رمضان المبارکـ… اُمت محمدیہﷺ کے لیے وحدت کا پیغام!!

’’ تم اپنے رب سے دعا کیا کرو عاجزی کے ساتھ اور پوشیدہ طریقے سے‘‘۔  فوٹو : ایکسپریس

’’ تم اپنے رب سے دعا کیا کرو عاجزی کے ساتھ اور پوشیدہ طریقے سے‘‘۔ فوٹو : ایکسپریس

رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے ۔ دین اسلام میں اس ماہ مقدس کو بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت حاصل ہے اور اس مہینے کا مقصد مسلمانوں میں صبروتحمل اور جذبہ ایثار و محبت کو عملی طور پر فروغ دینا ہے۔ ’’استقبال رمضان‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دنوںمتحدہ علماء بورڈ پنجاب کے چیئرمین اورجامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی نے ـ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی لیکچر دیا۔اس موقعہ پر جامعہ اشرفیہ لاہور کے سیکرٹری شعبہ نشر و اشاعت و تعلقات عامہ مولانا مجیب الرحمن انقلابی بھی موجود تھے۔ مولانا حافظ فضل الرحیم ا شرفی کا خصوصی لیکچر نذرقارئین ہے۔

مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
(چیئرمین متحدہ علماء بورڈ پنجاب ونائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور)
رمضان المبارک توبہ و استغفار ، رحمت، بخشش و مغفرت، دعاؤں کی قبولیت ،اللہ کا خاص قرب حاصل کرنے اور نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رمضان المبارک امت محمدیہ ﷺ کو بخشنے کا بہانہ اور ذریعہ ہے لہٰذا ہمیں اس ماہ مبارک میں عبادت و ریاضت اورتوبہ و استغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہوئے اپنی بخشش اور مغفرت کا سامان کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کی طرح امت محمدیہ ؐ پر بھی روزے فرض کیے تاکہ یہ امت تقویٰ اور پرہیز گاری حاصل کرے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب کم از کم ستر گنا بڑھا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مہینے میں امت محمدیہؐ کیلئے جہنم کے دروازے بند جبکہ جنت کے دروازے کھول کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ روزہ وہ مبارک عمل ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اپنے بندے کو اس کا اجر دونگا۔

اس لیے روزہ ہی و ہ مبارک عمل ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کی وجہ سے ذہنی وقلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، خواہشاتِ نفس دب جاتی ہیں، دل کا زنگ دور ہو جاتا ہے جبکہ انسان گناہوں، فواحشات اور بے ہودہ باتوں سے بچ جاتا ہے اور روزہ کے ذریعے مساکین و غرباء سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ ام المو منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک آتا تھا تو حضورﷺ کا رنگ بدل جاتا تھا، نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا ، دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب آجاتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ جل شانہ ‘ رمضان المبارک میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ داروں کی دعا پر آمین کہا کرو لہٰذا رمضان المبارک میں اللہ کو یاد کرنے والا نامراد نہیں ہوتابلکہ اس کی بخشش یقینی ہے ۔

ایک روایت میں ہے کہ رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی (فرشتہ) پکارتا ہے کہ اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ اور اے برائی کے طلب گار بس کر (بازرہ) اور آنکھیں کھول ۔ منادی کہتا ہے کہ کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے، کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔رمضان المبارک وہ مقدس مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرمائی جو قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آ رہا ہے جو بہت بڑا اور مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات (شبِ قدر) ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کے قرب کو حاصل کرے و ہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینہ میں فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے اور یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کابدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے اور اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخض کسی روزہ دار کاروزہ افطار کرائے یہ اس کیلئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور روزہ دار کے ثواب کے مانند اس کا ثواب ہو گا مگر اس روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں کی جائیگی۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے تو آپؐ نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کر کھانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ، ایک کھجور سے افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے یا ایک گھونٹ لسی پلا دے اس پر بھی مرحمت فرما دیتے ہیں۔

یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ (جہنم) سے آزادی ہے، جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام (و خادم) کے بوجھ کو ہلکا کر دے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں اور چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی نہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے کہ جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو رمضان کے علاوہ وہ پوری زندگی بھی روزے رکھے وہ اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔

ایک اور جگہ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے بدلے میں سوائے بھوکا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہ ملا یعنی اس کے غیبت و چغلی کے ذریعے اور حرام مال کے ساتھ اس کو افطار کر کے اس کے ثواب سے محروم ہو گیا۔ایک اور حدیث میں حضور اقدسؐ کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا گیا ہے کہ میری امت کو رمضان المبارک کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں (1) ان کے منہ کی (روزہ کی وجہ سے) بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ (2) ان کیلئے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں (3) جنت ہر روز ان کیلئے آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ جل شانہ‘ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں پھینک کر تیری طرف آئیں (4) اس میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں (5) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کیلئے مغفرت کی جاتی ہے ۔

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا شبِ مغفرت، شب قدر ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں ایسی عبادت عطا فرمائی ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ خود عطا فرمائیں گے۔ پھر ماحول بھی ایسا عطا فرما دیا کہ شیاطین کو پابند زنجیر کر دیا۔ رمضان کے تینوں عشروں کو بالترتیب رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا زمانہ قرار دیا۔سوچنا یہ ہے کہ اس مبارک مہینہ میں کس طرح رہاجائے کہ رمضان المبارک کے انوار و انعامات حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہو جائے۔ اسی سلسلہ میں میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحئی صاحب ؒ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ میر امہینہ ہے اور اس مہینہ میں اطاعت و عبادات کا صلہ میں دوں گا۔ خدا معلوم ان کی مشیت میں کیا کیا صلہ ہے جو وہ اپنے بندوں کو عطا فرمائیں گے۔

یہ بہت مہتم بالشان مہینہ ہے لہٰذا ہمیں اس کی آمد سے پہلے ہی خوب تیاری کرنی چاہیے اور ارادہ کرنا چاہیے کہ اب پاکیزہ و محتاط زندگی گزاریں گے۔اس کے لیے کوشش کریں کہ آنکھوں کا غلط استعمال نہ ہواورنہ ہی سماعت میں فضول باتیں آنی چاہئیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے گنہگارو غفلت زدہ بندوں کو پہلے ہی خبردار کر دیا کہ جیسے ہی رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو تو اپنے عمر بھر کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کراؤ تاکہ تمہارا اپنے ربِ حقیقی سے صحیح و قوی تعلق پیدا ہو جائے اور اگر تم نے ہماری مغفرت واسعہ و رحمت کاملہ کی قدر نہ کی تو؟ پھر تمہاری تباہی و بربادی میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔اب اس اعلان رحمت پر کون ایسا بدنصیب بندہ ہے جو اس کے بعد بھی محروم رہنا چاہے گا۔ میرے نزدیک ہم سب لوگ یقینا بڑے خوش نصیب ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ اپنی زندگی میں پا رہے ہیں۔

اب تمام جذبات عبدیت اور قوی ندامت کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں اور اس ماہ مبارک کے تمام برکات ، انوار و تجلیات الٰہی سے مالا مال ہوںلہٰذا اپنے تمام گناہ عمر بھر کے جتنے یاد اور تصور میں آسکیں چاہے وہ دل کا گناہ ہو‘ آنکھ، زبان یا کان کا، سب کو ندامت قلب کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پیش کر دیں اور وعدہ کریں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ یا اللہ! ہم کو معاف فرما دیجیے، ہر وہ بات جو قابل مواخذہ ہو معاف فرما دیجیے۔ دنیا میں ،بزرخ میں، حشر میں، پل صراط پر، جہاں جہاں بھی مواخذہ ہو سکتا ہے معاف فرما دیجیے اور یا اللہ! اب آپ جتنی زندگی بھی آئندہ عطا فرمائیں وہ حیات طیبہ ہو اور اعمال صالحہ کے ساتھ ہو۔انشاء اللہ حسب وعدہ الٰہی ہماری یہ دعا ضرور قبول ہو گی البتہ چند گناہ ایسے ہیں جن کی معافی قابل توجہ ہے۔

ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے کینہ نہ ہو۔ کینہ رکھنے والا شخص شب قدر کی تجلیات، مغفرت اور قبولیت دعاء سے محروم رہے گا۔ معاشرتی تعلقات میں اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب دوست و احباب سب پر ایک نظر دوڑائیں کہ ان میں سے کسی کے لیے دل میں کوئی کھوٹ، کینہ یا غصہ تو نہیں ہے۔ اگر آپ کسی معاملہ میں حق بجانب اور دوسرا باطل پر ہے لیکن آپ اللہ کی مغفرت چاہتے ہیں تو اسے معاف کر دیں اور اگر آپ نے زیادتی کی ہو تو اس سے معافی مانگ لیں ۔ اس کے علاوہ اپنے بیوی بچوں پر بھی نظر ڈالیں کہ ان میں سے آپ سے کوئی ناراض تو نہیں یعنی ان کے ساتھ کوئی بے جا تشدد یا زیادتی تو نہیں کی۔ اگر ایسا ہے تو ان سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں بلکہ خوش اسلوبی سے ایسا برتاؤ کریں جس سے وہ خوش ہو جائیں۔

اسی طرح بھائی،بہن، عزیز و اقارب، غرض کسی سے کسی قسم کی رنجش بھی ہو تو ان کو معاف کر دیں کیونکہ آپ بھی تو اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔ اسی طرح فضول باتوں سے پرہیز کریں کیونکہ لغو باتیں کرنے سے عبادت کا نور جاتا رہتا ہے۔ اس کی بجائے کلام پاک اور سیرۃ النبیؐ پڑھئے۔ رمضان المبارک کی دو عبادتیں سب سے بڑی ہیں۔ ایک تو کثرت سے نماز پڑھنا جس میں تراویح کی نماز بھی شامل ہے اس کے علاوہ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کا خاص اہتمام ہونا چاہیے جبکہ دوسری عبادت تلاوت کلام پاک ہے۔اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں تو تہیہ کر لیں کہ آپ کے ہاتھ سے ، زبان سے، قلم سے خدا کی مخلوق کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ کسی کو دھوکہ نہ دیں‘ کسی ناجائز غرض سے اس کا کام نہ روکیں اور کوئی بات خلاف شریعت نہ ہو۔ اگر آپ تاجر ہیں تو صداقت و امانت سے کام کریں۔

اکثر دیندار خواتین اس بات کی شکایت کرتی ہیں کہ ان کو روزہ افطار کرنے سے قبل عصر اور مغرب کے درمیان تسبیحات پڑھنے یا دعائیں کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ یہ وقت ان کا باورچی خانہ میں صرف ہو جاتا ہے اور وہ کھانا تیار کرنے میں مشغول رہتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ وقت بھی عبادت ہی میں گزرتا ہے کیونکہ وہ روزہ داروں کے افطار اور کھانے کا انتظام کرتی ہیں جس کا ثواب ہی ثواب ہے۔رمضان کی راتیں عبادت میں گزارنے سے دن میں بھی سچائی اور دیانت سے کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ اس مبارک ماہ میں لیلۃ القدر ہے اورہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم انعام ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

شب قدر کے بارے میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس کا وقت غروب آفتاب سے طلوع فجر تک رہتا ہے اس لیے اس کا اہتمام ضرورکرنا چاہیے اور جس قدر ممکن ہو نوافل، تسبیحات اور دعاؤں میں اضافہ کر دینا چاہیے۔ اگر ساری رات جاگنے کی ہمت نہ ہو تو جس قدر تحمل ہو بہت ہے اور مستقبل میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریئے۔شریعت اسلامی نے مسلمانوں کو ہر زمانہ اور ہر دور میں آپس میں اخوت کے رشتہ کو قائم کرنے کی ہدایت دی لیکن رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو خصوصی طور پر قائم کرنے کی ہدایت ہے۔ارشاد نبوی ؐ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی روزہ کا ثواب عطا فرماتا ہے جو دودھ کا ایک گھونٹ ، ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کو افطار کرائے اور جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ پھر اسے کبھی پیاس نہ لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘

رسول اللہؐ نے ایک اور موقعہ پرارشاد فرمایاکہ ’’ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ باہمی رواداری اورغم خواری کا مہینہ ہے۔‘‘رسول اللہؐ نے رمضان المبارک کے مقدس ماہ کے بارے میں جو ارشادات فرمائے ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے مسلمانوں کو اس ماہ میں اخوت کی خصوصی تربیت دی۔ اخوت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے جس کے نتیجہ میں ایک مسلمان دوسرے سے ہمدردی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور اسے تکلیف یا دکھ دینے سے پرہیز کرتاہے۔ چنانچہ آپ ؐنے فرمایا:ترجمہ’’ جس دن کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ بری باتیں کرے نہ بے جا چلائے اور اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے لڑنے لگے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔

آپس میں بھائی چارے کی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ کینہ، بغض، حسد اور اس جیسے برے جذبات آپس میں ختم ہو جائیں اور آپس میں ہمدردی اور شفقت پیدا ہو۔اخوت اسلامی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی مشکلات میں کام آئے اور دنیاوی پریشانیوں اور دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے خصوصاً رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں پوری کوشش رہے کہ کسی مسلمان کو اس سے تکلیف نہ پہنچے۔بدقسمتی سے آپس میں حسد، کینہ اور بغض کی وجہ سے آج امت مسلمہ بکھری ہوئی ہے اور یہی وجہ سے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے جس کی مثال برما، فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم ہیںلہٰذا امت مسلمہ کو چاہیے کہ اس ماہ رمضان میں آپس کے لڑائی جھگڑے ختم کرکے ایک ہوجائیں ۔

اللہ اور اس کے رسولؐ نے زور دیا ہے کہ ہم آپس کے لڑائی جھگڑے ختم کرکے متحد ہوجائیں لہٰذا اس ماہ مبارک میں ہمیں اپنے رشتہ داروں، دوستوں وغیرہ کو معاف کردینا چاہیے اور ان سے اپنی غلطیوں کی معافی بھی مانگنی چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب ہمارے اندر وحدت پیدا ہوجائے گی تو اللہ بھی اپنے وعدے کے مطابق ہم پر اپنی رحمت نازل کرے گا اور ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ روزہ ایثار اور قربانی کا سبق دیتا ہے اس لیے معاشرے کے ہر فرد کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا چاہیے۔

اگر کوئی تاجر ہے تو ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کرنے یا ناپ تول کی کمی کر کے مسلمان بھائیوں کی مشکلات میں اضافے کا سبب نہ بنے۔ چنانچہ ایسی تمام باتوں سے پرہیز کی تعلیم دی گئی ہے جن سے اخوت کے رشتہ میں کمی آنے کا خطرہ ہو۔رمضان المبارک کے صرف اس ایک ماہ میں جب اہل معاشرہ آپس میں بھائی چارے اور مواخات کی فضا بنا لیں تو اس کے اثرات پورے سال بلکہ پوری زندگی میں اس طرح نظر آئیں گے کہ ہر مسلمان دوسرے کے لیے وہی پسند کرے گا جو اپنے لیے کرتا ہے، اس کے علاوہ وہ دوسرے کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے گا اور اپنی زبان اور عمل سے دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرے گا۔ جب معاشرے میں اخوت قائم ہو جاتی ہے تو پھر اس معاشرے میں ایثار و قربانی، شفقت و محبت، ہمدردی اور غم خواری کے جذبات ہر شخص کو نظر آتے ہیں ۔

اللہ رب العزت ہمیں اس بابرکت مہینے میں روزہ کے تمام آداب و احکام پر عمل کرتے ہوئے آپس میں بھائی چارے اور مواخاۃ کی وہ دولت عطافرمائے جس کے ثمرات سے دنیا کی زندگی بھی کامیاب ہو جائے اور آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہو۔رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے جس میں دن رات دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اور جب آپؐ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو آپؐ فرما دیجیے کہ میں قریب ہی ہوں۔ دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگیں۔ پس انہیں میرا حکم ماننا چاہیے اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے تاکہ وہ نیک راہ پر آجائیں‘‘۔ رمضان المبارک کے ذکر کے ساتھ دعا مانگنے کا تذکرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہؐ کو دعا مانگنے کا حکم دیا اور دعا کو بھی ایک عبادت اور بندگی کا ذریعہ قرار دیا ہے جو کہ اس امت کا خاص اعزاز ہے ورنہ حضرت کعبؒ بن احبار کی روایت کے مطابق پہلے زمانہ میں یہ خصوصیت انبیاء کی تھی۔ انبیاء لوگوں کے لیے دعا کرتے تھے اوراللہ تعالیٰ قبول فرماتاجبکہ یہ امت محمدیہؐ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم پوری امت کے لیے عام قرار دیا اور فرمایا’’اور تمہارے رب نے کہا کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘ ایک اور موقعہ پر حضورؐ سے منقول ہے کہ ’’دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔

ظاہر ہے کہ ہتھیار صحیح کام تب ہی دکھاتا ہے جب ہتھیار بھی تیز ہو اور چلانے والا بھی طاقتور ہو۔اب دعا کیسے طاقتور بنے اس کے لیے بھی رسول اللہؐ نے آداب سکھائے،دعاؤں کے الفاظ سکھائے جو مسنون دعائیں کہلاتی ہیں اور وہ اوقات بھی بتائے جن میں دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ ان میں ایک موقعہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ہماری دعائیں کیسے طاقتور بنیں اس کے لیے بنیادی اصول اللہ تعالیٰ نے سورۂ اعراف کی آیت نمبر 55 میں فرمایاکہ ’’ تم اپنے رب سے دعا کیا کرو عاجزی کے ساتھ اور پوشیدہ طریقے سے‘‘۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دعا کرنے والا خشوع و خضوع یعنی عاجزی اور توجہ کے ساتھ اللہ سے دعا مانگے اور دوسرا ادب یہ معلوم ہوا کہ آہستہ آواز سے دعا مانگے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر عام مقتدی دعاؤں سے ناواقف ہوں تو پھر امام کے لیے اونچی آواز سے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔دعاء کی قبولیت کو مزید موثر بنانے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ دعائیں مانگی جائیں جو قرآن مجید میں مختلف انبیاء کے حوالے سے مذکور ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ دعائیں قبول فرمائی ہیں۔ اس کے علاوہ احادیث میں جو دعائیں رسول اکرمؐ نے سکھائی ہیں وہ مانگی جائیں۔قرآن و حدیث کے عربی جملے جن میں دعائیں ہیں اگر ان کا ترجمہ اور مطلب معلوم ہو تو پھر وہی دعائیں مانگنا افضل اور بہتر ہے لیکن عام حالات میں اگر ان دعاؤں کا مطلب معلوم نہ ہو تو پھر مانگنے والے کو ان دعاؤں کے پڑھنے کا ثواب تو ضرور ملے گا لیکن اسے دعا مانگنا نہیں کہیں گے بلکہ دعا پڑھنا کہیں گے اس لیے دعا مانگتے وقت پہلے مسنون دعائیں بھی پڑھ لی جائیں اور جو کوئی دعاؤں کا مفہوم نہ جانتا ہو وہ اپنی زبان میں بھی دعا مانگ سکتا ہے۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے تو دل میں ایک خیال آجاتا ہے کہ ہم نے بہت سی دعائیں مانگی ہیں مگر ہماری دعا قبول ہی نہیں ہوتی اور پھر وہ انسان دعا مانگنے کی طرف متوجہ نہیں رہتا۔اس بارے میں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ارشادات نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام مال کھانے اور حرام لباس استعمال کرنے اور حرام کمانے والے کی دعاء قبول نہیں ہوتی جبکہ اس کے علاوہ ہر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ بات کہ ہم نے دعا میں بہت کچھ مانگا مگر ہمیں نہیں ملا تو اس کا جواب رسول اللہؐ نے اس طرح سمجھایا کہ مومن کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ اس بندہ کے لیے کیا چیز بہتر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بسا اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہوتی ہے اور بسااوقات تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہوتی ہے‘‘۔

انسان کا کام ہے اللہ سے دعائیں کرنا اور مانگتے رہنا۔ اللہ تعالیٰ انسان کو یا تو وہی چیز دیتا ہے یا اس کا نعم البدل عطا فرما دیتا ہے یا دنیا میں اس دعا کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا لیکن اس کی دعاؤں کی بدولت اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور جب گناہ ختم ہو جائیں تو پھر ان دعاؤں کو اس بندہ کی نیکیاں شمار کر لیا جاتا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندہ نیکیوں کا ڈھیر دیکھ کر کہے گا کہ یہ نیکیاں تو میری نہیں ہیں۔اسے بتایا جائے گا کہ یہ تمہاری وہ دعائیں ہیں جو دنیا میں قبول نہیں ہوئی تھیں، ان کے بدلے میں نیکیاں ملی ہیں، اس وقت بندہ کہے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی اور سب کا بدلہ یہاں آخرت میں ملتا۔رسول اکرمؐ نے دعاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت سے لوگ جلد بازی کی وجہ سے اپنی دعائیں ضائع کر دیتے ہیں۔

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا دعا مانگنے کے بعد یہ کہنا کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی ، دعا کو ضائع کرنا ہے لہٰذا رمضان کے اس بابرکت مہینہ میں اس یقین کے ساتھ خوب دعائیں مانگی جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایاکہ ’’ رمضان کا یہ مہینہ ایسا ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے اور درمیانہ عشرہ بخشش کا ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔‘‘اس لیے دعا کرتے ہوئے رمضان المبارک میں خصوصاً اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔