چند تصویریں

تنویر قیصر شاہد  منگل 16 جون 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نہیں معلوم مجھے یہ ہوشربا تصویریں کیوں بھیجی گئی ہیں؟ یہ دل شکن بھی ہیں، اشک آور اور ہمت افزا بھی۔ ان کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان میں تنوع بھی ہے اور ملک کے مختلف طبقات کی ذہنی جھلک بھی سامنے آتی ہے۔

یہ تصویریں ہماری آنکھوں سے اکثر اوجھل رہتی ہیں۔ کبھی نظر آتی ہیں تو ہم ان سے دانستہ پہلو بچا کر آگے نکل جاتے ہیں، یہ سوچ اور کہہ کر کہ یہ ہمارے مسائل و مصائب کا حصہ نہیں۔ یہ کسی اور کے مقدر کا حصہ لکھا گیاہے۔ مثا ل کے طور پر یہ دو تصویریں۔ گاؤں کے بچے، بیل اور بھیڑیں ساتھ ساتھ کھڑے ہوکر، بیٹھی ہوئی حالت میں، اکٹھے ہی ایک جوہڑ سے پانی پی رہے ہیں۔

یہ تصویر دیکھ کر دل افسردہ اور دکھی ہو گیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی لاہور اور اسلام آباد و راولپنڈی میں بنائی گئی میٹرو کی فوٹو بھی لَف کی گئی ہیں اور اسے ’’بلاعنوان‘‘ قرار دے کر پوچھا گیا ہے: ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر شہری اور ہر علاقے کو مساوی حقوق کب ملیں گے؟‘‘ ایک اور تصویر یوں ہے کہ لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارے سے خوبصورت یونیفارم پہنے صحتمند بچے اپنی اپنی جدید گاڑیوں میں بیٹھ کر باہر نکل رہے ہیں اور ساتھ نتھی تصویر میں بلوچستان کے ایک قصبے میں قائم ایک ایسے اسکول کی فوٹو ارسال کی گئی ہے۔

جس میں بکریاں اور اونٹ بھی ساتھ ساتھ بندے ہیں اور میلے لباس میں ملبوس معصوم بچے اور بچیاں ہاتھوں میں پھٹی کتابیں تھامے یوں بیٹھے ہیں کہ ان کے نیچے کرسی ہے نہ کوئی ٹاٹ۔ استاد صاحب بھی زمین ہی پر اکڑوں بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ اسکول کی عمارت کی چھت ہے نہ چار دیواری۔ چند درخت نما جھاڑیاں ہیں جن کے چھدرے سائے تلے پاکستان کا یہ مستقبل علم حاصل کررہا ہے۔ یہ ریاست کی ناکامی، حکمرانوں کی بے حسی اور زرداروں اور بے زروں کے درمیان پائے جانے والے گہرے امتیازات کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔

کسی نے اخباری تراشہ بھیجا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے ’’غریب‘‘ ارکانِ اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ 68ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ تیس ہزار روپے کردی گئی ہے اور ساتھ ہی ہڑتال میں بیٹھے وفاقی ملازمین اور کلرکوں کی تصویر لَف ہے جس میں انھوں نے خشک روٹیاں گلے میں لٹکا رکھی ہیں۔

یہ سب لوگ سراپا احتجاج ہیں کہ ہماری تنخواہوں میں تازہ بجٹ کے حوالے سے صرف ساڑھے سات فیصد اضافہ؟ شاید یہ احتجاج کنندگان نہیں جانتے کہ وزیرخزانہ کا تحفظ صرف ارکانِ اسمبلی کرتے ہیں، نہ کہ یہ کمزور آوازوں والے کلرک حضرات۔ لین دین کا یہ سیدھا سادا معاشی حساب کلرکوں کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ کچھ خوش کُن تصویریں بھی ہیں جو ہمیں زندگی کی ہما ہمی کا پتہ دیتی ہیں۔

فیس بُک پر کسی نے جناب مجیب الرحمن شامی اور ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کی تصویریں اَپ لوڈ کی ہیں۔ ہمارے یہ دونوں معزز دوست اور کرم فرما گجرات یونیورسٹی مدعو کیے گئے تاکہ وہ ’’تعلیم،بجٹ اور میڈیا‘‘ کے زیرِ عنوان سیمینار سے خطاب کرسکیں۔ یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہاں ان دونوں اصحاب کا خطاب کیسا تھا لیکن ہم تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے معزز دوستوں نے طالب علموں کی معلومات میں ضرور اضافہ کیا ہو گا۔

کسی نے وزارتِ داخلہ کے حکم نامے، جس پر ایک سیکشن افسر کے دستخط ثبت ہیں، کی تصویر بھیجی ہے جس میں اسلام آباد میں بروئے کار امریکی غیر سرکاری تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کے دفاتر اور آپریشنز بند کرنے کا ذکر واضح الفاظ میں نظر آتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس این جی او کے دفاتر کھلنے، نہ کھلنے کے مبہم سے احکامات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ اس این جی او کا دفتر تاحال سیل ہے ۔

اس کا امریکی و غیر امریکی عملہ اسلام آباد میں موجود ہے۔ وہ کہیں بھی نہیں گیا۔ یہ عکس یا تصویر بھیجنے والے صاحب نے سوال پوچھا ہے کہ امریکی حکومت اور امریکی وزیرِخارجہ جان کیری کے بیانات کے بعد ہمارے اربابِ اختیار کی قلعی کھل گئی ہے، ایسا کیونکر ممکن ہوسکا؟ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اس امریکی این جی او کا دوبارہ کھل جانا۔آشکار کرتا ہے کہ ہم عالمی بالادست طاقتوں کے سامنے بے بس ہیں۔ ان کے حکم پر عمل نہ کرنے کی ہم میں ہمت ہے نہ جرأت۔ پھر بھی ہم ’’ساورن اسٹیٹ‘‘ ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ابھی حال ہی میں بھارت میں کام کرنے والی 69مشکوک غیر ملکی این جی اوز کو بند کردیا ہے لیکن کسی غیر ملکی حکمران اور غیر ملکی وزیرِخارجہ کو ان کے خلاف زبان کھولنے یا انھیں دوبارہ بحال کرنے کے احکامات جاری کرنے کی جرأت نہیں ہوسکی ہے۔

چند تصویریں خالد ارشاد صوفی نے بھی ارسال کی ہیں۔ مایوس کن حالات میں یہ ہمت افزا بھی ہیں، روشنی و امید کا پیغام بھی، عزم و استقلال کا مظہر بھی اور خاک نشینوں کی دستگیری کا نشان بھی۔ خالد ارشاد صوفی صاحب نام کے صوفی نہیں بلکہ فی نفسہٖ صوفی ہیں۔ خاموش رہ کر بنی نوعِ انسان کی سیوا میں مگن۔ وہ ملک بھر کے غریب خاندانوں کے بچوں میں علم کے حصول میں آسانیاں تقسیم کررہے ہیں، وہ بچے جو عسرت و تنگدستی کے جبرتلے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔

اس علم افشاں ادارے کا نام ہے: ’’کاروانِ علم فاؤنڈیشن‘‘۔ جوہرِ قابل کی نشوونما، فروغ اور حوصلہ افزائی میں مصروفِ علم ادارہ۔ جناب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اس ادارے کے بانی، روحِ رواں اور سربراہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’کاروانِ علم فاؤنڈیشن‘‘ ایسی این جی او نہیں ہے جس کے فنڈز اس کے وابستگان ہی کے پیٹ بھرنے کے کام آتے ہوں۔ نہیں، ہر گز نہیں۔ کوئی بارہ سال قبل اس کی بنیادیں رکھی گئیں تو نیت اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان بھر کے ان ذہین و فطین طلباء و طالبات کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے بھرپور مالی تعاون فراہم کیا جائے گا جو بھاری تعلیمی اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ ایک عشرے سے زائد کا عرصہ بتاتا ہے کہ بانیانِ کاروانِ علم فاؤنڈیشن اور ان کے مددگار دوستوں نے جو دعوے کیے تھے، وہ ان پر پورا اترے اور اپنے وعدوں میں وفاکیشی کے تمام رنگ بھرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اس ادارے کے تحت اب تک سیکڑوں طلباء و طالبات ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز اور اکانومسٹ بن چکے ہیں۔ خالد ارشاد صوفی نے اپنے بعض طلباء کی غیر معمولی کامیابیوں پر محیط جو دل افروز کتاب (’’جوہرِ قابل‘‘) لکھی ہے، اسے پڑھ کر مسرت و طمانیت کے جذبات سے دل بھر جاتا ہے۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ وطنِ عزیز اور دساور میں مقیم مخیر پاکستانیوں نے ’’کاروانِ علم فاؤنڈیشن‘‘ کا مالی ہاتھ تھام رکھا ہے اور یہ سلسلہ صدقۂ جاریہ بن کر اپنی مستحسن منازل کی جانب گامزن ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔ ان مبارک اور مسعود ایام میں لازم ہے کہ جسے اللہ کریم توفیق عطا فرمائے، وہ آگے بڑھے اور ’’کاروانِ علم فاؤنڈیشن‘‘ کی نُور افشاں شمع تھام لے۔ یہ آپ اور ہم سب کے مالی تعاون کی منتظر بھی ہے اور دعاؤں کی مستحق بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔