ہوئیں مگر افسوس کہ پولیس کے اعلیٰ افسران نے بے پناہ اختیارات کے حصول کے بعد بھی عوام کو کوئی ریلیف نہ دیا۔ قومی، صوبائی اور ضلعی لیول پر ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ اور ’’ پولیس کمپلینٹ کمیشن‘‘ جیسے ادارے بھی کسی بہتری کی امید پیدا نہ کرسکے۔

2007ء میں دوبارہ پولیس آرڈر میں من پسند ترامیم کرکے پولیس کی خودمختاری پر ایک مرتبہ پھر قدغن لگادیا گیا اور اسی کی وجہ سے پولیس ایک مرتبہ پھر سیاسی رسوخ کے تابع ہوکر رہ گئی۔ آج پولیس آرڈر 2002ء صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہی رائج ہے جب کہ بلوچستان اور سندھ کا نظام پولیس ایکٹ 1861ء کے تحت ہی چل رہا ہے۔ جرائم کی تاریخ میں پنجاب ہمیشہ دوسرے صوبوں سے مسابقت پر رہا ہے۔ آج دنیا کی دوسری بڑی پولیس ہونے کے باوجود جرائم کی شرح میں کمی نہیں کر پایا بلکہ یہ تناسب ہر سال مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تھانیدار ہی عام سائل کے لیے دستیاب نہیں ہوتا جب تک کہ اسے موٹی ہڈی کی خوشبو نہ آجائے، تو پھر کوئی مظلوم شخص کسی ڈی ایس پی، ایس پی، یا ڈی پی او تک کیسے رسائی پاسکتا ہے۔

کسی وزیر سے ملنا شاید پھر بھی کچھ آسان ہو مگر ایک معمولی سے سرکاری افسر کے دفتر میں داخل ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ کیا مغل شاہی نظام ہے؟ یہ کیا برہمن راج ہے کہ ہر مظلوم کو شودر سمجھ کر انصاف کے مندر سے دور کردیا جاتا ہے۔ آج عوام ظلم کی چکی میں پستے پستے اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے تھانہ اور کچہری کا نظام اتنا گھناؤنا اورمکروہ بن چکا ہے کہ شیطان بھی اس سے پناہ مانگتا ہے۔ پاکستان کے عوام ایک کربناک اذیت میں مبتلا ہیں۔ منہ زور حکمرانوں کے ستائے ہوئے مظلوم لوگ پولیس اور عدالتوں کی ظلم کی بھٹیوں میں جھلس جھلس کر بدشکل اور بدنما ہوچکے ہیں،کیونکہ انصاف اور ظلم کا معیار جڑواں اور ہم شکل ہو چکا ہے۔ ایسے میں تو یہی کہنا پڑیگا کہ اگر پولیس لوگوں کی داد رسی نہیں کرسکتی تو اولین فرصت میں پولیس کا محکمہ ہی ختم کردینا چاہیے۔

اس ملک میں جرائم کی پرورش کی ذمے دار پولیس ہے۔ پولیس نہیں ہوگی تو جرائم بھی نہیں ہونگے۔ پولیس عوام کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے‘ ہر شخص اپنی حفاظت خود کرنے پر مجبور ہے‘ ہر آدمی اسلحہ اٹھا کر گھوم رہا ہے‘ جن کے پاس اسلحہ نہیں وہ بھی سہمے سمٹے زندگی گزارہی لیں گے۔ پولیس کا محکمہ ختم کردینے کا آئیڈیا ان حالات میں انتہائی کارگر ثابت ہوسکتا ہے، اس تجربے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے اربوں کھربوں کا بجٹ ہرسال بچایا جاسکتا ہے جو عوام الناس کی بہبود کے کام آسکتا ہے۔

اگر ایسا کرنا عجیب بات ہے یا یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے تو پھر پولیس کے اعلیٰ انتظامی افسروں کو میدان عمل اترنا ہوگا اور تھانوں میں بیٹھے بدصورت راکھشسوں کا محاسبہ کرنا ہوگا، نیز تھانہ کلچر کو بدل کر عوامی پولیس کی ثقافت کو فروغ دینا ہو گا‘ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اس کے لیے ہر ضلع میں، ہر تحصیل میں مخلص دیانتدار اور فرض شناس افسروں کو اس نیک کام کا بیڑا اٹھانا ہوگا تبھی پولیس ریفارمز کی یہ بیل کسی منڈھے چڑھنے میں کامیاب ہوپائے گی۔ ہمارے پیارے وطن میں جانباز سپاہیوں کی کمی نہیں جو ملک کی بہتری اور عوام کی بھلائی کے لیے اپنی جان بھی قربان کردینے سے دریغ نہیں کرتے اور ایسے آئیڈیل ہیروز نے اس پیارے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

ایسا نہیں کہ پولیس میں سبھی برے لوگ ہیں‘ ان میں بیشمار فرشتہ صفت بھی ہیں جنہیں کچھ کر گزرنے کا موقع نہیں ملتا۔ پنجاب پولیس کا اس وقت مورال گرا اور ساکھ شدید متاثر ہوئی جب سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد دھرنے کے دوران واقعات ہوئے اور پولیس کے اعلیٰ افسروں نے حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملائی اور غیرقانونی اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا جس کی وجہ سے ان افسوسناک واقعات نے پولیس کی رہی سہی ساکھ بھی متاثر کر دی۔ پنجاب کے آئی جی مشتاق سکھیرا اور لاہور پولیس کے کمانڈر کیپٹن امین وینس پولیس کی ساکھ بحال کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے پروردہ طاقتور میرٹ پر تعینات پولیس افسر جو اپنی غربت مٹانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں‘ وہ ان کی محنت اور کارکردگی پر بڑی ’’دیانتداری‘‘ سے پانی پھیر رہے ہیں۔

کیپٹن ریٹائرڈ امین وَینس بلاشک و شبہ ایک بہادر، محنتی اور مثبت سوچ کے حامل آفیسر ہیں جو جدید پولیس میکانزم کے داعی اور بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے لاہور پولیس کو دنیا کی جدید ترین اور عوامی پولیس بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔ وہ دَبنگ پولیس آفیسر کے طور پر مشہور ہیں‘ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف عوام سے بھی سن رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ لاہور کی پولیس کا پاکستان کے لیے حالیہ غیرمعمولی اور مثالی کارنامہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے ان حالات میں جب دُنیا کی کوئی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، انھوں نے حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی پولیس ایک مضبوط پولیس ہے، خصوصاً پنجاب اور بطور خاص لاہور پولیس سیکیورٹی کے ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ زمبابوے کرکٹ ٹیم کا حالیہ دورہ پاکستان اس قدر کامیاب رہا اور لاہور پولیس نے ایسا مضبوط سیکیورٹی پلان ترتیب دیا کہ انڈیا جیسے ہمارے ازلی اور مکار دشمن ملک نے بھی دانتوں میں انگلیاں ڈال لیں۔

زمبابوے ٹیم کے دورہ پاکستان اور اس کی سیکیورٹی کے حوالے سے لاہور پولیس نے جو مثالی کردار ادا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ سری لنکن ٹیم پر اٹیک کے بعد پولیس کی کارکردگی پر جو داغ لگا اسے لاہور پولیس کے شہید سب انسپکٹر عبدالمجید نے اپنے خون سے دھودیا ہے اور پاک زمبابوے کرکٹ سیریز میں نہ صرف دونوں ٹیموں بلکہ کرکٹ کے شائقین اور شہریوں کی حفاظت کے لیے جس چلچلاتی دھوپ اور سخت موسم میں پولیس فورس نے اپنے فرائض سرانجام دیے وہ ہر سطح پر تعریف اور پذیرائی کے مستحق ہیں۔ سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) محمد امین وَینس، ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف‘ چیف ٹریفک آفیسر طیب حفیظ چیمہ اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن رانا ایاز سلیم نے جس طرح ایک ٹیم کی شکل میں سیکیورٹی پلان پر عملدرآمد کروایا وہ قابل ِستائش ہے۔

پاک زمبابوے کرکٹ سیریز نہایت پرامن ماحول میں اختتام کو پہنچی اور کرکٹ لورز اور شہریوں نے اس کا بھرپور لطف اٹھایا اوردنیا میں پاکستان کے ایک غیرمحفوظ ملک ہونے کے تاثر کی نفی بھی ہوئی۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مثالی کارکردگی پر پولیس فورس کی نہ صرف ہر سطح پر حوصلہ افزائی کرے بلکہ فرض کی راہ میں جام شہادت نوش کرنیوالے سب انسپکٹر عبدالمجید کے اہل خانہ کو ہرممکن سپورٹ بھی فراہم کی جائے۔

لاہور پولیس نے پاک زمبابوے کرکٹ سیریز کے دوران جس مثالی فرائض سرانجام دیے‘ اس نے اقوام عالم میں یہ بات ثابت کر دی کہ اگر ہماری پولیس دیانتداری سے چاہے تو ہر ملک کی ٹیم یا بڑے سے بڑے وی آئی پی کو نہ صرف مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کے ناپاک ارادوں کو بھی ناکام بنا سکتی ہے۔ پنجاب کے دیگر اضلاع اور پاکستان کے دوسرے صوبوں کو بھی چاہیے کہ وہ لاہور پولیس کی حکمت ِعملی اور پروفیشنلزم کو اپنے لیے رول ماڈل بنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔