جان بچائیے…

شیریں حیدر  اتوار 14 جون 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہر ماہ تین دن کی چھٹی اس کے کنٹریکٹ کا حصہ ہے مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ تیسرے دن کے اختتام تک لوٹ آئے۔ جس دن اسے چھٹی پر بھجوایا جائے، اس روز تو دن کا کوئی بھی حصہ ہو اسے اپنے گھر جانے کو منٹوں میں بس مل جاتی ہے، دس منٹ میں تیار ہو کر وہ تنخواہ لینے کو کھڑا ہوتا ہے مگر واپسی پر عموماً اس کا پرانا بہانہ کہ دیر ہو گئی تو بس نہیں ملی اور پھر اگلے دن بھی بس اسے شام کو لیٹ ہی ملتی ہے۔

اس بار چھٹی بھیجتے ہوئے میں نے اسے واضح الفاظ میں بتایا کہ میں اس سے بہت بہتر ملازمت کرتی تھی اور ہماری ملازمت میں ایک دن کی چھٹی بھی بلا تنخواہ نہیں ملتی، اس لیے اب کی بار وہ مقررہ وقت پر نہ لوٹا تو میں اس کی اس حساب سے تنخواہ کاٹوں گی۔ یہ دھمکی تو فقط ایک دھمکی ہی تھی ورنہ ملازمین کا ملنا اس دور کا بد ترین گھریلو مسئلہ ہے، قحط الرجال کی طر ح قحط الملازمین کا سامنا ہے ہم سب کو۔

مگر حسب معمول اس دفعہ بھی وہ اپنے مقررہ دن پر نہ لوٹا، نہ صرف اس دن بلکہ اس سے اگلے، اس سے اگلے اور اس سے اگلے دن بھی نہیں… پورا ایک ہفتہ گزار کر وہ واپس آیا تو میں نے اسے گیٹ سے داخل ہوتے دیکھا، وہ ہولے ہولے اور غالباً لنگڑا کر چل رہا تھا، ’ شاید اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا ہو گا‘ ، میں نے دل ہی دل میں سوچا، یا ممکن ہے کہ اپنے گھر کی چھت سے گر پڑا ہو، ہو سکتا ہے کہ کسی سے جھگڑا ہو گیا ہو اور انھوں نے اس کی ٹانگوں پر ڈنڈوں سے وار کیے ہوں !!! وہ ہولے ہولے چلتا ہوا ایک منٹ کا فاصلہ تین منٹ میں طے کر کے باورچی خانے کے دروازے سے اندر داخل ہوا، سلام کیا، میں نے بصد کوشش تحمل سے جواب دیا۔

’’ پانی کا ایک گلاس دے دیں باجی!! ‘‘ وہ دروازے کے قریب رکھے اسٹول پر بیٹھ گیا۔ لگ رہا تھا کہ شاید ابھی آتے ہوئے راستے میں کوئی حادثہ ہوا ہو گا ورنہ وہ پانی خود ہی فرج سے نکال کر پی لیتا۔

’’ کیا ہوا ہے لطیف… طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ ‘‘ میں نے ازراہ ہمدردی پوچھا۔

’’ کچھ بہتر ہوں آج باجی، اسی لیے تو بمشکل سفر کر کے واپس آیا ہوں!!‘‘ اس نے پانی پی کر جواب دیا۔

’’ ہوا کیا تھا تمہیں ؟ ‘‘ میں نے سوال دہرایا، پہیلیاں بوجھنے کے لیے اب کس کے پاس وقت ہوتا ہے۔

’’ وہ میرے ایک دوست کی بیوی کا بچہ ہوا ہے!!‘‘ وہ کہہ کر رکا، میں حیرت سے اسے دیکھنے لگی، بچہ اس کے دوست کی بیوی کا ہوا تھا اور نڈھال یہ ہو رہا تھا، میں اس کا منہ تک رہی تھی، ’’ بس اس کی حالت اچانک خطرے میں چلی گئی، ڈاکٹر نے کہا کہ وہ شاید ماں اور بچے کو نہ بچا سکیں، میرے دوست نے کہا کہ وہ اس کی بیوی کو بچا لیں، ظاہر ہے کہ ہر شخص یہی فیصلہ کرتا ہے، فلموں میں بھی ایسی صورت حال میں ایساہی ہوتا ہے باجی!!!‘‘

’’ اچھا تو پھر کیا ہوا… ‘‘ مجھے اس کے بیان کی طوالت سے کوفت ہونے لگی۔

’’ ایک وقت ایسا آیا کہ ڈاکٹر نے جواب دے دیا اور کہا کہ کیس ان کی اہلیت سے بڑھ کر ہے‘‘ اس نے ڈرامائی انداز میں کہا، ’’ تب تک بھابی کا بہت سا خون ضایع ہو چکا تھا مگر ہم نے امید کا دامن نہ چھوڑا اور اسے جلدی سے گاڑی میں ڈال کر قریبی بڑے قصبے میں لے گئے، وہاں ایک اچھا اسپتال ہے ‘‘

’’ گاڑی میں یا ایمبولینس میں؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’ ایمبولینس ہمارے گاؤں میں کہاں سے آئے گی باجی؟ ‘‘ اس نے فورا کہا، ’’ راستہ بھر ہم اللہ سے دعائیں مانگتے ہوئے بڑے اسپتال پہنچے، اس کی قسمت اچھی تھی کہ وہاں پر ڈاکٹر موجود بھی تھے اور اس قابل بھی کہ انھوں نے فوری آپریشن کر کے ماں اور بچہ ، دونوں کو بچا لیا ‘‘ میں نے گہری سانس لی، ورنہ میں ذہن میں کالم کی بجائے اس المیے پر کہانی ترتیب دے رہی تھی۔

’’ شکر ہے اللہ کا!!‘‘ میں نے دل سے کہا، ’’ مگر میں نے تم سے تمہاری طبیعت کی خرابی کا پوچھا ہے، اس سارے قصے میں کچھ ایسا نہیں ہوا جس سے تم لنگڑا لنگڑا کر چلنے لگو!! ‘‘ میرے لہجے میں اب ہلکی سی ناراضی تھی۔

’’ آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے تھا باجی… آپ تو خود لیڈی ہیں!!۱‘‘ اس نے لہجے میں دنیا بھر کی بے چارگی سمیٹتے ہوئے کہا۔

’’ نہیں ہوا مجھے اندازہ ‘‘ میں نے جواباٰ کہا، ’’اس ساری کہانی سے مجھے نہیں معلوم ہوا کہ تم چھٹی سے چار دن تاخیر سے بھی آئے ہو اور آئے تو یوں چل رہے ہوجیسے خدا نخواستہ تمہاری ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہو!!‘‘

’’ آپ نے کبھی کسی کو خون دیا ہے باجی؟ ‘‘ اس نے دکھی انداز میں میری طرف دیکھا، ’’ دیا ہوتا تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ خون دینے والے کو کس طرح نا طاقتی ہو جاتی ہے، انگ انگ دکھتا ہے، مجبوری نہ ہوتی اور مجھے علم ہوتا کہ میرے ساتھ ایسا ہو گا تو میں کبھی اپنے جسم کا آدھا خون کسی کی جان بچانے کو بھی نہ دیتا!!!‘‘

’’ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ تمہارے جسم کا آدھا لہو کسی نے لیا ہو گا اور یہ کہ خون دینے سے نا طاقتی ہو جاتی ہے کہ انسان چار دن کے بعد بھی چل نہیں سکتا؟ ‘‘

’’ میرے دوست نے تو یہاں تک بتایا ہے کہ اب میرے مزید بچے بھی نہیں ہو سکتے  ‘‘ اس نے مرونی سی صورت بنا کر کہا۔

’’ مگر تمہارے چھ بچے ہیں تو سہی؟ ‘‘ میں نے کہا تو اس کی شکل دیکھنے والی تھی۔ مجھے اس کو بتانے کی ضرورت نہ تھی کہ میں نے کئی بار خون بطور عطیہ دیا ہے اور ایسا ہرگز محسوس نہیں کیا جیسا وہ کہہ رہا تھا، ’’ خون دینے کے بارے میں تمہارا خیال بالکل غلط ہے، اس سے قطعی کمزوری نہیں ہوتی!! ‘‘ میں نے اسے مختصراً کہا۔

کسی ایک شخص پر موقوف نہیں بلکہ خون کا عطیہ دینے کے بارے میں یہ غلط فہمیاں ہمارے ہاں لگ بھگ ہر طبقہ میں موجود ہیں جب کے اس کے بارے میں تھوڑی سی معلومات ہونا لازم ہے۔

دنیا بھر میں چودہ جون کو عطیۂ خون کا دن منایا جاتا ہے اور اس دن پڑھے لکھے اور اس کی اہمیت جاننے والے لوگوں میں خون کا عطیہ دینے کا رجحان پایا جاتا ہے ماسوائے ہمارے اور ہم جیسے چند اور ملکوں کے لوگوں کے۔ یہ جاننا اہم ہے کہ 18برس کی عمر سے لے کر 65برس تک کی عمر کے صحت مند افراد خون کا عطیہ دے سکتے ہیں، لازم نہیں کہ آپ اس وقت خون کا عطیہ دیں جب آپ کا اپنا کوئی پیارا اس کی ضرورت رکھتا ہو کیونکہ آپ کا خون تو بہرحال اس کو نہیں لگایا جائے گا۔ عطیۂ خون جسم کی زکوۃ ہے، آپ کے خون سے ضرورت کے وقت کسی مرتے ہوئے شخص کی جان بچائی جا سکتی ہے، اگر اللہ کا امر ہو تو۔ ایک عام وزن کے ( تقریبا پنسٹھ سے ستر کلو گرام) صحت مند آدمی کے جسم میں لگ بھگ 5.5 لٹر تک خون ہوتا ہے جو کہ اس کے جسم کے کل وزن کا محض7 فیصد بنتا ہے۔ خون دینے سے آپ کے وزن پر تو بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا، عطیہ میں ایک وقت میں آپ کے کل خون کا پانچواں حصہ تک لیا جا سکتا ہے، اس عمل میں آپ کا خون ٹیسٹ کرنے سے لے کر آپ کو اسپتال سے خون دینے کے مرکز سے فارغ ہونے تک سوا گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ سوائے سوئی کی ہلکی سی چبھن کے آپ کو درد کا کوئی اور احساس نہیں ہوتا، خون دینے کے چند منٹ تک لیٹے رہیں، اگلے ایک گھنٹے میں آپ چار گلاس کوئی بھی جوس یا پانی پئیں تو آپ کو ہونے والا معمولی سی تھکاوٹ کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔

آپ کے خون کے اجزاء میں سے ہدیہ کیے گئے پلازمہ کی کمی چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اور چار سے چھ ہفتے میں بن جاتے ہیں، آٹھ ہفتے میں وہی آدمی دوبارہ خون کا عطیہ دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اپنی خوراک میں معمول میں بھی ہم سب کو ایسی غذائیں شامل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو آئرن رکھتی ہوں تا کہ ہمارے جسم میں صحت مند خون بنے، اگر ہمیں عطیۂ  خون دینے کا شوق ہو تو ہمیں ایسی غذائیں اور بھی باقاعدگی سے لینا چاہیں ۔ اگر ہمیں کوئی ایسی بیماری ہو کہ جس کا مریض خون نہیں دے سکتا تو ہمارا خون ٹیسٹ کر کے ہمیں بتا دیا جاتا ہے، اگر ہم خود خون کی کمی کا شکار ہوں تو بھی ہم سے خون کا عطیہ نہیں لیا جاتا۔

چونکہ ہمارے ہاں لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کا شوق ہے نہ عادت اس لیے ایمرجنسی کے حالات میں بلڈ بینکوں میں سے ایسا لہو مل جاتا ہے جو پیشہ ور خون بیچنے والوں کا ہوتا ہے، انہیں چونکہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ ناقص اور وقت بے وقت خون دے کر رقمیں وصول کرتے ہیں۔ اگر ہم عام لوگ اس کی افادیت اور اہمیت کو سمجھیں، کیا ضروری ہے کہ ہم خون کسی مجبوری کا شکار ہو کر ہی دوسروں کی مجبوری کو سمجھیں؟؟

آج دنیا بھر میں خون کے عطیات دینے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، چار دن کے بعد ماہ رمضان کی بھی آمد آمد ہے، آپ سب اپنے مال اسباب کی زکوۃ کا حساب کتاب کرنے میں مصروف ہیں، کیا خیال ہے کہ اگر آج جسم کی زکوۃ بھی دے دی جائے، اپنے اریب قریب دیکھیں ، کہیں نہ کہیں کیمپ لگے ہوئے ہوں گے، اخبار لپیٹ کر رکھیں، اٹھیں اور اس کار خیر میں حصہ لیں۔ ارے ڈریں نہیں ، پہلے روزے سے قبل ہی آپ کا جسم ، اس قربانی کے نتیجے میں ہونے والی کمی کا ازالہ کرنا شروع کر چکا ہوگا اور روزہ بھی آپ کو کمزور نہیں کرنے والا، جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں ، انھیں کوئی چیز کمزور نہیں کرتی!!! (جزاک اللہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔