ذرا نم ہو تو یہ مٹی۔۔۔۔

نسیم انجم  اتوار 21 جون 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

علامہ اقبال پر کالم لکھنے کی وجہ ہمارے وزیر اعظم پاکستان ہیں، پچھلے دنوں ہم ٹی وی دیکھتے ہوئے حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے۔ واقعہ یہ تھا میاں نواز و میاں شہباز شریف نے راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والی میٹرو بس کا افتتاح کیا، اس دوران بڑی عالمانہ تقاریریں بھی کیں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے شعری ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تقریر کو وقعت دینے کے لیے علامہ اقبال کے شعر کا سہارا لیا اس کا مصرعہ ثانی تھا کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ مصرعہ اولیٰ یوں ہے ’’نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے‘‘

شہباز شریف نے موقعے کی مناسبت سے شعر پڑھنے کی کوشش کی لیکن وہ پڑھتے پڑھتے مصرعہ ثانی بھول گئے، بروقت مدد آئی اور سامعین میں سے کسی نے اصلاح کردی وہ زندہ دلی سے ہنسے اور مصرعہ درست کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔ ان کی تقریر کے بعد باری آئی نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کی، انھوں نے اپنے چھوٹے بھیا کو مشورہ دیا کہ ’’میاں صاحب! زمانہ بدل رہا ہے تو شعر بھی بدل لیں دوبارہ اسی جملے کو اس طرح ادا کیا پاکستان بدل رہا ہے اشعار بھی بدل لیں، آپ وہ ہی پرانے شعر بول رہے ہیں۔‘‘

جناب نواز شریف کی تقریر کے درج بالا جملوں سے مجھے دھچکا سا لگا، بالکل میری ہی طرح علم و ادب سے تعلق رکھنے والے قارئین بھی حیرت میں پڑگئے ہوں گے، چونکہ علامہ اقبال کے مرتبے اور عالمی شہرت اور ان کے مقام سے مشرق ہی نہیں بلکہ اہل مغرب بھی بہت اچھی طرح واقف ہیں،ایشیا (برصغیر) اور یورپ میں باقاعدہ ان کا یوم پیدائش اور یوم وفات منایا جاتا ہے، ان پر مقالے لکھے جاتے ہیں پی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی جاتی ہے۔

ان کی علمی اہمیت مسلم ہے ان کی شاعری نے ایک انقلاب برپا کردیا۔ اقبال کی شاعری کا سکہ ہندوستان کی اردو دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا اور ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی ہے۔

شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لا نے بالِ جبرئیل کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’اگر میں تناسخ کا قائل نہ ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خان غالب کو اردو و فارسی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جاکر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ کسی جسدِ خاکی میں جاکر جلوہ افروز ہوکر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے سیالکوٹ میں جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘ بھلا اتنے عظیم شاعر کا کلام کیوں کر رد کیا جاسکتا ہے۔

علامہ ہندوستان سے فارغ التحصیل ہوکر انگلستان اور جرمنی گئے عملی مدارج طے کرنے کے بعد یورپ میں قیام کے دوران بہت سی فارسی کتابوں کا مطالعہ کیا اور بعد مطالعے کے ایک محققانہ کتاب شایع کی اور جسے فلسفہ ایران کی مختصر تاریخ کہنا چاہیے۔ اسی کتاب سے متاثر ہوکر جرمنی کے دانشوروں اور علما نے شیخ محمد اقبال کو ڈاکٹری کے درجے پر فائزکیا، سرکار انگریز کو جب ان کی عالمگیر شہرت کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے بھی ان کی اس طرح قدردانی کی کہ انھیں ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا، اقبال کو ابتدائی عمر میں ہی ’’میرحسن‘‘ جیسے استاد میسر آئے، مرزا داغ دہلوی کو بھی چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں انھوں نے کہا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔

علامہ اقبال نے داغ کی زندگی میں ہی شہرتِ دوام حاصل کرلی تھی اور داغ دہلوی جیسے بڑے شاعر بڑے غزل گو جنھیں زبان کی خوبی کے لحاظ سے فن غزل میں یکتا سمجھا جاتا تھا، اس بڑے شاعر کو اس بات پر فخر حاصل تھا کہ انھوں نے اقبال کے کلام کی بھی اصلاح کی، علامہ کو فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا لہٰذا لاہور میں سر ٹامس آرنلڈ جیسا محبت کرنے والا استاد ملا، علی گڑھ کالج کی پروفیسری کے زمانے میں سر ٹامس آرنلڈ نے مولانا شبلی کے علم و ہنر کو بھی پختہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی اور اب اقبال جیسا جوہر قابل ان کا شاگرد تھا۔ اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر میک ٹیگرٹ، براؤن نکلسن اور سارلی سے استفادہ کیا۔

بعد میں پروفیسر نکلسن نے اقبال کی مشہور فارسی نظم ’’اسرارِ خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا اس کتاب پر دیباچہ اور حواشی درج کرکے اقبال کو امریکا اور یورپ سے متعارف کرایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری کے پرستار جوق درجوق ان مجالس میں پہنچ جاتے جہاں شاعر مشرق علامہ اقبال کو اپنا کلام سنانا ہوتا، 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کا مجمع لگ جاتا، لوگ ترنم سے سننے کی فرمائش کرتے اور اس وقت تک مجمعے پر سناٹا چھا جاتا جب تک علامہ اپنا کلام نذر سامعین کرتے ان کی شاعری حاضرین کے دل ودماغ کو مسخر کرلیتی اور سناٹا چھایا رہتا۔

جب علامہ اقبال نے اپنی نظم ایک جلسے میں پڑھ کر سنائی نظم کا عنوان تھا ’’کوہ ہمالہ‘‘ تو واہ، واہ اور دادوتحسین کے بے شمار خوشنما پھول ہر سمت بکھر گئے، اس نظم کی خوبی یہ تھی کہ اس میں خیال انگریزی اور بندشیں فارسی زبان کی اور اس پر طرح امتیاز یہ کہ وطن کی محبت کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی شاعری کے دوسرے دور میں اقبال کے ذہن میں یہ بات آئی کہ شاعری کو ترک کردیا جائے اور اس سے بہتر کوئی کام کیا جائے لیکن بھلا ہو شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لا اور آرنلڈ صاحب کا جن کا یہ سمجھانا کہ ان کی شاعری ملک و قوم کے لیے بے حد مفید ہے۔

اسی زمانے میں دوسرا تغیر یہ آیا کہ علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر و مفکر نے اردو کے بجائے  فارسی میں شاعری شروع کردی اور تین کتابیں جو گوہرِ نایاب کی مانند ہیں، جلوہ افروز ہوئیں بعنوان ’اسرارِ خودی‘ رموزِ بے خودی اور پیامِ مشرق۔ اسی طرح اردو شاعری کی چاروں کتابیں ’بانگِ درا، بالِ جبرئیل، ضربِ کلیم، ارمغان حجاز جوکہ ’کلیات اقبال‘ میں شامل ہیں۔

مشرق و مغرب اور دوسرے ممالک میں بے حد قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی اور پڑھی جاتی ہیں لاکھوں قارئین کلامِ اقبال کے دیوانے ہیں طلبا و اساتذہ، عالم دین، مبلغ اسلام اپنے خطبوں میں اقبال کے عالمانہ و مدبرانہ فکر سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرتے ہیں اور دنیا بھر کے فلاسفر، شعرا ، ادیب، ناقدین و محققین انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ان کے استاد ڈاکٹر سرطامس آرنلڈ اقبال کی وفات کے بعد اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب مغربی تہذیب کے بہت گہرے اور سنجیدہ مطالعہ کرنے والے تھے انھوں نے برگساں اور نٹشے کے بعض خیالات کو اپنی فکر کے سانچے میں ڈھالا۔‘‘ نوبل پرائز یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا کہ ’’ڈاکٹر اقبال کی وفات نے دنیائے ادب میں ایسا خلا پیدا کردیا ہے جس کو پر کرنا عرصہ دراز تک ممکن نہیں ہوگا، ان کی شہرت آفاقی تھی‘‘۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر اے جے آربیری نے لکھا کہ ’’تاریخ صوفیا میں سر محمد اقبال کی شخصیت کسی بھی حیثیت سے کم نہیں۔‘‘ ڈاکٹر طحہٰ حسین مصر جامعہ استنبول کے پروفیسر علی نیاد طرلون نے انھیں عظیم مفکر و شاعر قرار دیا۔

انھوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا، مسلم لیگ کے جلسے الٰہ آباد کے صدارتی خطے میں علیحدہ اسلامی مملکت کا اظہار کیا۔ اب ذرا غور کریں کہ ہمارے حکمران گمراہ کن گفتگو کر رہے ہیں اگر ان کا کلام نہیں، تو اقبال بھی نہیں، بڑے لوگ، بڑی شخصیات کبھی زوال پذیر نہیں ہوتیں تا قیامت وہ زندہ رہتی ہیں۔ان کے کام انھیں زندہ و تابندہ رکھتے ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ آج اقبال اور ان کا کلام پرانا اور بے مقصد ہوگیا، کل دوسری نابغہ روزگار شخصیات کی باری آسکتی ہے، میرا مشورہ ہے کہ  نواز شریف اور شہباز شریف مطالعہ کریں خصوصاً قرآن حکیم کا، دنیا کی حقیقت سامنے آجائے گی۔ نیز یہ کہ علامہ اقبال جیسا عظیم شاعر پاکستان کا اثاثہ ہے، ان کی شاعری افکار عالیہ اور قرآنی تعلیم سے مرصع ہے اور جسے قرآن فہمی کا درجہ نصیب ہوجائے تو اس کے بخت جاگ جاتے ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے انقلاب عظیم برپا کردیا اسی وجہ سے وہ قیامت تک دلوں میں زندہ رہیں گے، تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔