عالمی برادری کی ناانصافی

عابد محمود عزام  جمعرات 18 جون 2015

آئیے! ہم بات کا آغاز ملالہ یوسفزئی سے کرتے ہیں۔ 12 جنوری 1997ء کو پیدا ہونے والی ملالہ 9 اکتوبر 2012ء تک بی بی سی اردو پر گل مکئی کے نام سے بلاگ لکھنے والی ایک عام سی لڑکی تھی۔ 9 اکتوبر 2012ء کو ایک قاتلانہ حملے میں ملالہ بری طرح زخمی ہوئی اور حملے کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی۔

ملالہ پر یہ حملہ تقریباً دن 12:00بجے ہوا اور سب سے پہلے اس کی بریکنگ نیوز 12:27 پر امریکی ٹی وی چینل CNN نے چلائی، مقامی ٹی وی چینلز پر یہ خبر اس کے بعد نشر ہوئی۔ 1:30 پر امریکی صحافی ’’ Declan Walsh‘‘ نے امریکی اخبار دی نیو یارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر اس نیوز کو چلایا۔ دیکھتے دیکھتے ملالہ پر حملے کی خبر عالمی میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

حملے کے بعد ملالہ کو پہلے سوات سے پشاور کے فوجی اسپتال لے جایا گیا اور 11 اکتوبر کو پاکستانی اور برطانوی ڈاکٹروں کے مشورے سے راولپنڈی کے فوجی ادارہ برائے امراض قلب میں منتقل کیا گیا۔ اس دوران دنیا بھر سے ملالہ کے علاج کی پیشکشیں ہونے لگیں۔ 15 اکتوبر کو اسے علاج کے لیے برطانیہ، برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال میں منتقل کر دیا گیا، جہاں اسی روز اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی خواندگی اور سابقہ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اسپتال میں آ کر ملالہ کی عیادت کی۔

دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ملالہ کے لیے خصوصی صفحات اور پروگرام مختص کیے گئے۔ ملک کی اہم سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، امریکی صدر براک اوبامہ، سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن، برطانوی سیکریٹری خارجہ ولیم ہیگ سمیت دنیا کی کئی معروف شخصیات نے اس حملے کی شدید مذمت کی۔ امریکی گلوکارہ میڈونا نے ملالہ کے نام اپنا ایک گانا منسوب کیا اور انجیلا جولی نے اس بارے میں ایک مضمون لکھا اور ملالہ فنڈ کے لیے 2 لاکھ ڈالر دیے۔ سابقہ امریکی خاتون اول لارا بش نے ملالہ کو مرگِ انبوہ کی ڈائری لکھنے والی ’’این فرینک‘‘ سے تشبیہ دی۔

انڈین ہدایتکار امجد خان نے ملالہ کی زندگی پر مبنی فلم بنانے کا اعلان کیا۔ ملالہ کے حق میں قومی و بین الاقوامی میڈیا اور عالمی برادری کی آواز اس قدر بلند تھی کہ ڈوئچے ویلے کے مطابق جنوری 2013ء میں ملالہ دنیا کی مشہور ترین کم عمر بچی بن گئی۔ 29 اپریل 2013ء کو ملالہ کو امریکی اخبار ٹائم میگزین کے صفحہ اول پر جگہ ملی اور اسے دنیا کے 100 با اثر ترین افراد میں سے ایک گردانا گیا۔

اقوام متحدہ کے عالمی تعلیم کے نمایندے گورڈن براؤن نے اقوامِ متحدہ کی ایک پٹیشن بنام ’’میں ملالہ ہوں‘‘ جاری کی۔ 12 جولائی 2013ء کو ملالہ نے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں خطاب کیا اور ملکہ برطانیہ سے برمنگھم پیلس میں ملاقات بھی کی۔ ستمبر 2013ء میں ملالہ نے برمنگھم کی لائبریری کا باضابطہ افتتاح کیا اور 2013ء کا ’’سخاروو‘‘ انعام بھی لیا۔ فروری 2014ء کو سویڈن میں ملالہ کو ’’ورلڈ چلڈرن پرائز‘‘ کے لیے نامزد کیا گیا اور 15 مئی 2014ء کو اسے یونیورسٹی آف کنگز کالج ہیلی فیکس کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ 10 اکتوبر 2014ء کو ملالہ کو2014ء کا نوبل امن انعام دیا گیا اور اقوام متحدہ نے ملالہ پر حملے کے واقعے کو ’’ملالہ ڈے‘‘ قرار دیا۔

چلیے! اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ میانمار میں ایک طویل عرصے سے روہنگیا مسلمان مذہبی بنیاد پر زیر عتاب ہیں۔ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف 1962ء میں شروع ہونے والا آپریشن وقفے وقفے سے 1982ء تک جاری رہا، جس میں کم و بیش 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور لگ بھگ 20 لاکھ ہجرت کر گئے۔ 1982ء میں فوجی حکومت نے 8 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری ماننے سے انکار کر دیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔

16 مارچ 1997ء کو بے لگام بودھوں نے راکھین صوبے میں مسلمانوں کے گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ 15 مئی سے 12 جولائی 2001ء تک بودھوؤں نے11 مساجد شہید، 400 سے زاید گھروں کو نذرِآتش اور کم و بیش 200 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ 3 جون 2012ء کو بودھ بھکشوؤں نے عمرہ کی ادائیگی کر کے واپس آنے والے 10 مسلمان علماء کو بس سے باہر نکال کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 2012ء میں عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی پر پابندی لگا دی گئی اور عید کے روز 50 مسلمان قتل کر دیے گئے۔ روہنگیا مسلمانوں پر اس قدر مظالم ہوئے ہیں کہ اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دے چکی ہے۔

لاکھوں روہنگیا مسلمان بے انتہا مصائب و آلام کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 1993ء سے 2013ء تک کی 12سرکاری دستاویزات کے مطابق حکومتی پالیسی کے نتیجے میں مسلمانوں کی نقل وحرکت، شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش، گھر کی مرمت اور عبادت گاہوں کی تعمیر پر شدید پابندیاں عاید ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں ہزاروں مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا جاچکا ہے اور ڈیڑھ لاکھ بے گھر اور ہزاروں نوجوان لاپتہ۔ اپنے ہی وطن میں بے وطن، زمینیں ہتھیالی گئیں۔

تعلیم، کاروبار، سرکاری ملازمتیں اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم۔ مساجد شہید، سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ ان حالات میں بیکسوں نے ’’درندوں‘‘ کے علاقوں سے نکل جانے میں ہی جان کی امان جانی، لیکن انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے، جنھیں صرف پیسے سے غرض تھی۔ واجبات پورے نہ ملے تو انسانی اسمگلر مسافروں سے بھرے کئی جہاز سمندر میں بغیر ایندھن، خوراک اور صاف پانی کے چھوڑ کر نکل گئے۔ اب روہنگیا سمندر میں بے یارو مددگار، پناہ کے خواہاں۔ سمندر کی بے رحم موجوں کے رحم و کرم پر، بھوک پیاس سے بے حال۔ ترکی اور پاکستان سمیت چند ممالک نے دنیا کی مظلوم ترین اقلیت کے ساتھ تعاون کی حامی بھری اور عالمی برادری خاموش تماشائی۔ انسانی حقوق کی جدوجہد پر انعام یافتہ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے بھی لب کشائی نہ کی۔

میں ملالہ یوسفزئی کی صلاحیتوں کا معترف ہوں اور عالمی برادری کی جانب سے اسے ملنے والے بے بہا انعامات سے مجھے کوئی ملال بھی نہیں، لیکن ملالہ اور روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں انتہائی تفاوت سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک طرف صرف ایک 15سالہ بچی پر ظلم ہوا تو دنیا بھر کا میڈیا چیخ اٹھا۔ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ سمیت عالم تمام کی اہم شخصیات نے ملالہ پر ہونے والے حملے کی مذمت کی، بلکہ حملہ آوروں کی بیخ کنی کے لیے حکومت پر بھرپور دباؤ بھی ڈالا گیا۔ دوسری جانب روہنگیا مسلمان ایک عرصے سے بودھ دہشتگردوں کے ستم کا شکار ہیں۔ ان سے ضروریات زندگی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ کوئی انھیں پناہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ روہنگیا مسلمان لاوارث بچے کی طرح دربدر ہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی میڈیا کے لب سل گئے، کان بہرے اور بینائی زائل۔ عالمی برادری بھی خاموش۔ کوئی نوٹس لیا، نہ عملی اقدام۔ گنگ زبانیں اور بے فکر اذہان۔ یہ عالمی برادری کی ناانصافی نہیں ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔