یہ سب تمہاری وجہ سے ہے …

شیریں حیدر  اتوار 21 جون 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ بھابی… کل گھر کے سودے خرید کر لائی ہوں تو چند چیزوں کی قیمتیں دیکھ کر میں توحیران رہ گئی! ‘‘ میں اپنی پڑوسن کو بتا رہی تھی، ’’ اتنی مہنگائی کہ خدا کی پناہ!!!‘‘
’’ اچھا مثلا کون کون سی چیزیں مہنگی تھیں؟ ‘‘ انھوں نے چائے کاگھونٹ لے کر استفسار کیا۔’’ کافی کچھ مہنگا تھا، کیا کیا بتاؤں ، ٹماٹر، چینی، پیاز، آلو، بسکٹ، مرغی کا گوشت ‘‘
’’ تو پھر تو تم نے یہ سب کچھ نہیں خریداہو گا؟‘‘ انھوں نے پھر پوچھا۔’’ نہیں، خریدنا پڑا، کیونکہ میری لسٹ میں یہ سب چیزیں تھیں ! ‘‘ میں نے اپنی مجبوری بتائی۔
’’ اچھا مگر لی تو تم نے کم مقدار میں ہوں گی؟ ‘‘

’’ ایسا بھی نہیں، جتنا لینا تھا، اتنا ہی لیا‘‘
’’ تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں چیزیں اس قدر جلدی جلدی کیوں مہنگی ہو جاتی ہیں اور پھر اسی مقام سے اوپر اوپر جاتی رہتی ہیں ، کم کبھی نہیں ہوتیں ‘‘
’’ ظاہر ہے کہ ہماری نا اہل حکومتوں کی وجہ سے ‘‘ میں نے چائے کا آخری گھونٹ لے کر دل ہی دل میں حکمرانوں کو کئی کوسنے دیے۔
’’ تم ایسا سمجھتی ہو تو وہ تمہاری رائے ہے مگر میرا خیال کچھ اور ہے!! ‘‘ انھوں نے ہولے سے مسکرا کر کہا۔

میں نے سوالیہ انداز میں انھیں گھورا۔
’’ یہ سب تمہاری وجہ سے ہے!!‘‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے ان کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔
’’ میری وجہ سے؟ ‘‘ میں نے ہلکی سی ناراضی سے پوچھا، ’’ میں کون سی بہت بڑی شخصیت ہوں یا بہت با اختیار کہ میری وجہ سے ملک میں گرانی ہو جائے؟ ‘‘
’’اصل میں ہم سب اس عادت میں مبتلا ہیں کہ اپنی غلطیوں کا مدعا دوسروں پر ڈال دیتے ہیں، جوکچھ غلط ہو رہا ہوتا ہے اس کے لیے ہم کسی نہ کسی کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں جسے مورد الزام ٹھہرا سکیں !!‘‘
’’ بڑی عجیب بات کی ہے آپ نے بھابی، مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی!‘‘
’’ اچھا مجھے بتاؤ کہ ایک ملک کیا ہوتا ہے،حکمران کیا اور عوام کیا!!‘‘

’’ ملک وہ جگہ جہاں ہم رہتے ہیں ، حکمران وہ جو ہم پر حکومت کرتے ہیں اور عوام ہم لوگ، جو حکمرانوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کو بھگت رہے ہوتے ہیں !!‘‘ میں نے ان کے سوال کا جواب دیا۔’’ تمہارا جواب کافی حد تک غلط ہے، ملک وہ ہوتا ہے جہاں ہم پیدا ہوتے ہیں ، اپنے نظریات کے مطابق زندگیاں گزارتے ہیں اور اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارا گھر ہے جسے ہم سب نے مل کر چلانا ہے، سنوارنا ہے، اس کے مستقبل کو بنانا ہے!!!‘‘ مجھے ان کی بات سے اتفاق تھا ’’ حکمران وہ ہیں جو ہم جیسے ہیں، ہم میں سے ہیں، ہم انھیں اپنے ووٹوں کی طاقت سے چنتے ہیں، ان سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ توقعات کئی اسباب کے باعث پوری نہیں ہو سکتیں تو ہم انھیں گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں !!‘‘
مجھے ان کی اس بات سے اتفاق نہیں تھا کہ ہم ان حکمرانوں کو خود چنتے ہیں یا کم از کم ہم سب ان کو چنتے وقت عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔’’ رہی بات عوام کی، تو کیا خوب کہا ہے قتیل صاحب نے
دنیا میں قتیل، اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے ، بغاوت نہیں کرتا !!!
تم کہہ رہی ہو کہ مہنگائی ہے، مگر تم نے کیا کیا؟ ‘‘

’’ظاہر ہے کہ جو کچھ مجھے خریدنا تھا وہ خریدا، جو ضروریات ہیں ان سے گریز تو نہیں کیا جا سکتا، مگر آپ کا یہ کہنا کہ مہنگائی میری وجہ سے ہے، مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی!!‘‘
’’ عوام، اصل میں حکمرانوں سے بڑی طاقت ہوتے ہیں، ساری بات سمجھنے کی ہے، حکمران ایک شخص، ایک گروہ یا ایک طبقہ ہوتا ہے جب کہ ہم عوام ملک کے چپے چپے میں پھیلی ہوئی طاقت ہیں ، مگر یہ طاقت طاقت کیوں نہیں ، کیونکہ یہ متحد نہیں ، ان کے خیالات کو اظہار کے لیے فورم میسر نہیں، انھیں احتجاج کا طریقہ نہیں آتا، ان کی سوچ کی سمت درست نہیں، اسی لیے میں نے کہا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی تمہاری وجہ سے ہے، تمہاری کا مطلب تم اور تمہارے جیسے لوگ، جو مہنگائی کو قبول کر لیتے ہیں، خود پر ہونیوالے ہر ظلم اور ناانصافی کو برداشت کرتے ہیں اور احتجاج نہیں کرتے ‘‘
’’ میں … ایک میں کیا کر سکتی ہوں، کس طرح اکیلی احتجاج کر سکتی ہوں ، کیا میں مارکیٹ میں کھڑی ہو کر نعرے بازی شروع کر دیتی کہ حکومت بر طرف ہو جائے کیونکہ وہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے دیکھ کر بھی چشم پوشی کیے ہوئے ہے ‘‘ میں نے طنز سے سوال کیا۔نہیں ، نعرے لگانے کی ضرورت نہیں تھی، تمہیں جو جو چیزیں مہنگی لگیں ، تم انھیں نہ خریدتیں، کوشش کرتیں کہ ان کے بغیر گزارا کرو۔ دکاندار سے بھاؤ پوچھ کر کہتیں کہ تم فلاں چیز اس لیے نہیں خرید رہیں کہ ان کے دام زیادہ ہیں۔

تمہارے علاوہ اس اسٹال پر دس اور لوگ اور دکاندار بھی اس بات کو سنتے، ممکن ہے کہ ان دس خریداروں میں سے کم از کم کوئی ایک تم سے متاثر ہو کر وہ چیزیں نہ خریدتا، تم گھر آ کر میری طرح دو چار لوگوں سے ذکر کرتیں کہ تم نے اس وجہ سے فلاں فلاں چیز نہیں خریدی، میں اور میری طرح دو ایک اور لوگ بھی تمہاری سوچ اور جذبے سے متاثر ہوتے اور ہم بھی ان چیزوں کا بائیکاٹ کر دیتے ، ہر اچھائی اور ہر برائی، اسی طرح پھیلتی ہیں‘‘ ان کی بات ختم ہونے تک ، میرے ذہن کی کھڑکیاں کھل چکی تھیں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور نہ صرف دل میں بلکہ ان کے ساتھ بھی عہد کیا کہ آئندہ جب بھی مجھے محسوس ہو گا کہ کوئی چیز مہنگی ہے اور اس کے بغیر گزارا بھی ہو سکتا ہے تو اسے نہیں خریدوں گی، بلکہ جس طرح بھابی نے بتایا ہے اسی طرح اچھے پیغام کو جس حد تک ممکن ہو گا پھیلاؤں گی۔

انشا اللہء۔مجھے اسی بات پر یاد آیا کہ چند دن قبل میری ایک جاننے والی بتا رہی تھیں کہ ان کا بیٹا کسی فرم میں کلرک ہے، تنخواہ میں مشکل سے گزارا ہوتا ہے مگر ہر سال ایک مہینہ ایسا آتا ہے جس میں اس کے سارے دلدر دور ہو جاتے ہیں! میں ان کی بات نہ سمجھی تھی تو انھوں نے وضاحت کی کہ وہ اپنے دفتر سے ہر سال رمضان کے مہینے میں چھٹی لیتا ہے اور اس مہینے وہ ایک بڑی دکان کے باہر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر پکوڑوں ، سموسوں ، کچوریوں، چپس، جلیبی اور چاٹ کا اسٹال لگا لیتا ہے۔

معمول میں دس روپے میں بکنے والا سموسہ اس مہینے پچیس اور تیس روپے میں بکتا ہے اور اسی طرح دوسری چیزیں، دن کے بارہ بجے کے بعد سے کام شروع ہوتا ہے اور تین بجے چیزیں بکنا شروع ہو جاتی ہیں، روزہ کھلنے تک لگ بھگ چار پانچ گھنٹے میں ہر روز ان کی سیل لاکھوں کے حساب سے ہوتی ہے۔

سوچا جائے تو ماہ رمضان رحمتیں و برکتیں سمیٹنے، عبادات، نفس پر قابو پانے، اپنی خواہشات کو روکنے اور اپنے معدے کو بھی آرام دینے کا مہینہ ہے اور ہم کیا کرتے ہیں۔ ہم سحری بھی کرتے ہیں تو معدے کو اس کی آخری حد تک بھر لیتے ہیں اس کے سبب دن بھر کاہلی سے پڑے رہتے ہیں ، معمول کے کام کار بھی نہیں کر سکتے، نمازیں بھی مارے باندھے پڑھتے ہیں۔ نصف دوپہر سے ہی عورتیں کچن کا رخ کرتی ہیں اور ان کا پورا روزہ افطاری بنانے میں گزر جاتا ہے، نماز اور قرآن کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا، افطاری میں ہم لوگ ہر طرح کی مرغن اور ثقیل چیزیں کھا کھا کرمعدے کو پھر اس کی آخری حد سے بڑھ کر بھر لیتے ہیں۔

ماہ رمضان میں ان اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں جو کثرت سے استعمال ہوتی ہے مثلا کھجور، بیسن ، سبزیاں اور پھل۔ہاں اب مجھے یقین ہے کہ اس ملک میں جب بھی مہنگائی ہوتی ہے اس میں میرا قصور ہوتا ہے، جو لوگ رمضان اسٹال لگا کر سال بھر کے لیے دانے کما لیتے ہیں وہ بھی میری وجہ سے ہے۔

میں نہیں دیکھتی کہ وہ جو کچھ تیار کر رہے ہیں اس کی کوالٹی کیا ہے، کس نوعیت کے مسالے استعمال ہوتے ہیں، کتنا ناقص تیل استعمال ہوتا ہے اور اسے کتنے کتنے دن تک چلایا جاتا ہے، اس نوعیت کے اسٹال لگا کر ایک مہینے میں لاکھوں کمانے والے اس کاروبار پر کوئی ٹیکس بھی دیتے ہیں کہ نہیں!!! یہ سب کچھ چوری چھپے نہیں ہو رہا ہوتا، بس ہمارے سارے محکمے روزے سے نڈھال پڑے ہوتے ہیں… میرا جتنا بھی قصور ہو بھابی، کچھ قصور حکومت کا بھی تو ہے نا، اس بات کو تو آپ تسلیم کریں نا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔