میلے کے شوقین

اوریا مقبول جان  پير 22 جون 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ محاورہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں سیاست کا بازار گرم ہوا، لوگوں نے ہزاروں سال کے تجربے سے سیکھا کہ سیاست دان اکھاڑے میں اترے ہوئے اس منہ زور بھینسے کی طرح ہوتا ہے جسے صرف اور صرف جیت اور مخالف کو زیر کرنے سے غرض ہوتی۔ یہ سیاسی مفاد جمہوری ہو یا بادشاہانہ، آمرانہ ہو یا عوامی، ہر صورت میں مقصد اور مدعا صرف اور صرف ایک ہوتا ہے کہ ہم اقتدار کی کرسی پر کس طرح پہنچتے ہیں اور کتنی دیر تک اس پر براجمان رہتے ہیں۔ بادشاہ بھی اپنے ساتھ طاقتور گروہوں اور قبیلوں کو ملایا کرتا اور ان کی قوت و طاقت سے اپنا رعب و دبدبہ قائم کرتا تھا۔

اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد وہ عام آدمی کو راضی رکھنے کے لیے انصاف اور امن و امان کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ ان میں اکثریت کا مقصد عوام کی خدمت نہیں ہوتی تھی بلکہ انھیں اس بات پر سیاسی تجربے سے یقین ہوتا تھا کہ اگر عوام مطمئن نہ ہوئے تو اندر سے کوئی اور طاقتور طالع آزما اقتدار پر قبضہ کر کے بادشاہ بن جائے گا یا پھر پڑوس کا کوئی حکمران حملہ کر کے اس کی سلطنت کو اپنا حصہ بنا لے گا۔ ان دونوں صورتوں میں غیر مطمئن عوام اس کا ساتھ نہیں دیں گے اور شکست یقینی ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے بادشاہ لوگوں کے مزاج کو دیکھتے ہوئے وہاں مختلف کام کرتا تھا۔ ایسے کام جن سے رعایا خوش رہے اور اس کے خلاف نہ ہو جائے۔ معمولی طور پر یہ کام میلوں ٹھیلوں، کھیلوں، بڑی بڑی پرشکوہ عمارات اور شاندار تقریبات کے ذریعے کیا جاتا۔ پر شکوہ عمارت کی تعمیر ہو یا رنگا رنگ تقریبات، ان میں لوگوں کے لیے رزق کا سامان بھی ہوتا اور دلجمعی اور دل بستگی کا وسیع ذریعہ بھی۔

روم کے بادشاہ جہاں بڑے بڑے اسٹیڈیم بناتے اور عمارات تعمیر کرتے وہیں ہر سال کھیلوں کی تقریبات بھی منعقد کرتے جو مہینوں جاری رہتیں۔ ان تقریبات کے دوران شہر کے فواروں میں خوشبودار پانی چلایا جاتا، گلیوں بازاروں میں موسیقار دھنیں بجاتے، رقاص رقص کرتے، مصر میں دریائے نیل کے ساحلوں سے باریک ریت منگوائی جاتی اور وہاں بچھائی جاتی جہاں بگھیوں کی دوڑ کا مقابلہ ہوتا۔ غلام کئی سال تک اچھی خوراک پر پالے جاتے، انھیں ورزشیں کروا کر صحت مند اور توانا بنایا جاتا اور پھر ایک دن عوام سے بھرے ہوئے اسٹیڈیم میں بھوکے شیروں سے لڑنے کے لیے چھوڑا جاتا۔ یہ سب تماشا جہاں عوام کے لیے دلچسپی اور تفریح کا باعث تھا وہیں ان کے لیے رزق کا سامان بھی پیدا کرتا تھا۔ وہ اتنا رزق ضرور کما لیتے کہ سال بھر فاقوں میں نہ گزرتے۔

یہی حال دنیا میں ہر بادشاہت کا تھا۔ مصر کے اہرام سے لے کر بابل کے ہوا میں معلق باغات تک اور چین کی عظیم دیوار سے تاج محل اور شالا مار باغ تک آپ کو پرشکوہ عمارات کی قطار نظر آئے گی جنھیں لاکھوں انسانوں نے اپنی محنت سے تعمیر کیا اور اس صورت اپنا رزق بھی کمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو دنیا کی تمام بادشاہتوں میں ماہانہ اور سالانہ تقریبات کا سلسلہ بھی ملے گا جن میں کھو کر لوگ بھول جایا کرتے تھے کہ انھیں انصاف ملا ہے یا نہیں ملا، وہ کس قدر شدید بیمار ہیں، انھیں ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ انھیں تو اس بات کی عادت ڈال دی گئی تھی کہ وہ بیمار ہوں، مظلوم ہوں، بیکس و بے نواہوں، بھوکے ننگے ہوں لیکن انھوں نے میلہ اور تہوار ضرور منانا ہے اور اگر شہر آ جائیں تو ان بڑی بڑی پرشکوہ عمارات کو حیرت سے ضرور دیکھنا ہے۔ یہ مزاج جن معاشروں میں بھی راسخ کیا گیا، وہاں موجودہ دور کے سیاست دانوں نے بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ایسے معاشروں کے ڈکٹیٹر اور جمہوری حکمران دونوں کے مزاج یکساں تھے۔ دونوں نے عوام کے اس شوق سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

آج سے تیس سال قبل جب اسلام آباد سے مری جانے والی سڑک دنیا کے بہترین معیار پر تعمیر ہو رہی تھی تو تبصرہ نگار اسے کسی ایک شخص کی شاہانہ مزاجی سے تعبیر کر رہے تھے، اس نے چونکہ ویک اینڈ مری میں گزارنا ہوتا ہے اس لیے وہ اپنی سہولت کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ ایسا ہر گز نہ تھا، وہ تو ہیلی کاپٹر پر بھی مری جا سکتا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ اسے اس قوم کے مزاج کا اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ لوگ بیمار رہیں، ان پڑھ ہوں، انصاف سے محروم اور طاقتور طبقوں کے ظلم کا شکار رہیں، ان کے گھروں میں کھانے کو میسر نہ ہو، روز و شب مصیبت میں گزرتے ہوں، لیکن پھر بھی دل کا بوجھ ہلکا کرنے، زندگی کی سانسیں درست کرنے، میلہ دیکھنے ضرور جائیں گے، عمارتوں پر چراغاں ہو یا کوئی نئی عمارت بنے اس کو دیر تک حیرت سے ضرور دیکھیں گے اور پھر اپنے گھر کے اندھیروں میں لوٹ جائیں گے۔

حکمرانوں کو اندازہ تھا کہ مری ایک ایسا مقام ہے جہاں ملک بھر سے لوگ آتے ہیں۔ حسب استطاعت چند دن گزار کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اگر اس مقام کو خوبصورت بنا دیا گیا تو پورا سال لوگ اس کا تذکرہ گلی گلی کرتے رہیں گے۔ جس نے دیکھا، وہ بیان کرے گا، جس نے نہیں دیکھا وہ حیرت میں گم ہوتا چلا جائے گا لیکن ایک بات پر سب متفق ہونگے کہ کام بہت غضب ہوا ہے۔ اسی طرح بڑے شہروں میں جشن بہاراں کے نام پر میلوں ٹھیلوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کہیں پر بسنت کے تہوار تک جا نکلا جس پر اربوں روپے خرچ کیے جانے لگے۔ میلے کے شوقین لوگ ان دنوں میں خوب ہلا گلا کرتے، کچھ تماشہ کرنے والے، کچھ شریک تماش بین اور لاکھوں دور سے تماشہ دیکھ کر خوش ہونے اور اپنے افلاس زدہ گھروں کی جانب لوٹ جانے والے۔ میلے اور جشن منائے جاتے رہے۔ موٹروے تعمیر ہونا شروع ہوا۔

کچی سڑکوں پر رہنے والے دیہاتیوں کے لیے دور سے یہ بھی ایک تاج محل نظر آتا تھا۔ وہ جن کے دیہات میں نہ بجلی تھی نہ پانی، اسکول تھا نہ اسپتال، گندے پانی کے جوہڑ سے انسان اور حیوان ایک ساتھ مستفید ہوتے۔ ان کے درمیان تارکول کی چمکتی پٹری گزری اور پھر اس پر رنگا رنگ گاڑیاں بھی گزرنے لگیں۔ موٹروے کے دونوں جانب زندگی آج بھی اسی طرح ایک ہزار سال پرانے سہولیات سے عاری ماحول میں زندہ ہے اور اس پر سفر کرنے والے اس بات پر خوش ہیں کہ وہ چند گھنٹے میں لاہور پہنچ جاتے ہیں۔ پشاور سے چلنے والا ٹرک آج بھی جی ٹی روڈ سے جاتا ہے۔ اس کے گودام اور روڈ سائیڈ ہوٹل وہیں آباد ہیں لیکن ہم خوش ہیں کہ موٹروے نام کا ایک تاج محل ہمیں میسر آ گیا ہے۔ آمروں کو عمارتیں بنانے اور میلے ٹھیلوں کا شوق ایسا ہوتا ہے کہ ہر چوک میں ٹریفک ٹھیک طرح چلے یا نہ چلے وہاں ایک یاد گار ضرور تعمیر ہوتی ہے جس کے ساتھ کھڑے ہوکر لوگ تصاویر بناتے ہیں۔

اسلام آباد کے شاندار بلیو ایریا میں اب ایسی کئی عمارات ہیں جن کی سرخ چھتیں اور شیشے کے آر پار زندگی آپ کو اچھی لگتی ہے۔ آپ وہاں لوگوں کو تصاویر بناتے دیکھتے ہوں گے۔ لوگ اپنی گاڑی کھڑی کرتے ہیں، تصاویر بناتے ہیں، بیس روپے کا ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایک اچھی سی ’’رائڈ‘‘ لے کر اپنی گاڑی میں واپس گھر لوٹ جاتے ہیں۔ لاہور ہو یا اسلام آباد، اس میں لوگ سفر بھی کرتے ہیں۔ وہ لوگ جن کی زندگیاں سکون و اطمینان سے خالی ہیں جو ایسے اسپتال کے اسٹاپ پر اترتے ہیں جہاں انھیں دوائی نہیں ملتی، ایسی عدالت کے دروازے پر پہنچتے ہیں جہاں وہ سالوں سے انصاف حاصل کرنے کے لیے دھکے کھا رہے ہیں، ایسی سرکاری عمارات کے سامنے میٹرو سے باہر آتے ہیں جہاں وہ کئی سالوں سے نوکری کی درخواست دے رہے ہیں لیکن ملازمت کسی سیاسی اثر و رسوخ والے یا رشوت دینے والے کو مل جاتی ہے۔

وہ ایک ایسے تعلیمی ادارے تک جانے کا ٹکٹ لیتے ہیں جہاں وہ قابلیت کے حساب سے داخل تو ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اس کے باوجود بھی یہ سب لوگ جو موٹروے، میٹرو، مری روڈ، جشن بہاراں یا اسپورٹس فیسٹیول جیسی تقریبات میں تصویریں کھنچواتے ہیں، انھیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ آدھا گھنٹہ ایئرکنڈیشنڈ بس میں بیس روپے دے کر گزارتے ہیں اور پھر اسے ایک سہولت سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں یہ اسی مزاج کے حامل ہیں جن کے گھر میں کھانے کو ہو یا نہ ہو انھوں نے میلہ دیکھنے ضرور جانا ہوتا ہے اور حکمرانوں نے ان کی نبض پہ ہاتھ رکھا ہوا ہے، وہ ان کی کمزوریوں کو جانتے ہیں۔ انھیں پتہ ہے یہ میلے کے شوقین لوگ ہیں۔ سیاست کے سینے میں دل ہوتا تو کوئی ان میلے کے شوقین لوگوں سے اتنا ضرور کہتا، پہلے گھر بہتر کر لو پھر میلہ دیکھ لینا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔