انصاف دینے والوں کو انصاف کون دے گا!

رحمت علی رازی  اتوار 21 جون 2015

اس بار بجٹ پر لکھنے کا ارادہ تھا لیکن صوبے بھر کی ماتحت عدلیہ کے مظلوم ججوں کی اکثریت نے ہمیں اپنا دُکھڑا سنایا تو ہم سے رہا نہ گیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ماتحت عدلیہ کے بڑوں سے استدعا کریں کہ اپنے ان مظلوموں کا ہاتھ تھام لیں اور انھیں بھی وہ انصاف دیں جو عوام کی خواہش ہوتی ہے۔ دُنیا میں انصاف کا بنیادی اور کلیدی ادارہ ماتحت عدلیہ ہے جو عام شہریوں کو انصاف بہم پہنچانے کا ذمے دار ہے۔

پاکستان میں بھی جیوڈیشری کی تاریخ ماتحت عدلیہ ہی سے شروع ہوتی ہے۔ حقیقت پسندی سے اگر تجزیہ کیا جائے تو سابق چیف جسٹس کی بحالی کے بعد وکلاء نے ماتحت عدلیہ کا وہ حشر کیا کہ خدا کی پناہ۔ کبھی ان کی عدالتوں کی توہین کی جاتی اور کبھی ججوں کو عدالتوں میں بند کر کے باہر سے تالے تک لگا دیے جاتے جس پر اعلیٰ عدلیہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

ماتحت عدلیہ دیوار کے ساتھ  لگتی گئی اور وکلاء کے حوصلے بڑھتے گئے۔ اس حوصلہ شکنی پر ماتحت عدلیہ کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔ وکلاء کے رویے کے خلاف  ماتحت عدلیہ کو کئی بار ہڑتال بھی کرنا پڑی۔ اگر اس وقت سابق چیف جسٹس ماتحت عدلیہ کو درپیش گھمبیر مسائل حل کرتے اور انھیں بھی ٹارگٹ دیتے تو آج لاکھوں مقدمات زیرالتواء نہ ہوتے۔ ماتحت عدالتوں کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے سائلین کو بروقت انصاف میسر نہیں آتا اور مجبوراً وہ اپیلوں کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلی سطح پر اہل اور ایماندار ججز اور عدالتی عملہ سرے سے ناپید ہے۔

اگر جج دیانتدار و محنتی ہے اور وہ عوام کی امنگوں کے مطابق انصاف دینا بھی چاہتا ہے تو اس کا عملہ اس قدر کرپٹ اور متحد ہے کہ اسے چلنے ہی نہیں دیتا‘ یہی وجہ ہے کہ اب عوام کو بروقت انصاف ملنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں فوجداری عدالتیں ’’کریمنل پروسیجر کوڈ 1898‘‘ کے تحت اور دیوانی عدالتیں ’’ ویسٹ پاکستان سول کورٹ آرڈیننس 1962‘‘ کے ذریعے قائم کی گئیں جب کہ ریونیو عدالتیں ’’ ویسٹ پاکستان لینڈریونیو ایکٹ 1967‘‘ کے تحت عمل میں لائی گئیں اور ان میں تعیناتی کے لیے مجسٹریٹس، سول جج، ایڈیشنل سیشن جج اور سپیشل ججز کے لیے مقابلے کے امتحانات اور محکمانہ امتحانات کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔

پنجاب میں جیوڈیشل مجسٹریٹس ، سول ججز اور ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحانات قبل ازیں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منعقد ہوتے تھے مگر موجودہ دور میں یہ امتحانات عدالت عالیہ پنجاب کے زیرانتظام کردئیے گئے ہیں‘ اس فیصلے سے ملک کی وقیع اور باوقار عدالتوں کی نہ صرف ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عوام کے لاکھوں کیسز التواء میں جا پڑے ہیں‘ دوسرا ججوں کا عدالت عالیہ کے ذریعے انتخاب اس کے شایانِ شان نہیں۔ اس طرح انتخاب پر امیدواروں کے تحفظات دُور کرنے والی کوئی اتھارٹی نہیں رہ جائے گی۔ پنجاب میں ایک وکیل ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے اور دوسال کی وکالت کے بعد سول جج کے عہدے کے لیے امتحان دینے کا اہل ہوتا ہے۔

جب سے پبلک سروس کمیشن کا کام لاہور ہائیکورٹ نے انجام دینا شروع کیا ہے بیشمار امیدوار سول ججز کے امتحانات سے منہ موڑنے لگے ہیں۔3جون  2015ء کو پنجاب ہائیکورٹ نے سول ججوں کے امتحانات کے انعقاد کے بعد 696 نشستوں کے نتائج کا اعلان کیا جس پر کئی امیدواروں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا کیونکہ ان نتائج میں کافی حد تک بے قاعدگیوں کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ قبل ازیں جب یہ امتحانات پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منعقد ہوتے تھے تو کسی بھی بے قاعدگی یا بے ضابطگی کی شکایت پر عدالتِ عالیہ سے رجوع کیا جا سکتا تھا مگر اب جب یہ انعقاد عدالت عالیہ خود کرتی ہے تو شکایت کی صورت میں کسی کو یہ اختیار ہر گز نہیں کہ وہ عدالت ِ عالیہ یا عدالت ِعظمیٰ سے رجوع کرسکے، نہ ہی اس ضمن میں عدالت ِ عالیہ نے کوئی شکایات سیل قائم کیا ہے۔

اس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی کہ کسی امیدوار کو اپنی شکایت کے مطلوبہ فورم سے محروم کردیا جائے۔ آئین ِ پاکستان کے تحت عدالت ِ عالیہ کے خلاف کسی کو درخواست گزارنے، فریق بننے یا رٹ دائر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جون 2015ء کے امتحانات میں اپنے حقوق سے محروم رہ جانے والے ایک امیدوار نے جب لاہور ہائیکورٹ میں سول ججوں کے امتحانی نتائج کے خلاف  درخواست دائر کر دی تو فاضل عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست ناقابل سماعت ہے اور یہ کہ سول ججوں کے امتحانی نتائج میں کوئی گڑبڑ نہیں ہے‘ اسے کمپیوٹر سسٹم کی خرابی سے منسوب کر دیا گیا۔

3جون کو جو رزلٹ جاری کیے گئے تھے اس کے لیے ایک نیا سافٹ ویئر بنایا گیا تھا جسکے تحت صرف امیدوار کے شناختی کارڈ کا نمبر درج کرنے پر ہی اس کا رزلٹ معلوم کیا جاسکتا تھا تاہم ویب سائٹ پر ایک دم اتنے لوگ آگئے کہ سسٹم بیٹھ گیا اور وزٹرز کو صحیح نتائج نہ مل سکے۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ججوں کے امتحانات کے نتائج میرٹ پر مرتب نہیں کیے گئے اور کورٹ کی ویب سائٹ پر 3 جون کو جاری کیے گئے نتائج میں ابہام پایا جارہا ہے لہٰذا سول ججوں کے امتحانی نتائج پر نظر ثانی کی جائے مگر فاضل جج نے کیس خارج کردیا۔

اسی طرح کا معاملہ اگست 2009ء کو بھی سامنے آیا تھا جب امتحان کے ذریعے 229 سول ججوں کی بھرتی کے لیے پہلے اشتہار میں حدِعمر 30 سال جب کہ بعد میں اچانک عمر کی حد بڑھا کر 35 سال کردی گئی، اس بات پر کافی شور وغوغا ہوا اور اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے اس موقع پر متذکرہ سول ججوں کی بھرتی کا عمل پنجاب پبلک سروس کمیشن کے بجائے ہائیکورٹ کے ذریعے کیے جانے پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا تھا، گورنر کی طرف سے جاری ایک مراسلہ میں کہا گیا کہ صوبے میں گریڈ 16 سے اوپر ہر طرح کی نئی بھرتیاں اور تقرریاں کرنا پبلک سروس کمیشن کا دائرہ اختیار ہے اور یہ کیا قانون شکنی ہے کہ سول ججوں کی بھرتیوں کا کام ہائیکورٹ کے سپرد کرتے وقت پنجاب پبلک سروس کمیشن سے کسی بھی طرح کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔

جس پر یہ جواز پیش کیا گیا کہ پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں سول ججوں کی زبردست کمی ہے اور نئے ججز ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کرنے کی اشد ضرورت ہے جب کہ پبلک سروس کمیشن مقابلے کے دیگر امتحانات اور انٹرویوز کے عمل میں بیحد مصروف ہے، بدیں وجہ ججوں کی بھرتیوں میں مزید تاخیر کا اندیشہ ہے لہٰذا یہ کام ہائیکورٹ نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ہائیکورٹ نے سول ججوں کی بھرتیوں کے کام کی ذمے داری سنبھالی، اس وقت عدالت ِ عالیہ میں 60کے بجائے صرف 8 جج موجود تھے ۔

جس کی وجہ سے اس کے تینوں بنچوں پر کام رکا ہوا تھا اور راولپنڈی، بہاولپور اور ملتان بنچوں کے علاوہ لاہور کی پرنسپل سیٹ کی کارکردگی بھی مطلوبہ ججز کی کمیابی کے سبب شدید متاثر ہورہی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو اہلیت پبلک سروس کمیشن میں ہے وہ کسی اور ادارے میں نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمیشن کے پاس مقابلے کے امتحانات منعقد کروانے، انٹرویوز کرنے اور بھرتیاں کرنے کا مکمل ایک میکانزم موجود ہے اور چیئرمین کے علاوہ 15 ممبران اور 300 کے اسٹاف پر مشتمل اس کا عملہ اپنے پروفیشنلزم میںپوری طرح طاق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میرٹ کے حوالے سے اس میں بھی کسی حد تک بے ضابطگیوں کی شکایات ہیں مگر اس حد تک نہیں جتنی دیگر اداروں میں ہیں۔

جب 2009ء میں پی پی ایس سی کا کام ہائیکورٹ نے سنبھال لیا تو اس میں ہرسال میرٹ اور ضوابط کے بجائے ماتحت عدلیہ کو درکار مطلوبہ ججوں کی تعداد کے تناسب سے بھرتیاں عمل میںلائی گئیں جن میں امتحانی شفافیت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ماتحت عدلیہ میں ججوں کی تعداد پوری کرنے سے آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ سول عدالتوں کی کارکردگی کا کیا احوال ہو گا؟ امیدواروں کی بھاری اکثریت کا سوال ہے کہ کیا ہائیکورٹ انصاف فراہم کرنیوالا ادارہ نہیں رہ گیا؟ کیا وہ اپنی اصل ذمے داریوں سے فراغت پا چکا ہے کہ اب اس نے پبلک سروس کمیشن کی ذمے داریاں بھی سنبھال لی ہیں؟

کیا اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ ایک وقت پر وہ مقدمات کے فیصلے بھی سنائے اور ماتحت عدلیہ کے لیے ججوں کے امتحانات کا انعقاد اور بھرتیاں بھی کرے؟ اس وجہ سے عدالت عالیہ کے محترم جج صاحبان کا اصل کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور عدالت عالیہ میں لاکھوں کی تعداد میں اپیلیں التواء میں پڑی ہیں۔ دُور دراز سے آنیوالے سائلین کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

ہماری مخلصانہ رائے میں عدالت ِ عالیہ کو اپنی ساکھ مزید مجروح نہیں کرنی چاہیے اور فی الفور پبلک سروس کمیشن کے اختیارات اسے واپس کر دینے چاہئیں۔ اس طرح نہ صرف اعلیٰ عدلیہ اپنے پیشے میں سرخرو ہوپائے گی بلکہ ہر سال امیدواروں کی شدید تنقید کا نشانہ بننے سے بھی بچ جائیگی۔ پبلک سروس کمیشن ایک مکمل با اختیار اور خود مختار ادارہ ہے جو سول ججوں اور جوڈیشل مجسٹریٹس کو ’’ پنجاب جوڈیشل سروس رولز 1994‘‘ کے تحت بھرتی کرنے کا مجاز ہے۔ اس کے ضابطہ 5 کی رو سے یہ کمیشن سول ججز/ مجسٹریٹس کو مقابلے کے امتحان کے ذریعے منتخب کرسکتا ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے سول ججز / مجسٹریٹس کی خالی نشستوں کے لیے پی پی ایس سی کے بجائے لاہور ہائیکورٹ صوبے بھر میں امتحانات کے ذریعے بھرتیاں کر رہا ہے جن پر ہر سال انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال جون 2015ء کو سول ججز کی 696 پوسٹوں کے لیے لیے گئے امتحانات ہیں جن کے نتائج پر بہت سے حلقوں اور امیدواروں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ اگر یہی امتحانات پی پی ایس سی کے ذریعے منعقد ہوتے تو مشکل سے 100 یا اس سے بھی کم امیدوار کامیاب ہوپاتے کیونکہ کمیشن اس بات کا کئی بار رونا رو چکا ہے کہ قانونی تعلیم کے گرتے معیار کے باعث اسے ججوں کی خالی نشستوں کے لیے مطلوبہ امیدوار منتخب کرنے میں انتہائی دشواری کا سامنا ہے، مگر کیا تعجب ہے کہ ہائیکورٹ نے 696خالی سیٹوں کے لیے 696 امیدواروں ہی کا انتخاب کر لیا ہے۔

اب ایک ساتھ اتنی بھرتیوں پر لوگ تحفظات کا اظہار تو کریںگے۔ قانونی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جوڈیشل سسٹم میں ایک نئی لاٹ کا اتنا بڑا اضافہ صوبے میں انصاف کی فراہمی میں تعطل پیدا کر سکتا ہے۔ بعینہٖ لاہور ہائیکورٹ نے حال ہی میں پنجاب کے لیے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی 158 نشستیں مشتہر کیں اور حیران کن بات تو یہ ہے کہ بھرتی کے معیار کو نرم سے نرم کرنے کے لیے تحریری امتحانات کے پرچے 9 سے گھٹا کر 3 کر دیے گئے جس سے اے ڈی اینڈ ایس جے (گریڈ 20) کے تحریری امتحانات اور پی پی ایس سی کے ذریعے بھرتی ہونے والے لیگل انسپکٹر (گریڈ16) کے امتحانات کے معیار میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا۔

در حقیقت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا عہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ وہ لوئر اپیلیٹ کورٹ کا پریذائڈنگ افسر ہونے کے ساتھ ساتھ قتل اور دہشت گردی جیسے سنگین نوعیت کے فوجداری مقدمات کے فیصلے بھی کرتا ہے، چنانچہ یہ عہدہ انتہائی قابلیت اور پیشہ ورانہ خوبیوں کا متقاضی ہے۔ اے ڈی اینڈ ایس جے کے عہدوں کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر براہِ راست بھرتیاں پنجاب کے جونیئر سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹس کے لیے بے حد تشویش کا باعث ہے، کیونکہ ان بھرتیوں سے یہ قیاس غالب ہے کہ مستقبل میں وہ اے ڈی اینڈ ایس جے کے عہدوں پر ترقیوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔

کسی بھی ملازم کے لیے سروس پرموشن اس کی جانفشانی کا سبب ہوتی ہے۔ اگر اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی ترقی کی راہیں مسدود کر دی گئی ہیں تو یقینا اس کی پیشہ ورانہ کارکردگی متاثر ہو گی۔ اس ضمن میں یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر 158 براہِ راست ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز بھرتی کر لیے گئے تو سول ججز کی ترقی کے امکانات ختم ہو جائینگے جس کی وجہ سے ان کی اپنے کام میں دلچسپی ختم ہو جائے گی اور کیسز مزید التواء کا شکار ہو جائینگے۔

اس کے علاوہ سول ججز ملازمت چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ حال ہی میں انگلینڈ سے ایل ایل ایم کرنیوالے ایک سول جج نے اس وجہ سے نوکری چھوڑ دی کہ اسے اے ڈی ایس جے کے امتحان میں شرکت کی اجازت نہیں ملی تھی۔ سول جج جوکہ جوڈیشل سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اگر اپنی سروس کے حوالے سے غیرمطمئن ہو گیا تو جوڈیشل سسٹم کو شدید جھٹکا لگے گا جسکا نقصان ملک اور سائلین کو ہی ہو گا۔ ضلعی عدالتیں پہلے ہی خراب کارکردگی پیش کررہی ہیں، انہیں مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کے بجائے ان میں متنوع اصلاحات لانے کی جانب ہائیکورٹ کو نمایاں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں پہلی فرصت میں عدالتی تقرریوں کا کام ایک خود مختار پبلک سروس کمیشن کو سونپ دینا چاہیے اور عدالت عالیہ کا جو اصل فرض منصبی ہے اسے اس کی طرف ہی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

اعلیٰ عدالتوں میں سالہا سال سے لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہیں جن پر مناسب توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ماتحت عدالتوں کی بھرتیوں پر، بلکہ آج اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے ایک ایسے انتظامی ادارے کی ضرورت ہے جو ضلعی عدالتوں کے قاضیوں کی سالانہ بنیادوں پر کارکردگی کا جائزہ لے اور انہیں قابلِ مواخذہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی تقرریوں، تبادلوں اور ترقیوں پر نظرِثانی کرے۔ جب اعلیٰ عدلیہ ماتحت عدلیہ کی بھرتیوں کی اتھارٹی بن جائے گی تو متاثرہ ضلعی جج اپیلوں کے لیے کس فورم کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ؟ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی براہِ راست بھرتیاں آجکل کافی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔

سول ججز کو یہ شکایت ہے کہ جب آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 193(3) انہیں یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ دس سالہ ملازمت کے بعد ہائیکورٹ کے جج بن سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں اے ڈی اینڈ ایس جے کے امتحان میں بیٹھنے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ ماتحت عدلیہ اور وکلاء میں یکساں مقبول اور ہردلعزیز موجودہ چیف جسٹس نے اس مسئلے پر ابھی تک کیوں نوٹس نہیں لیا‘ ہم سمجھتے ہیں کہ انھیں فوری طور پر ایسا مثالی فیصلہ کرنا چاہیے جو وکلاء اور ماتحت عدلیہ کو قابل قبول ہو‘ چیف جسٹس صاحب کو وکلاء اور ماتحت عدلیہ کے درمیان بحالی تحریک کے دوران پیدا ہونیوالی غلط فہمیوں کو بھی دُور کرنا چاہیے۔

مارشل لاء دور میں سیشن کیسز کی سماعت کے لیے فوجداری کام کے تجربہ کار وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا اور مختلف حکومتیں اپنے اپنے رفقاء کو نوازنے کے لیے اس نوٹیفکیشن کے سہارے ایڈیشنل سیشن ججز کی بھرتی کرتی رہیں۔ بالآخر 1994 کو گورنر پنجاب نے پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974 کی دفعہ 23 کے تحت حاصل اختیار استعمال کرتے ہوئے 40فیصد ابتدائی بھرتی 10سال کے وکالتی تجربہ کے ساتھ رکھی۔ 10سال کی وکالت کے حامل بار ممبران سے ابتدائی بھرتی کا کام شروع دن سے قانونی حلقوں میں ابہام و تنازعہ کا باعث رہا ہے۔

چونکہ سول ججز، ڈسٹرکٹ اٹارنی، ڈپٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی، پبلک پراسیکیوٹرز، ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹرز اور اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹرز قانون کا امتحان پاس کرنے اور2 سال کی وکالت کے بعد متعلقہ امتحانات پاس کرنے کے بعد اپنے عہدے پر فائز ہوتے ہیں لہٰذا ان کا موقف تھا کہ وہ عدالتی قانونی معاملات میں وکلاء کے برابر تجربہ رکھتے ہیں اور سرکاری وکلاء سرکار کی نمائندگی کرتے ہیں جب کہ سول ججز کی عدالت سے سرکاری وکلاء اور وکلاء تجربہ حاصل کرتے ہیں، نیز آئین ِ پاکستان 1973 کا آرٹیکل 193 دس سال کی عدالت عالیہ کی پریکٹس اور دس سال جوڈیشل آفس پر کام کرنے کے تجربہ کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔

وکلاء، سرکاری وکلاء، قانونی معاملات سے متعلقہ کام کرنیوالے افسران اور سول ججز کے درمیان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے عہدے کے لیے اہلیت پر ابہام و تنازعہ کے دوران 1994 سے 2007 تک بھرتی کا عمل جاری رہا البتہ اس بارے میں قانونی حلقوں میں بحث جاری رہی اور فریقین کے اپنے اپنے موقف کی حمایت میں دلائل بھی جاری رہے لیکن بھرتی اور پرموشن کے عمل میں زیادہ فرق نہ ہونے کی وجہ سے فریقین نے یہ معاملہ عدالت میں نہ اٹھایا۔ملک میں امن وامان کی بگڑی ہوئی صورتحال، دیوانی اور فوجداری نظام انصاف کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان کی سربراہی میں جوڈیشل ریفارمز کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔

جس نے تمام حالات وواقعات اور قانونی و آئینی نکات سامنے رکھتے ہوئے کمیشن کے ذریعے سول ججز اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے آفیسرز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں شرکت کرنے کی اجازت دینے کی سفارش کی۔ نیشنل جوڈیشل کمیٹی آرڈیننس 2002 کی دفعہ 4 کے تحت اس کمیٹی کو جوڈیشل افسران کی سروس کی بہتری اور بہتر عدلیہ کے قیام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ کمیٹی نے 22 جون 2010 کے اجلاس میں محنتی اورمطلوبہ قابلیت کے حامل سول ججز کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی بھرتی پر متعلقہ عدالت عالیہ کو غور کرنے کی سفارش کی۔

جسکے بعد عدالت عالیہ لاہور کی امتحان کمیٹی نے 13جنوری 2012 کے اجلاس میں سول ججز کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 193، عدالت عظمیٰ کے حکم 15مئی 2008 ریاض حنیف راہی بنام رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ لاہور پی ایل ڈی 2008 سپریم کورٹ 587، پنجاب لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل ایکٹ 1974 کے رُول 5 اور 15 مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں انرولمنٹ کمیٹی کے حکم 28 ستمبر 2011ء، اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز 2011 اور سندھ جوڈیشل سروس رولز 1994 کی روشنی میں ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دیدی۔ بعدازاں یہ اجازت 8فروری2012 کو امتحانی کمیٹی نے جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں واپس لے لی ،اور امتحانی کمیٹی نے محنتی اور قابل سول ججز کو ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحان میں بیٹھنے کا موقع دینے کے لیے عدالت عالیہ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کو پنجاب جوڈیشل سروس رولز 1994 میں ترمیم کرنے کی سفارش کی۔

عدالت عالیہ کے صوبائی جوڈیشل سلیکشن بورڈ / انتظامی کمیٹی نے  2013ء کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سول ججز کو ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحان کی اجازت سے متعلق پنجاب جوڈیشل سروس رولز میں ترمیم کرنے کا معاملہ متعلقہ اتھارٹی کے روبرو پیش کرنے کی منظوری دی، جسکے بعد سروس رولز کمیٹی نے سیکریٹری (ریگولیشن) کی سربراہی میں 31 مارچ 2014 کو پنجاب جوڈیشل سروس رولز میں ترمیم کرنے اور سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں شریک ہونے کی اجازت دینے کی گورنر کو سفارش کی۔

جس پر گورنر پنجاب نے پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974 کی دفعہ 23 کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے پنجاب جوڈیشل سروس رولز میں ترمیم کی منظوری دی اور 9 مئی 2014 کو سول ججز اور سینئر سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔10 سالہ تجربہ کے حامل سول ججز اور سینئر سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کے امتحان میں شرکت کی اجازت کے بعد عدالت عالیہ لاہور نے 2014 کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی 40 آسامیوں کے لیے اشتہار دیا، جس میں سول ججز، ڈسٹرکٹ اٹارنی، اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اٹارنی، پبلک پراسیکیوٹرز کی بڑی تعداد نے آن لائن فارم جمع کراوئے مگر یہ امتحان منعقد نہ ہوسکالہٰذا وکلاء نے شازیہ اظہار وغیرہ بنام حکومت پنجاب ایک رِٹ عدالت عالیہ میں دائر کی اور سول ججز کو امتحان میں شرکت کی اجازت نہ دینے کی استدعا کی۔

یہ رِٹ پیٹیشن درخواست واپس لیے جانے پر عدالت عالیہ سے خارج ہوئی البتہ عدالت عالیہ کی انتظامی کمیٹی نے خرم خان ورک بنام حکومت پنجاب اور شازیہ اظہار وغیرہ بنام حکومت پنجاب وغیرہ کے عدالتی فیصلوں کے باوجود رولز میں ترمیم کے کسی اختیار کے بغیر سول ججز کو امتحان کی اجازت نہ دینے کی نئی ترمیم کی سفارش کردی۔ یہ بات قانونی حلقوں میں تشویش کا باعث ہے کہ ڈسٹرکٹ اٹارنی، ڈپٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی، اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز وغیرہ اور لاء آفیسرز تو ریاض حنیف راہی وغیرہ کی پیٹیشن کی روشنی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں شرکت کے اہل ہیں لیکن سول ججز جن کی عدالت میں سرکاری وکلاء اور وکلاء وکالت کا تجربہ حاصل کرتے ہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں بیٹھنے کے اہل نہیں ہیں۔

پنجاب میں سول ججز بطور مجسٹریٹ درجہ اول، علاقہ مجسٹریٹ، رینٹ کنٹرولر اور فیملی کورٹ کام کرتے ہیں اور تمام سائلین کو سب سے پہلے ان ہی سے واسطہ پڑتا ہے۔ اگر انصاف کی فراہمی میں مددگار سول ججز کو خود انصاف نہ ملے گا تو ان میں مایوسی اور بددلی پیدا ہوگی جوکہ تمام معاشرے پر برے اثرات مرتب کریگی۔ اس صورتحال میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کو معاملہ فہمی اور قانونی معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کی بنیادی سیڑھی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار کرنا چاہیے۔

بار کو بھی دوسال اور دس سال کی وکالت والے وکلاء کو ایک نظر سے دیکھنا چاہیے اور وکلاء، سرکاری وکلاء اور سول ججز کی امتحان میں شرکت کی حمایت کر کے ایک صحتمند مقابلے کی فضا پیدا کرنی چاہیے تاکہ اہل لوگ نظام عدل کا حصہ بن سکیں۔وکلاء کے ایک طبقے کی رائے تھی کہ پنجاب لیگل اینڈ بار پریکٹیشنرز ایکٹ کے تحت سول ججز اور سرکاری وکلاء کا لائسنس اپنی ملازمت کے عرصے کے دوران عارضی طور پر معطل ہوتا ہے اور یہ لوگ بار کی ممبرشپ سے محروم نہیں ہوتے لہٰذا 40 فیصد ابتدائی بھرتی جو کہ بار ممبران میں سے ہوتی ہے آئین پاکستان کی درست تعبیر وتشریح کر کے سول ججز کو بھی امتحان کی اہلیت دیتی ہے اور اس سے قبل سرکاری وکلاء کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے ریاض حنیف راہی کے کیس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے امتحان میں شرکت کی اجازت مل چکی ہے‘ ان حالات اور واقعات کے تناظر میں سول ججز کو امتحان میں شرکت سے محروم کرنا نہ صرف نا انصافی بلکہ سخت زیادتی ہوگی اور سول ججز کو محنت اور لگن سے کام کرنے کے جذبے سے محروم کرنے کے مترادف ہوگا۔

انصاف کے اس بنیادی ستون کے ساتھ ایک اور زیادتی یہ ہورہی ہے کہ دو سال کی وکالت کے بعد سول ججزامتحان میں پاس ہونے کے بعد تقریباً 14/15 سال کی سروس کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ پر ترقی پاتے ہیں جب کہ دوسال وکالت کرنے والے وکلاء دوتین دفعہ ناکام ہونے کے بعد بھی ان سے پہلے دس سال کی وکالت کے ساتھ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ پر پہنچ کر ان کے باس بن جاتے ہیں جوکہ ان میں مایوسی اور بددلی کا باعث ہے۔

یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 193 کے تحت سول ججز دس سال کے جوڈیشل آفس کے ساتھ عدالت عالیہ کا جج بننے کا تو اہل ہے لیکن وہ گریڈ بیس کے عہدہ کے لیے اے ڈی ایس جے کا امتحان دینے کا اہل نہیں۔ نظام انصاف کی بقاء ان تمام باتوں پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنے اور صحتمند مقابلے کو فروغ دینے کے لیے سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا امتحان دینے کی اجازت میں ہے بلکہ ہمارا تجربہ تو یہ ہے کہ چونکہ دوسالہ تجربہ کے وکلاء سول جج کے امتحان میں شرکت کے اہل ہیں اور تمام بھرتی سول جج کی سطح پر بار سے ہوتی ہے لہٰذا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے کی بھرتی پر پابندی لگا دینی چاہیے اور جس وکیل نے بنچ میں خدمات سرانجام دینی ہوں وہ اپنی جوانی محکمہ انصاف کودے۔ یہ پابندی نہ صرف انصاف کی فراہمی میں ممدومعاون ثابت ہوگی بلکہ نظامِ عدل میں ایک خوشگوار تبدیلی کا بھی باعث ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔