من ندیدیم کہ سگے پیش سگے سر خم کرد

اوریا مقبول جان  جمعـء 19 جون 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

انسانی تاریخ میں کہے جانے والے چند بڑے اقوال میں سیدنا عمرؓ کا قول ’’مائوں نے لوگوں کو آزاد جنا تھا‘ تم نے انھیں غلام بنانا کہاں سے سیکھ لیا‘‘، انسانیت کے آسمان پر صدیوں سے کہکشاں کی طرح جگمگا رہا ہے۔ چودہ سو سال پہلے کہا جانے والا یہ قول یقیناً اسلام کی تعلیمات اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ ہے‘ ورنہ عرب کے بادیہ نشین‘ قبائلی معاشرے میں گندھے ہوئے عمرؓ ابن خطاب کو انسانی معراج کی بلندیوں کا کہاں علم تھا۔

ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانوں پر انسانوں کی بادشاہت ہر سطح پر موجود ہو‘ گھروں میں غلام اور کنیزیں‘ معاشرے میں اکھڑ اور مفرور سردار اور علاقوں پر ظالم بادشاہ اور فرمانروا۔ ایسے معاشرے میں صرف 23 سال کی تربیت کا یہ عالم کہ خطبہ حجتہ الوداع میں میرے آقا‘ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اعلان کریں کہ ’’آج تمہاری جاہلیت کے نسل‘ رنگ اور عصبیت کے بت میرے پائوں تلے کرچی کرچی ہو چکے‘‘۔

اگر کوئی سیاح 612 عیسوی کے لگ بھگ جزیرہ نمائے عرب کا دورہ کرتا جب ابھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت نہیں ہوئی تھی اور اپنے ذہن میں عرب کے معاشرے کا ایک نقشہ بٹھا لیتا۔ اس نقشے کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ دنیا اس تہذیب و تمدن سے الگ تھلگ‘ جنگ و جدل اور عصبیت میں رچے ہوئے عرب معاشرے کو خوب جانتی ہے۔ دنیا کے نقشے پر نہ وہ ایک عظیم سلطنت تھے اور نہ ہی علوم و فنون سے آراستہ کوئی قوم۔ سیاح 23 سال کے بعد واپس لوٹتا تو دم بخود رہ جاتا۔ حیرت سے ان انسانوں کو دیکھتا جنھیں وہ صرف دو دہائیاں پہلے انسانیت کے نچلے ترین درجے پر دیکھ کر گیا تھا‘ آج یہ لوگ کیسے پوری دنیا کے لیے انسانی اخلاقیات اور احترام آدمیت کے مشعل بردار بن چکے ہیں۔

اسے یقیناً اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا۔ اس لیے کہ یہ انفراسٹرکچر اور عمارات کی تبدیلی نہیں تھی‘ انسانوں کی تبدیلی تھی۔ آپ کسی بھی شہر میں ہزاروں لاکھوں مزدور لگا کر بڑے بڑے پلازہ‘ عالیشان عمارتیں‘ بہترین پل‘ دلکشا باغات اور حیرت انگیز سہولیات فراہم کر سکتے ہیں اور یہ سب 23 سال کے عرصے بلکہ اس سے بھی کم میں ممکن ہے۔ محنت سے آپ ایک پورا شہر نیا آباد کر سکتے ہیں لیکن آپ ایک ایسا معاشرہ تخلیق کر دیں جس میں غرور و نخوت میں ڈوبے ہوئے عرب معاشرے میں حضرت عمرؓ جیسا فرد پوری زندگی ایک حبشی غلام حضرت بلالؓ کو سیدنا بلال یعنی میرے آقا بلال کہہ کر پکارے۔

جہاں رسول اکرمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بستی سے گزریں اور ایک شخص اپنے غلام پر سختی کر رہا ہو اور آپ فرمائیں دیکھو جتنا اختیار تمہیں آج اس غلام پر حاصل ہے‘ اللہ کو روز قیامت اس سے کئی گنا اختیار تم پر حاصل ہو گا تو وہ تھر تھر کانپنے لگے اور فوراً یہ پکار اٹھے ’’میں نے اللّہ کی رضا کے لیے اس غلام کو آزاد کیا۔ عصبیت سے بھرے معاشرے میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اللہ کے گھر کی جانب بلانے کا اعزاز ایک حبشی غلام سیدنا بلالؓ کو حاصل ہو گا۔ کسی نے کبھی تصور بھی کیا تھا کہ لوگوں میں آخرت کی جوابدہی کا احساس اس قدر پختہ ہو جائے گا اور افراد اللہ کے سامنے جانے سے اس قدر ڈریں گے کہ ان کی خواہش یہ ہو گی کہ ان کے گناہوں کی سزا انھیں یہیں مل جائے۔

کسی کو علم نہیں تھا کہ مائدؓ نے زنا کا ارتکاب کیا۔ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے مائد ہلاک ہو گیا۔ فرمایا اللہ سے معافی طلب کرو‘ وہ غفور و رحیم ہے۔ دوسری دفعہ پھر دہرایا ’’مائد ہلاک ہو گیا‘‘، وہی جواب ملا‘ تیسری دفعہ دہرایا اور کہا میں اپنے جرم کی سزا یہیں بھگتنا چاہتا ہوں‘ اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہوں۔ سنگسار کر دیے گئے تو آپؐ نے فرمایا مائد نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پورے مدینے پر تقسیم کر دی جائے تو کافی ہے۔

غرور و نخوت سے بھرپور معاشرہ جس کی حالت یہ کہ جب ابوجہل بدر کے میدان میں معاذ و معوذ کے ہاتھوں زخمی ہو کر گر پڑا اور موت کی گھڑیاں گن رہا تھا تو عبداللہ بن مسعودؓ اس کے سینے پر چڑھ گئے۔ یہ وہی عبداللہ بن مسعود جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جائو مکہ کے بازار میں جا کر قرآن سنانا شروع کرو۔ ان کو اللہ نے خوش الحانی بخشی تھی۔ آپؐ ان سے رمضان میں قرآن پاک سنا کرتے تھے اور فرماتے تھے اللہ نے تمہیں حضرت دائود علیہ السلام کے مضامیر میں سے ایک مضامیر عطا کیا ہے۔

انھوں نے قرآن سنانا شروع کیا تو ابوجہل کے حکم سے لوگوں نے انھیں تھپڑ مارنا شروع کر دیے لیکن آپ بازار کے آخر تک قرآن سناتے گئے۔ آج وہ عبداللہ بن مسعود ابوجہل کے سینے پر سوار ہوئے تو سرداری زعم میں بولا، مجھے آج یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ پھر کہنے لگا دیکھو آج اگر میرا سر قلم کرو تو گردن کے نیچے سے کاٹنا تا کہ کٹے ہوئے سروں میں پڑا ہوا معلوم ہو کہ سردار کا سر ہے۔

ایسے معاشرے میں خوف خدا کا تصور جاگزیں کرانا، لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کر کے اللہ کی غلامی کا اسیر بنانا اور پھر اعلان کرنا کہ تم میں سے کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں فضیلت اس کو ہے جو اللہ سے تم سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔ یہ تھا معاشرہ جس سے ایسے افراد نے جنم لیا جو پڑوسی کی ناراضی سے ڈرتے تھے۔ یتیم، مسکین، لاچار اور بیوہ کا حق ادا نہ کرنے سے ڈرتے تھے۔ ایسے معاشرے میں ہی یہ قول تاریخ کی راہداریوں میں گونجتا ہے کہ ’’مائوں نے لوگوں کو آزاد جنا تھا، تم نے انھیں غلام بنانا کہاں سے سیکھ لیا۔‘‘

چودہ سو سال پہلے جس معاشرے نے جنم لیا تھا وہ معاشرہ زیادہ آزاد اور انسانی غلامی سے دور تھا یا آج کا جمہوریت اور جمہوری اقدار کا امین معاشرہ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترتیب دیے گئے اور تربیت سے نکھرے ہوئے گروہ کو اگر ایک پارٹی تصور کر لیا جائے تو ان میں ہر کوئی صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا پابند تھا۔

ان کے گلے میں صرف اللہ کی غلامی اور سید الانبیاء کی فرمانبرداری کا طوق ہے۔ اب ذرا اس جمہوری اقدار کے معاشرے میں قائم پارٹیوں، گروہوں، انجمنوں، یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کو دیکھیے تو آپ حیرت میں گم ہو جائیں گے۔ امریکا اور یورپ سے لے کر ترقی پذیر جمہوری ممالک تک سب جگہ یہ گروہ بدترین غلامی کی مثال ہے۔ مغرب میں جو گروہ پارٹی فنڈنگ کرتا ہے اس کی مرضی کی پالیسی پارلیمنٹ یا کانگریس میں چلتی ہے۔ کوئی اس کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ جس تنظیم کے بورڈ آف گورنرز یا ڈونرز بورڈ کے افراد جس قدر سرمایہ فراہم کریں گے وہ تنظیم اسی قدر ان کی رائے کا احترام اور ان کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو گی۔

ہمارے جمہوری معاشرے کا کیا کہنا۔ پارٹی کے لیڈر دن میں اتنا اللہ کا ذکر نہیں کرتے جتنا میرے قائد، میرے لیڈر، یا میرے رہنما کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ جرم کرے، کرپشن کرے، بددیانتی کرے، کسی کو قتل کرے یا قتل کروائے، کسی کو بھری محفل میں ذلیل و رسوا کر دے، وہ قائد ہی رہتا ہے اس کے سامنے زبان نہیں کھولی جا سکتی۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان تمام افراد کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ بددیانت ہے، چور ہے، ظالم ہے لیکن مسلسل جھوٹ بول کر اس کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ وہ غلامی ہے جو بظاہر نظر آتی ہے۔ کبھی ان گروہوں، پارٹیوں، انجمنوں اور ایسوسی ایشنوں میں شامل ہو کر دیکھیں آپ کو انسانوں کی انسانوں پر حکومت اور بدترین غلامی کی وہ صورت نظر آئے گی کہ آپ کانپ اٹھیں۔ اقبالؔ نے اسی غلامی کو کتے کی زندگی سے بھی بدتر تعبیر کیا ہے۔ اقبالؔ فرماتے ہیں۔

آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذر قباد و جم کرد
یعنی درخوئے غلامی ز سگان خوار تر است
من نہ دیدم کہ سگے پیشِِ سگے سر خم کرد

انسان اپنی بصیرت کی کمی کی وجہ سے انسان کی غلامی کرتا ہے۔ اسے اللہ نے آزادی کی نعمت عطا کی لیکن وہ اسے بادشاہوں کے سامنے بیچ دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غلامی تو کتے کی زندگی سے بھی بدتر ہے۔ میں نے آج تک کسی کتے کو دوسرے کتے کے سامنے سر خم کرتے نہیں دیکھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔