ہمارے حکمراں اور غریب دوست بجٹ

شاہد سردار  جمعرات 18 جون 2015

مہاتما گاندھی نے نہرو کو وصیت کی تھی کہ ’’دیکھو نہرو! تم جب تک بھارت میں آٹے، سائیکل اور سینما کے ٹکٹ کی قیمت نیچے رکھو گے تمہاری حکومت چلتی رہے گی۔‘‘نہرو نے یہ بات پلّے باندھ لی اور وہ مرتے دم تک بھارت کا وزیر اعظم رہا۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہمارے ملک میں زبردست مہنگائی کا ریلا آ جاتا ہے۔ اس دفعہ بجٹ اور رمضان آگے پیچھے آئے ہیں اور بجٹ کو پاکستان کے وزیر خزانہ نے ’’غریب دوست بجٹ‘‘ کا نام دیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کو کوئی کیسے یہ بتائے کہ غریب سے تو اس کا سگا رشتہ دار کنی کتراتا ہے، غریب کا کوئی دوست نہیں ہوتا اس سے ہر کس و ناکس بچتا ہے اور اسے غریب نہیں بلکہ موذی مرض سمجھ کر اس سے کوسوں دور رہتا ہے۔

اس بار رمضان المبارک شدید گرمی، شدید لوڈشیڈنگ، شدید پانی کی قلت اور شدید مہنگائی کے ساتھ آیا اور ان تمام عوامل نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور معاشرتی خوشحالی کا دعویٰ کرنے والے، بجٹ کو عوام دوست کہنے والے اپنی سمت کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔

عوام سہولتوں آسانیوں یا ریلیف سے کوسوں دور ہیں، صرف ایک سال میں اشیائے ضروری کی قیمتوں میں 15 سے 35 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔دراصل ہمارے سروں پر مسلط رہنے والے ہر دور کے حکمرانوں نے غیر ملکی قرضوں سے ملک چلانے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش کبھی کسی دور میں سود مند ثابت نہ ہو سکی۔ ’’آئی ایم ایف‘‘ نے نومبر 1980ء سے اکتوبر 2008ء تک 28 برسوں میں پاکستان کو 6 ارب ڈالر کے قرضے دیے جب کہ نومبر 2008ء سے 2013ء کے پانچ برسوں میں پاکستان کے لیے تقریباً 18 ارب ڈالر کے قرضوں کی منظوری دی۔ اس نظام طرز حکومت یا اس طریقے نے ملکی معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا۔ ملک بھر میں خودکشیوں، جرائم کی شرح میں اس بنا پر ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔

دوسرے ممالک میں مذہبی تہوار یا مذہبی دنوں کے مواقعے پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے حد کمی کر دی جاتی ہے تا کہ ایک غریب آدمی بھی اسے اپنی بساط کے مطابق خرید کر استعمال کر سکے لیکن کیا ہے کہ غریب آدمی کی بساط ہمارے حکمرانوں نے نہ جانے کب سے لپیٹ کر اسے اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا ہے، لیکن وہ بے چارے بڑی بہادری یا بڑی فورس سے اس میں سے نکل کر اپنی سفید پوشی، اپنی عزت نفس اور اپنی فیملی کو لے کر چل رہے ہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آٹا، دودھ، چینی، دالیں، چائے، سبزیاں، گوشت یہ وہ اشیائے ضروری ہیں جو پاکستان کے کروڑوں لوگ روزانہ استعمال کرتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ دلخراش یہ حقیقت ہے کہ اب یہ تمام چیزیں ایک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود اس پر اگنے والی اشیائے خورونوش پر درجنوں قسم کے ٹیکس عائد کر کے اسے عام آدمی کے لیے زہر بنایا جا رہا ہے۔

اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک پر قابض رہنے والی غالب اکثریت کی فیملی باہر کے ممالک میں قیام پذیر رہی ہے، ان کا کالا سفید سبھی قسم کا دھن بیرون ممالک کے بینکوں میں پڑا سڑ رہا ہے، ان کی آل اولاد غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، ان کے بزنس، کاروبار غیر ممالک میں ہیں، ہمارے حکمرانوں کے ملازموں تک کا علاج معالجہ بیرون ملک کے اسپتالوں میں ہوتا ہے، پھر انھیں کیونکر اس ملک اور اس ملک میں رہنے والوں کی فکر ہو سکتی ہے؟

ہماری اقتصادی پالیسیاں جو لوگ بنا رہے ہیں انھیں آٹا، چینی، چائے، دودھ، گوشت، سبزیاں اور دالوں کے نرخ تک معلوم نہیں۔ برطانیہ میں دودھ اور ڈبل روٹی کی قیمتیں 1969ء میں طے ہوئی تھیں اور ان میں برسہا برس تک کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ امریکا میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں وہی ہیں جو آج سے 5 سال پہلے تھیں۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں ہر ہفتے اہم ضروریات زندگی کی حامل اشیا کی قیمتیں بجٹ سے اوور بجٹ کر کے بیچی جاتی ہیں اور انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا، جب کہ پوری دنیا میں حکومتیں اشیائے ضرورت پر نظر رکھتی ہیں اور ان کی قیمتیں بڑھنے نہیں دیتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ایک عام آدمی سے لے کر ملک کا صدر تک سب کی زندگی کا دارومدار انھی اشیا پر ہے۔

افسوس ہمارے عوام کی چیخ بھی صدا بہ صحرا ثابت ہو کر رہ گئی ہے، بھارت جیسے بڑے ملک میں آٹا، دودھ، چینی، چائے، سبزیاں، پھل اور دالیں وغیرہ پاکستان کے مقابلے میں بہت سستی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا پسندیدہ ترین ملک بھارت رہا ہے، یا پھر ان کا معیار اگر بھارت ہے تو وہ اس کی پیروی میں یہ اشیا سستی کیوں نہیں کرتے ہمارے عوام کے لیے؟یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مغرب کے کسی ملک میں افراط زر کی شرح 5 فیصد ہو جائے تو اس ملک کی حکومت کا برقرار رہنا ناممکن ہو جاتا ہے جب کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح 10 اور11 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے اور حکمراں اس پر کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے اور وہ کبھی یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ یہ صورتحال ان کی ناقص اقتصادی منصوبہ بندی اور ان کی غلط ترجیحات کا نتیجہ ہے۔

بہرحال دعوے حکمراں چاہے جو بھی کریں ان کی پالیسیوں کا نقد نتیجہ عوام کی مشکلات میں اضافے ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔

عذر اور بہانے ہزاروں پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام آدمی کی بہبود، اس کا مفاد اور اس کی مشکلات میں کمی ایسی ترجیحات ہیں جو پالیسی سازوں کے سامنے شاید سب سے کم اہمیت رکھتی ہیں؟

ٹیکسوں کے حصول سے دنیا بھر کی حکومتیں اپنی معیشت، اپنے ملک کو مضبوط بناتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں صرف ملازمت پیشہ افراد کو ہی باقاعدہ ٹیکس گزار کہا جا سکتا ہے، جس کی آمدنی کی تمام تفصیلات حکومت کے علم میں ہوتی ہیں۔ اور جس کا انکم ٹیکس اس کی تنخواہ سے براہ راست کاٹ لیا جاتا ہے۔ اور اس بات سے کون واقف نہیں کہ پاکستان میں حکمران گیس، بجلی، ٹیلی فون اور پانی کے بل تک ادا نہیں کرتے تو وہ ٹیکس کیا ادا کریں گے۔ حکمران فیملیوں کے اثاثے دیکھ لیں اور پھر ان کے ادا کیے ہوئے انکم ٹیکس کے چالان کی رقم دیکھ لیں حیرت سے آپ کی آنکھیں پھٹ جائیں گی۔

دراصل ملکی وسائل پر قابض طبقات میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو استعماری دور میں اپنے کردار کے عوض ملنے والی مراعات کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے پر تلے ہوئے ہیں اور عوام کے نمایندہ کہے جانے والے ایوانوں میں حکومتی اور اپوزیشن نشستوں پر اس اشرافیہ کی ’’موثر موجودگی‘‘ کے باعث بااثر افراد سے ٹیکس کی صحیح وصولی کی کوئی سنجیدہ کوشش آج تک سامنے نہیں آ سکی۔

اس کے برعکس وطن عزیز میں ہر کچھ عرصے بعد ’’ٹیکس ایمنسٹی‘‘ کے نام پر بڑے بڑے ایئرکنڈیشنڈ محلوں اور مہنگی بلٹ پروف گاڑیوں کے حامل افراد بہت معمولی رقم ادا کر کے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع حاصل کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کے مارے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں سے قناعت کا مطالبہ کرتی ہوئی ان کی بڑی تعداد کو ہر سال افراط زر کا نشانہ بنا کر غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلا جاتا رہتا ہے۔

حکومتی دعوؤں، عالمی اداروں کی جائزہ رپورٹوں اور بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کے تجزیوں کو دیکھا جائے تو ہماری معیشت کی صورتحال پچھلے دو برسوں میں خاصی بہتر ہوئی ہے۔ مگر اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچتے نظر نہیں آتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ارباب اختیار برطانوی پارلیمانی ارکان کے دو سال قبل کیے گئے اس تبصرے پر سنجیدگی سے توجہ دیں کہ ’’پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی امداد کی امید رکھنے سے قبل اپنے امیروں سے ٹیکس وصول کرنا ہو گا۔‘‘

زمینی حقیقت یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کی معیشت کبھی برے حال میں نہیں رہی بلکہ برے طرز حکمرانی اور کرپشن نے اسے نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت جب کہ ہر فرد کے شناختی کارڈ نمبر کو ہی اس کا ٹیکس نمبر قرار دیا جا رہا ہے، بجٹ اقدامات کے بعد کسی اس طرز کے موثر ذریعے سے ملک کے ہر فرد سے اس کی آمدنی اور جائیداد کے مطابق ٹیکس وصولی یقینی بنائی جائے۔ کرپشن ختم کرنے اور بیرون ملک لے جائی گئی دولت واپس لانے کے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اور نمائشی اقدامات کی بجائے لوگوں کو روزگار، سستی غذا، تعلیم اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس ملک کے عوام خوشحالی کے ثمرات سے بہرہ مند نہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔