کوئی چیز مفت نہیں ملتی

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 16 جون 2015

ایک بار جارج واشنگٹن سے ان کے والد نے کہا ’بیٹے تم نے اپنی زندگی میں ایک مقصد متعین کرنا ہے اور اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹنا ہے، جارج واشنگٹن اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو۔‘ ’بہت بہتر پاپا‘ جارج واشنگٹن نے کہا۔ یہ ہی سبق صدر امریکا جیفرسن کو ان کے والد نے پڑھایا تھا۔ یہ ہی سبق ابراہم لنکن کے باپ نے بیٹے کو سکھایا تھا، انھوں نے بہت بہتر ہی جواب دیا، یہ سبق یاد رکھنے والے سب نامور ہوئے اور امریکا تو امریکا ساری دنیا ان کے کارناموں سے واقف ہے۔

ایک باپ نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ ان نامور لوگوں کی کون سی قدر مشترکہ تھی مجھے نہیں معلوم آپ بتائیے کونسی۔ بیٹے نے جواب دیا۔ ’’وہ بھاگے نہیں انھوں نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ‘‘ باپ نے جواب دیا اور ساتھ ہی بیٹے سے پھر پوچھا کیا تمہیں آزاڈ امیک انگل کا نام یاد ہے۔ نہیں وہ کون تھا۔ بیٹے نے کہا۔ دیکھا تم کو یہ نام اس لیے یاد نہیں کہ یہ امید نہ رکھنے والا انسان تھا، بھاگ جانے والا۔ باپ بولا آئیں صحرا میں کھو جانے والے کا قصہ پڑھتے ہیں، ایک صاحب صحرا میں بھٹک گئے اور اس کا پانی کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔

پیاس نے اسے نیم جان کر دیا گرتا پڑتا، وہ ایک ٹوٹے ہوئے بے آباد جھونپڑے تک پہنچا جس کے باہر ایک نلکا لگا ہوا تھا، وہ بمشکل اس نلکے تک پہنچا اور جلدی جلدی اسے چلانے لگا لیکن نلکا کھڑکھڑا کے رہ گیا۔ اس میں پانی نہیں نکلا اس نے غصے سے ادھر ادھر دیکھا قریب میں ایک جگ پڑا تھا جس کے ساتھ کاغذ پر لکھا ایک پیغام بھی تھا ’’آپ کو پہلے نلکے کو پانی سے بھرنا ہو گا پھر اس کو پمپ کریں لیکن یاد رکھیں جب آپ پانی پی چکیں تو دوسروں کو پانی فراہم کرنا نہ بھولیں اور وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آپ جگ دوبارہ بھر کر رکھ دیں‘‘ اس نے جگ کا ڈھکنا اٹھایا واقعی وہ پانی سے بھرا ہوا تھا۔ ’’کیا میں اس پانی کو نلکے میں ڈالوں اگر نلکے سے پانی پھر بھی نہ نکلا تو یہ پانی بھی ضایع ہو جائے گا اگر وہ یہی پانی پی لے تو اس کی پیاس بجھ سکتی ہے اور ان فضول ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پانی کو اس زنگ آلود نلکے میں ڈالنا فضول ہے۔‘‘

اس نے سوچا اور ڈھکنا اٹھا کر وہ جگ کو اپنے ہونٹوں تک لے گیا پھر نہ جانے اسے کیوں خطرہ مو ل لینے کا خیال آیا اس نے جگ کے پانی کو زنگ آلود نلکے میں ڈال دیا اور اس کو زور سے پمپ کیا۔ نلکے کی کھٹ کھٹ کی آواز بھاری ہو گئی اور اس میں ٹھنڈا میٹھا پانی نکل آیا اس نے نہ صرف پانی پیا بلکہ منہ ہاتھ بھی دھوئے سر کو ٹھنڈا کیا اور اپنے خالی ڈبوں کو پانی سے بھر بھی لیا اور پھر جگ بھر کر اسے اسی جگہ رکھ دیا جہاں وہ رکھا ہوا تھا۔ ہدایت کی عبارت کے نیچے اس نے شکوک و شبہات کا شکار ہونے والوں کے لیے لکھا ’’یقین کریں نلکا پانی ڈالنے کے بعد ضرور کام کرتا ہے لیکن اس سے پانی حاصل کرنے کے لیے آپ کو جگ کا سارا پانی پہلے اس کے اندر ڈالنا ہو گا۔‘‘

یاد رکھیے جب آپ اپنی سوچ کے انداز کو بدلتے ہیں تو آپ کے خیالات بدلتے ہیں جب خیالات بدلتے ہیں تو آپ کی توقعات بدلتی ہیں جب تو قعات بدلتی ہیں تو آپ کا طرز عمل بدلتا ہے جب طرز عمل بدلتا ہے تو رویہ بدلتا ہے جب رویہ بدلتا ہے تو آپ کی کارکردگی بدلتی ہے اور کارکردگی کے بدلنے سے آپ کی زندگی بدل جاتی ہے لیکن ہمار ے معاملے میں ایک بات ہمیشہ ہی سے سمجھ سے بالا تر رہی ہے کہ انسان اپنی بدحالی، بے اختیار ی، ذلت، غربت سے ایک نہ ایک روز اتنا تنگ آ ہی جاتا ہے کہ وہ اپنے حق اور خوشحالی کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور ایسا ہی دنیا بھر میں دیکھنے کو ملا ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس قدر تکالیف برداشت کر رہے ہیں اس قدر ذلت، بے اختیار ی، مصیبتیں، خواری، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، غربت برداشت پہ برداشت کیے جا رہے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ چپ چاپ ہر ظلم و ستم سہے جا رہے ہیں۔ اس کی صاف صاف دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں ایک تو یہ کہ ہمارے پاس جو کچھ بچ گیا ہے اسے ہمیں ہرگز داؤ پر لگانا نہیں چاہتے اور ہمیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں۔ یہ مایوسی کی انتہا ہے، دوسرا یہ کہ اسی وجہ سے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں اور چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ بے بسی کی تصویر ہے۔ یاد رہے فیصلہ نہ کر سکنا ایک بیماری ہوتی ہے چھوت کی بیماری۔ اسی بیماری کی وجہ سے لوگ بے شمار مواقعے کھو بیٹھتے ہیں۔

آپ نے الف لیلیٰ فلموں میں دیکھا ہو گا کہ ہیرو بڑی بڑی بلاؤں اور عفریتوں کا مقابلہ کرتا ہے اور انھیں ختم کر دیتا ہے کیونکہ اسے اپنی مہم ختم کرنا ہوتی ہے۔ اسی طرح عام فلموں میں بھی ہیرو برائیوں کی علامت ولن کو ختم کر دیتا ہے کیونکہ فلم کو ختم ہونا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری زندگیوں کا بھی ایک وقت مقرر ہے اور وہ وقت ایک روز ختم ہو جانا ہے یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی زندگی کی فلم میں اپنے لیے ہیرو کا کردار چنتے ہیں یا ولن کا۔ اگر آپ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ آپ کی زندگی ہزار سال کی ہے تو پھر الگ بات ہے آپ کے پاس وقت ہی وقت ہے۔

لیکن اگر آپ اسے سو سال کی سمجھے بیٹھے ہیں تو پھر آپ کے پاس وقت تھوڑا ہی بچا ہے۔ مولانا رومی نے کہا تھا کہ زندگی کا المیہ یہ نہیں کہ وقت مختصر ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم جینا دیر سے سیکھتے ہیں۔ دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی۔ کامیابی کا راز دو خصوصیات میں نہاں ہے مستقل مزاجی اور مزاحمت۔ یہ بات ذہن میں رہے منزل تک پہنچنے کے لیے مقصد کے ساتھ ڈاک ٹکٹ کی طرح چسپاں رہنا پڑتا ہے اور مقصد کے بغیر آپ منزل تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ اگر آپ گمنامی اور بدحالی میں مرنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی تو پھر آپ اپنے جگ کا پانی نلکے میں مت ڈالیے بلکہ پی جائیے اور شکوک و شبہات کا شکار رہیے ورنہ یقین پر یقین کریں۔ آئیں جگ کا پانی نلکے میں ڈال دیں پھر دیکھیں کس طرح نلکے سے اختیار، خوشحالی، آزادی، ترقی باہر نکلتی ہے۔ جگ اٹھائیں پلیز۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔