بدلتے موسموں کا شکار عطا آباد جھیل

شبینہ فراز  منگل 16 جون 2015
جھیل کے گہرے نیلگوں پانی میں کشتیاں چلتی ہیں اور یہی کشتیاں اب مقامی لوگوں کی آمدورفت کا راستہ ہے ۔  فوٹو : فائل

جھیل کے گہرے نیلگوں پانی میں کشتیاں چلتی ہیں اور یہی کشتیاں اب مقامی لوگوں کی آمدورفت کا راستہ ہے ۔ فوٹو : فائل

گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں التت  قلعے (Altit Fort) کے قریب ٹین کی چھتوں پر مشتمل بہت سے مکانات کی قطار دور سے نظر آتی ہے۔ ان مکانات کے باہر تھوڑی سی جگہ پر سبزیاں اور جانوروں کے لیے گھاس کاشت کی گئی ہے۔ ایک کمرے پر مشتمل یہ شیلٹر ہائوس عطاء آباد جھیل کے متاثرین کے ہیں، جنہیں حکومت نے عارضی طور پر چھت مہیا کی تھی، لیکن اب 6 سال گزرجانے کے باوجود کوئی مستقل انتظام نہ ہونے کے باعث یہ لوگ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔

وہ چار جنوری  2010 کا دن تھا جو ہنزہ کے لوگوں کو ایک ڈرائونے خواب کی صورت ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس دن ہنزہ تحصیل کے گائوں عطائآباد سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں پہاڑ کا ایک بہت بڑا حصہ اور اس کے ساتھ ٹنوں مٹی اور پتھر گرنے سے دریائے ہنزہ کے بہائو کا راستہ رک گیا اور یوں ایک جھیل معرض وجود میں آگئی۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے پہاڑوں میں ہلکے ہلکے شگاف نظر آنے لگے پھردھیرے دھیرے یہ شگاف گہری ہوتے چلے گئے، ان سے مٹی اور پتھر بھی گرنے لگے ۔

بدلتے موسم اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں موضوع بحث ہیں اور پچھلے کئی سالوں کے پے درپے آنے والے سیلابوں نے اس بحث کو اور وسعت بخشی ہے لیکن ایک پہلو ایسا بھی ہے جس پر بہت کم لکھا گیا ہے، وہ ہے پہاڑوں میں موجود گلیشیئرز میں بننے والی جھیلوں کا چھلکنا یا پھٹ پڑنا ۔ ماہرین کے مطابق ہمارے گلیشیائی نظام میں 52 ایسی جھیلوں کی نشان دہی ہوچکی ہے جن میں پانی کا بڑھتا ہوا دبائو نشیبی علاقوں میں موجود آبادی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ پانی کے رسائو سے پہاڑوں میں موجود مٹی کا سرکنا، مٹی کے کٹائو یا زمین بردگی کو جنم دیتا ہے۔

جس سے پہاڑ کم زور ہوجاتے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے خطرناک واقعات میں عطاآباد کے قریب پہاڑ کا دریا میں گرنا اور سیاچن کے گیاری سیکٹر میں برفانی تودے کے گرنے سے150 فوجیوں کی شہادت اہم واقعات میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ پہاڑوں میں موجود گلیشیئرز، بلاشبہہ ہمارے لیے قدرت کا تحفہ ہیں کہ جن میں شفاف پانی ہمارے لیے منجمد کردیا گیا ہے، لیکن بُرا ہو اس بڑھتی ہوئی حدت کا کہ اس قدرتی نظام میں بھی خلل واقع ہورہا ہے اور اب یہ گلیشیئرز وقت سے پہلے اور زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ان پگھلتے گلیشیئروں کا پانی جو ہمارے لیے نعمت خداوندی ہے ، بے پروائی اور غفلت کے سبب بدترین زحمت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

ہمارا ملک چوں کہ تین عظیم پہاڑی سلسلوں یعنی ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے سنگم کا حامل ہے، چناںچہ ہمارے پہاڑی علاقوں میں ایسی کئی جھیلیں واقع ہیں جو گلیشیئرز سے پانی کے اخراج کے نتیجے میں قدرتی طور پر وجود میں آئی ہیں ۔

حال ہی میں ایک جائزے سے ایسی 52 جھیلوں کی نشان دہی ہوئی ہے جوگلیشیئرز سے زاید پانی کی آمد کے سبب پاکستان کے پہاڑی علاقوں ( ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے علاقوں) میں سیلاب لا سکتی ہیں۔ گلیشیئروں سے رِستے اور بہتے پانی نے اس علاقے میں چھوٹی بڑی کئی جھیلیں بنا رکھی ہیں۔ گرمی سے گلیشیئروں کے پگھلنے کی رفتار پہلے سے بڑھ چکی ہے۔ لہٰذا ان سے رسنے والا پانی بھی بڑھ چکا ہے، جس کے باعث قرب و جوار میں واقع کئی گلیشیائی جھیلوں میں پانی کی زیادتی ہو رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے پانی کا یہ زور بعض اوقات ان جھیلوں کے کناروں میں شگاف ڈالنے لگا ہے اور یہ جھیلیں چھلکنے لگی ہیں اور اگر پانی کا بہائو تیز ہو تو اس پانی کے ساتھ برفانی تودے اور پتھر بھی لڑھکنے لگتے ہیں جو نشیب کے علاقوں کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔

ایسا ہی ایک سانحہ عطاآباد میں ہوا جو تحصیل ہنزہ کا آخری گائوں ہے، جس کے دو حصے عطاآباد بالا اور دوسرا عطاآباد پائن ہے۔ پہاڑوں میں پڑنے والے شگاف اور ان کی گہری ہوتی دراڑوں کو پہلی بار مقامی افراد ہی نے نوٹ کیا اور حکومت اور ایک مقامی تنظیم فوکس کے اہل کاروں کو بتایا۔ فوکس سے وابستہ ڈاکٹر نذیر کا کہنا تھا کہ ہم نے کئی بار ان پہاڑوں کا معائنہ کیا۔ ہمارے پاس ہر شعبہ زندگی سے وابستہ ماہرین رضاکار موجود ہیں، ہمارے ماہرین نے واضح طور پر خطرے سے آگاہ کردیا تھا، جس کے بعد ہم نے اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ حکومت کو پیش کی اور سفارش کی کہ ان لوگوں کو یہاں سے کہیں اور منتقل کردیا جائے۔

دوہزار نو کے وسط میں جب عطاآباد بالا کے پہاڑوں میں پڑنے والی دراڑیں بہت گہری ہوگئیں تو حکومت نے دسمبر کے شروع میں جھیل والے حصے کو خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا، تاہم حکومت نے عطاآباد پائن کو محفوظ قرار دیا تھا۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پہاڑ سرکنے کا عمل جاری رہا اور چار جنوری کو عطاآباد کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا حصہ نہیں سرکا بل کہ پورا پہاڑ دریائے ہنزہ میں آگرا۔ پہاڑ جب دریا میں نیچے گرا تو اس کا ملبہ اچھلا اور نچلے گائوں عطاآباد پائن پر جاگرا جس کے نتیجے میں انیس ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جھیل بن جانے کے بعد عطاآباد گائوں کے دونوں حصے ایک ہوچکے ہیں۔ عطاآباد کے علاوہ ششکٹ گائوں، آئین آباد اور سرٹ مکمل طور پر اور گلمت کے کچھ گھر زیرآب آئے تھے۔

دریائے ہنزہ میں پہاڑی تودے کے گرنے سے جو افراد بے گھر ہوئے انہیں حکومت نے عارضی طور پر مختلف علاقوں میں بسادیا۔ التت قلعے کے قریب موجود عطاآباد کے متاثرین حکومت سے انتہائی شاکی ہیں۔

وہ ایک ایک کمرے کے مکانات میں 6 سال سے حکومت کی امداد کا انتظار کررہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں مقیم کئی افراد پر مشتمل خاندان انتہائی پریشانی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سردیوں میں انتہائی سرد اور گرمیوں میں تپتی چھت اور دیواروں کے باعث اگرچہ یہ مکان رہنے کے قابل نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے ، کوئی اور ٹھکانا نہیں۔ فرش کے نام پر کچی زمین ہے جو انتہائی سیلن زدہ ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ ہم قدرتی آفات کا شکار ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ہماری مدد کرے۔ اپنے گائوں میں یہ لوگ زمیں دار تھے، ان کے اپنے کھیت کھلیان اور بہت سے مال مویشی تھے۔ دو تین کمروں پر مشتمل کشادہ مکان میں زندگی جنت تھی۔

ان متاثرہ گھرانوں کی خواتین بھی بہت سے معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہیں۔ کمرے کے اندر ہی موجود باورچی خانہ اور اس سے اٹھتا دھواں ان کی صحت کے لیے مضر ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت الگ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکول میں مقامی بچے، ان کے بچوں کو ’’آئی ڈی پیز‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ اس سے ان کے بچے احساس کم تری میں مبتلا ہوگئے ہیں اور اسکول جانے سے کتراتے ہیں۔

عطاآباد جھیل تو وجود میں آگئی اور اب وہاں نظروں کے لیے ایک دل فریب منظر موجود ہے ۔ جھیل کے گہرے نیلگوں پانی میں کشتیاں چلتی ہیں اور یہی کشتیاں اب مقامی لوگوں کی آمدورفت کا راستہ ہے۔ جھیل میں گرنے والے تودے نے دریا کا جو راستہ بلاک کردیا تھا اس میں شگاف کرکے پانی کو نکاسی کا راستہ دے دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس قدرتی آفت سے بھی بہت سے خیر کے راستے نکل سکتے ہیں۔

اب یہ جھیل میٹھے پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بن چکی ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبۂ نباتیات کے فارن فیکلٹی پروفیسر ڈاکٹر معین الدین کہتے ہیں،’’اس جھیل کو قدرت کا تحفہ سمجھیے اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کیجیے۔‘‘ ان کا کہنا ہے،’’یہ جھیل جو کئی کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، دنیا کے نقشے پر ڈھونڈ کر بتائیے کہ اور کہیں میٹھے پانی کا قدرتی طور پر اتنا بڑا ذخیرہ پایا جاتا ہے؟

اسے تو ایک ریزروائر سمجھیے جو ایک روپے کی سرمایہ کاری کے بغیر آپ کو قدرت نے عطا کردیا ہے۔ اتنا بڑا ڈیم اگر ہم بناتے تو دس سال سے زاید کا عرصہ لگتا اور کروڑوں ڈالر قرضہ بھی لینا پڑتا، جس پر سود در سود ہماری کئی نسلیں ادا کرتی رہتیں۔ اس ڈیم کو بنانے کے لیے ہمیں ایکسپرٹ بھی باہر سے منگوانے پڑتے، جن کی فیس کی مد میں لاکھوں ڈالر ضائع ہوجاتے ۔ گویا جس ملک سے قرض لیتے اس کا تیس فی صد اسی ملک کو واپس چلا جاتا۔ اب تو ایک روپیہ خرچ کیے بغیر اتنا بڑا پانی کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ اب انتہائی سنجیدگی سے اس ذخیرہ گاہ کو مضبوط بنانے اور کام میں لانے کی ضرورت ہے۔ جتنا پانی آپ اس قدرتی ڈیم میں رکھنا چاہتے ہیں رکھ لیں اور زاید پانی کا اخراج کردیں جس سے دریا میں پانی کی روانی بھی برقرار رہے گی۔

اتنے بڑے پانی کے ذخیرے سے آپ بجلی بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ 200 فٹ اونچائی سے پانی گرنے کی قوت سے ٹربائن چل سکتی ہے اور بجلی کی کمی کا شکار ہمارا ملک قدرت کے اس تحفے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہاں فشنگ انڈسٹری ، سیاحتی سرگرمیاں اور بہت سے دیگر کام کیے جاسکتے ہیں۔‘‘

کسی زلزلے یا جغرافیائی تغیر کے باعث دریا میں پہاڑ کا گرنا یقیناً ایک قدرتی آفت ہے، لیکن ذرا سی توجہ سے ہم ایسی آفات سے ہونے والے نقصان کی شرح کو کم کرسکتے ہیں۔ ایسے تمام مخدوش علاقوں سے انسانی آبادی کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ تیکنیکی معاونت سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آبادیوں کے قریب کسی لینڈ سلائیڈنگ یا ایولانچ کا خطرہ تو نہیں ہے یا اس علاقے میں کسی قسم کی کوئی ماحولیاتی اور جغرافیائی تبدیلی تو رونما نہیں ہورہی ہے۔ بدلتے موسموں کا وہاں پر کیا اثر پڑرہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اتنے بڑے تودے کا گرنا کوئی معمول کا واقعہ نہیں ہے یقینا اس کے پس منظر میں بہت ہی غیر معمولی جغرافیائی اور ماحولیاتی عوامل موجود ہوں گے۔

محکمۂ موسمیات کے ذرائع بھی ہمارے اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ ملک کے شمالی پہاڑی سلسلوں میں برفانی تودے گرنے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور اب چوںکہ درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔

اس لیے گلیشیئر بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ بعض اوقات گلیشئرز میں موجود جھیلوں میں پانی بڑھ جاتا ہے اور وہ پھٹ پڑتے ہیں ۔ یہ پانی انتہائی طاقت سے اپنے ساتھ مٹی اور بڑے بڑے پتھر بھی لاتا ہے اور راستے میں آنے والی آبادیوں کے لیے انتہائی تباہ کن ٹھیرتا ہے۔ ہمارے پہاڑی علاقوں میں زیادہ تر آبادیاں ایسے مقامات پر آباد ہیں جہاں زیرزمین جغرافیائی تبدیلیاں تیزی سے جاری ہیں اور لوگ بے خبری میں وہاں گھر بنالیتے ہیں۔ دریائوں کے کنارے یا پہاڑوں کے دامن میں آباد یہ کچے مکانات زمین کی ایک ہلکی سی جنبش بھی برداشت نہیں کر پاتے ہیں۔

 

زمین کی حرکت سے پہاڑوں سے گرنے والے پتھر اور مٹی کے تودے معاملے کی سنگینی کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ گھر کی تعمیر سے پہلے مکمل راہ نمائی حاصل کریں کہ گھروں کو کہاں بنایا جائے، کس قسم کا سامان یا مواد، ڈیزائن اور تیکنیک کا انتخاب کیا جائے اور تعمیر کس قسم کی ہو وغیرہ۔ یہ راہ نمائی انہیں متعلقہ محکموں اور علاقے میں کام کرنے والی تنظیموں سے مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے تمام علاقوں بشمول پہاڑی علاقوں میں جغرافیائی قانون سازی کی جائے اور لوگوں میں محفوظ مقامات پر محفوظ گھروں کی تعمیر کے شعور کو اجاگر کیا جائے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ہمیں افغانستان اور نیپال میں لینڈ سلائیڈنگ سے ہونے والی تباہی یاد رکھنی چاہیے، عطاآباد جھیل کے واقعے میں ہم خوش نصیب ٹھیرے کہ تباہی کا پیمانہ بھی کم تھا اور قدرت نے ہمیں پانی کا ایک بڑا ذخیرہ بھی فراہم کردیا ، لیکن شاید اگلی بار نتیجہ یہ نہ ہو لہٰذا ہمیں تیار رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔