ریٹا ئر منٹ سے پہلے اور بعد میں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 20 جون 2015

سکندر اعظم نے بڑی بڑی فتوحات کیں مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا ’’میں دنیا کو فتح کرنا چاہتاتھا مگر موت نے مجھ کو فتح کرلیا، افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک عام آدمی کو حاصل ہوتاہے۔‘‘

نپولین بونا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے کہ ’’مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں، میں دو چیزوں کا بھوکا تھا ایک حکومت ، دوسر ی محبت ، حکومت مجھے ملی مگر وہ میرا ساتھ نہ دے سکی ، محبت کو میں نے بہت تلاش کیا لیکن میں نے اسے کبھی نہیں پایا۔ انسان کی زندگی اگر یہ ہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقینا انسانی زندگی ایک بے معنیٰ چیز ہے کیونکہ اس کا انجام مایوسی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔‘‘ ہارون الرشید ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا مگر آخر عمر میں اس نے کہا ’’میں نے ساری عمر غم غلط کرنے کی کوشش کی پھر بھی میں غم غلط نہ کر سکا۔ میں نے بے حد غم اور فکر کی زندگی گذاری ہے زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں گذرا جو میں نے بے فکری کے ساتھ گذارا ہو، اب میں موت کے کنارے ہوں جلد ہی قبر میرے جسم کو نگل لے گی یہ ہی ہر انسان کا آخری انجام ہے ۔

مگر ہر انسان اپنے انجام سے غا فل رہتا ہے۔‘‘ خلیفہ منصور عباسی کی موت کا جب وقت آیا تو اس نے کہا’’ اگر میں کچھ دن اور زندہ رہتا تو اس حکومت کوآگ لگا دیتا جس نے مجھے بار بار سچائی سے ہٹا دیا، حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے مگر یہ بات مجھ کو اس وقت معلوم ہوئی جب موت نے مجھے اپنے چنگل میں لے لیا۔‘‘

دنیا کے اکثر کامیاب ترین انسانوں نے اس احساس کے ساتھ جان دی ہے کہ وہ دنیا کے ناکام ترین انسان تھے ۔ ہم سے کوئی بھی سکندر اعظم، نپولین بونا پارٹ، ہارون الرشید، خلیفہ منصورعباسی تو ہے نہیں لیکن ہم میں ہر شخص ساری زندگی ان ہی جیسا بننے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے اور اسی کوشش کے ہاتھوں ہم سب انتہائی مشکل، مصیبت اور پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں وہ لوگ آخری وقت تک یہ بھولے پڑے رہتے ہیں کہ وہ دنیا میں کسی بھی چیزکے اصل مالک نہیں ہیں۔

ہمیں تو صرف وقتی طور پر کسی بھی چیز کا نگران بننے کا کردار نصیب ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے آپ کو حقیقی مالک سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں، ہم سے پہلے نجانے کتنے لوگ آئے اور اپنا اپنا وقتی کردار ادا کرکے یہاں سے چلے گئے جہاں انھیں جانا تھا۔ یاد رہے ہم سب کو بھی وہیں جانا ہے ہم میں سے کوئی شخص ہمیشہ کے لیے اس دنیا میںرہنے کے لیے نہیں آیا ہے جو خوش نصیب شخص اس بات کو سمجھ لیتے ہیں ۔

ان کے لیے زندگی انتہائی آسان ہوجاتی ہے اور جو یہ بات سمجھ نہیں پاتے وہ خود بھی ساری زندگی عذاب میں مبتلا رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں یہ عہدے ، یہ کرسیاں ، یہ زمینیں ، یہ محلات ، یہ جاگیریں ، یہ ملیں ، یہ اختیارات ہم سے پہلے کسی اور کی ملکیت تھیں اب ہماری ہیں اورآیندہ کسی اورکی ہونگی آپ دنیا میں موجود نہیں ہونگے لیکن یہ تمام چیزیں موجود ہونگی بس مالکان بدل چکے ہونگے۔ یہ جو انسان ہے جو نہ تو خود پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی دفن ، مگر ساری زندگی ’’میں میں ‘‘ کرکے گذارتا ہے ۔ میں یہ میں وہ کرتے کرتے اس کی زبان نہیں تھکتی ہے ۔ بات بات پر اتراتا پھرتا ہے اکڑ اور غرور کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو ذلیل کرتا پھرتا ہے اگر اسے کوئی اختیار مل جاتا ہے یاکسی کر سی پر براجمان ہو جاتا ہے تو خدا بننے کی ایکٹنگ کرنا شروع کر دیتا ہے۔

اس وقت اس کی کیا ادائیں ہوتی ہیں اس کے کیا نازو نخرے ہوتے ہیں۔لیکن جیسے ہی وہ اختیار یا کرسی اس سے واپس لے لی جاتی ہے تو پھروہ سر پر ٹوپی رکھ کر ہاتھ میں تسبیح پکڑے اونچی شلوارکیے ہوئے مسجدآتے جاتے دکھائی دینے لگتا ہے کیا دو غلا پن ہے کیا مکاری اور ریا کاری ہے کیا خداکے ساتھ دھوکے بازی ہے ساری زندگی رشوت لیتے لیتے گزارتے ہیں دوسروں کا حق مارتے مارتے گزارتے ہیں لوٹ مار، کرپشن کرتے کرتے گذارتے ہیں ۔ کرسی چھوڑنے یا ریٹا ئرمنٹ کے بعداچانک آپ کو پتا چلتا ہے کہ ان صاحب نے ساری برائیاں چھوڑ دی ہیں غلط باتوں سے توبہ کرلی ہے۔ اب اللہ والے بن گئے ہیں ہر سال عمر ے پر جارہے ہیں پورے روزے رکھ رہے ہیں کوئی نماز قضا نہیں ہونے دیتے لمبی داڑھی رکھ لی ہے۔

ہاتھ میں ہروقت تسبیح ہوتی ہے یہ سنتے ہی آپ کے ذہن میں یہ سوال جاگ اٹھتا ہے اورآپ پوچھنے کی غلطی بھی کر بیٹھتے ہیں تو پھر تو ان صاحب نے لوٹ مار،کرپشن اور رشوت سے جو جائیداد ، محلات ، زمینیں ، دولت کے انبار جمع کیے تھے سب کے سب خیرات کردیے ہونگے تو پھر آپ کو یہ حیران کن جواب سننے کو ملتا ہے نہیں خیرات تو کوئی بھی چیز نہیں کی ہے ان سب چیزوں کے مزے ابھی بھی لے رہے ہیں بس اب اللہ والے ہوگئے ہیں داڑھی رکھ لی ہے بیوی اور بچیاں برقعے پہننے لگے ہیں یہ سننے کے بعد آپ اپنے سوال پر خود نادم ہوجاتے ہیں۔

اوردوسری جانب کوئی نئے صاحب نئے نام سے اس ہی کر سی پر بیٹھے اسی اختیار کے ساتھ وہ ہی سب کچھ کررہے ہوتے ہیں جو پرانے صاحب اپنے وقت میں کرچکے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ اسی طرح سے چلتا آرہا ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا ، بس نام اور چہرے بدلتے رہیں گے ۔ باقی سب کچھ ویسا کا ویسا ہی رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔