رجائیت سے قنوطیت کی طرف

مقتدا منصور  پير 15 اکتوبر 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

دختر پاکستان ملالہ یوسف زئی پر شدت پسند عناصر کے حملے پر مجھے قطعی حیرت نہیں ہوئی۔کیونکہ ایک ایسا معاشرہ، جو نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرت میں جکڑا ہو، وہاں اس قسم کے واقعات کا رونما ہونا اچنبھے کی بات نہیں ہوتا۔

بے شک اس سانحے کی وجہ سے پورے ملک میں ہلچل ضرور مچی ہے اور عوام نے شدت پسندی کے خلاف اپنے جذبات کا بھر پور اظہار کیا ہے لیکن ٹھوس اقدامات کی قطعی امید نہیں ہے۔ کیونکہ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اس سے زیادہ بھیانک اور انسانیت سوز واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ مگر اب تک کسی ایک واقعے کے ذمے داروں کو کیفرکردار تک پہنچانا تو دور کی بات، انھیں قانون کی گرفت تک میں نہیں لایا جا سکا۔

پاکستان کے قبائلی، جاگیردارانہ اور برداری سسٹم میں منقسم معاشرے میں قتل و غارت گری، خاص طور پر خواتین کے ساتھ بہیمانہ سلوک ایک عام سی بات ہے۔ ملک کے طول و عرض میں عزت کے نام پر قتل، ونی اور جرگے کے فیصلے پر کم عمر لڑکیوں کی ادھیڑ عمر افراد سے شادی نئی بات نہیں ہے۔ مقامی سیاسی رہنمائوں کی مداخلت کے باعث اس نوعیت کے ان گنت واقعات اول تو رجسٹر تک نہیں ہو پاتے، اگر رجسٹر ہو جائیں تو ریاستی انتظامیہ کی نا اہلی اور کرپشن کی وجہ سے یا تو خارج ہو جاتے ہیں یا پھر وقت کی دھول میں دب جاتے ہیں، یوں ذمے دار کیفر کردار تک نہیں پہنچ پاتے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ 1996ء میں خیبر پختونخوا کے ایک بااثر سیاسی گھرانے کی خاتون نے اپنی بیٹی کو پسند کی شادی کرنے پر لاہور میںایک دفتر میں کرائے کے قاتلوں کے ذریعے کھلے بندوں قتل کرا دیا تھا، اس سانحے پر ذرایع ابلاغ اور سماجی تنظیموں نے اس وقت بھی خاصا شور مچایا تھا جب کہ سماجی حلقوں کے دبائو پر سینیٹ میں عزت کے نام پر قتل کے خلاف قرارداد بھی لائی گئی، مگر اس کا انجام کیا ہوا، یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس وقت سینیٹ میں 67 اراکین ہوتے تھے، ان میں سے صرف تین اراکین سینیٹر جمیل الدین عالی، سینیٹر اقبال حیدر اور سینیٹر اعتزاز احسن نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، باقی 64 اراکین نے اس قرارداد کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ ہمارے قبائلی کلچر کا حصہ ہے۔ اس قرارداد کی مخالفت کرنے والوں میں اے این پی کے وہ سینئر رہنما بھی شامل تھے جنھیں ہم روشن خیالی اور ترقی پسندی کی علامت سمجھا کرتے تھے۔

اسی طرح موجودہ دور حکومت میں 2008ء میں بلوچستان کے ضلع نصیرآباد میں سات لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ علاقے کے رکن قومی اسمبلی نے اس واقعے کو قبائلی روایات قرار دے کر اس کا دفاع کیا۔ حکومت نے اس رکن کو اس ’’جرأتمندی‘‘ کے صلے میں وزارت عطا کر دی۔ کشمور میں ایک رکن قومی اسمبلی نے، جو اپنے قبیلے کے سردار بھی ہیں، ایک کم سن بچی کو ونی کرنے کا حکم دیا، جس کی رپورٹ ذرایع ابلاغ میں شایع ہوئی۔ حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انھیں ایک اہم وزارت دے دی۔

خیرپور میں ایک لڑکی پر کتے چھوڑے گئے، مگر صوبائی حکومت نے اس واقعے کو اس لیے دبا دیا کیونکہ اس میں علاقے کی بعض با اثر شخصیات ملوث تھیں۔ یہ صرف چند واقعات یا مثالیں ہیں مگر خدا کی مملکت میں ہر روز صنف نازک پر کیا بیت رہی ہے، اس سے دنیا بے خبر ہے۔ ظلم یہ ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم اور روزگار سے روکنے کے لیے صرف دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں ہی میں نہیں بلکہ بڑے شہروں میں بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین کی معاشی اور سماجی با اختیاریت تو دور کی بات، اچھے خاصے پڑھے لکھے گھرانوں میں ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں معاشرے کی تنگ نظری اور فرسودگی کو ظاہر کرتی ہیں۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر تو حملہ اب ہوا ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کے اسکول تباہ اور انھیں ہراساں کرنے کا عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن حکومت، سیاسی جماعتوں اور سماجی اداروں کی طرف سے سوائے مذمتی بیانات کے ان واقعات کے سدباب کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس صوبے میں شریعت اور علاقائی روایات کے نام پر خواتین کو گھر سے باہر نکلنے، ملازمت کرنے اور سماجی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی راہ میں صرف مذہبی جماعتیں ہی رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ لبرل کہلانے والی جماعتیں بھی اس عمل میں برابر کی شریک ہیں۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ 2000ء میں جب مقامی حکومتی نظام کے تحت انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا تو پختونخوا کے کئی اضلاع میں خواتین پر نہ صرف انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی گئی بلکہ ووٹ دینے کو بھی غیر شرعی قرار دیا گیا۔ عورت فائونڈیشن کے پاس ایسی دستاویز موجود ہیں جن میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی لبرل کہلانے والی جماعتوں کی مقامی قیادتوں نے بھی خواتین کو پولنگ سے دور رکھنے کے لیے اسٹامپ پیپر پر معاہدے کیے تھے۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اپنے قیام کے 65 برس گزرنے کے بعد بھی اپنے اہداف طے کرنے میں مسلسل ناکام ہے۔ جو ملک ریاست کے منطقی جواز کا مسئلہ حل نہ کر سکا ہو اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ سماجی ترقی کے لیے کوئی واضح سمت کا تعین کرے گا محض خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس صورتحال نے کئی صدیوں سے سماجی پسماندگی میں مبتلا اور قبائلی کلچر کی بندشوں میں جکڑے پاکستانی معاشرے میں سماجی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اس تقسیم میں مقتدر اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات کے علاوہ سیاسی جماعتوں کا بھی کلیدی کردار ہے جو عوام کو جہل، فرسودگی اور روایات میں الجھائے رکھ کر اپنی سیاسی و سماجی برتری قائم رکھنا چاہتی ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد آزاد ہونے والی نو آبادیات کو کئی چیلنج درپیش تھے۔چند ایک ممالک کو چھوڑ کر تقریباً سبھی ممالک نے اپنی آزادی کے ابتدائی دس برسوں کے دوران ان مسائل کو خاصی حد تک حل کر لیا، یعنی آئین سازی کے ذریعے اپنے ملک میں نظم حکمرانی کا تعین کر لیا، معیشت کی ترقی اور استحکام کے لیے تیز رفتار صنعتکاری کی اور سماجی ترقی کے لیے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔ لیکن پاکستان نے ان اہداف کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف قومی سلامتی کو اولین ترجیح بنا لیا۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی وسائل اور توانائیاں ملکی دفاع کو مضبوط بنانے پر صرف کی جانے لگیں، یوں پاکستان ایک فلاحی ریاست کے بجائے قومی سلامتی کی (Security State) ریاست اور اس خطے میں امریکی مفادات کا رکھوالا بن گیا۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی قومی سلامتی کو قیام کے ابتدائی برسوں میں کچھ خطرات ضرور تھے۔

لیکن دفاع کے ساتھ اگر دیگر امور کو بھی ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دی جاتی تو معاملات اس حد تک دگرگوں نہ ہوتے۔ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ قائد کے نالائق جانشینوں نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے کی خاطر ان کے سیکولر نصب العین کو نظر انداز کرتے ہوئے مذہب کی آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کی، جس نے معاشرے میں پہلے سے موجود تضادات کو مزید گہرا کر دیا۔ تیسرا المیہ فوج کا بار بار ایڈونچر اور سیاسی امور میں مداخلت ہے۔ جس نے اقتدار کو طول دینے کی خاطر جمہوری سیاسی عمل کے پنپنے میں رکاوٹیں ڈالیں اور قبائلی سرداروں، پشتینی پیروں، جاگیرداروں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کے سیاست پر قبضے کی راہ ہموار کی۔

اس کے علاوہ فوج نے اپنے اقتدار کو منطقی جواز فراہم کرنے کے لیے کبھی نظریہ پاکستان اور کبھی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت جیسے تصورات پیش کر کے عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کیا۔ تعلیم کی تشویشناک شرح اور سیاسی و سماجی شعور کی کمی نے عقیدے اور لسانیات کی بنیاد پر عوام کے جذبات کو برانگیختہ کر کے لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید گہرا کر دیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستانی ریاست آئینی طور پر ایک وفاق ہونے کے باوجود عملاً وحدانی ریاست میں تبدیل ہو گئی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف پورے ملک میں مذہبی شدت پسند دندناتے پھر رہے ہیں۔

وہ بم دھماکے، خودکش حملے اور مختلف عقائد رکھنے والے لوگوں کی تکفیر کرتے ہوئے ان کی ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں، وہ بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں اور جب کہ دوسری طرف بلوچستان میں سیاسی بے چینی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ ادھر سندھ میں لسانی تقسیم مزید گہری ہو رہی ہے اور پرتشدد واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر حکمران اور مقتدر حلقے آج بھی کنفیوژ ہونے کی وجہ سے ان عناصر پر قابو پانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، کیونکہ انھیں شاید ابھی تک یہ امید ہے کہ وہ ان عناصر کے ذریعے افغانستان میں ایک بار پھر تزویراتی گہرائی حاصل کر لیں گے۔ سوچ کا یہ انداز اور مصلحت کوشی پر مبنی دہری پالیسیاں پاکستان کو تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہیں، جس کا انھیں اندازہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم کی رجائیت تیزی کے ساتھ قنوطیت میں بدل رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔