تاریخ کا بھولا بسرا باب

مقتدا منصور  پير 22 جون 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج 22 جون ہے، مگر جو تاریخ ساز واقعہ یہاں پیش کرنے جا رہا ہوں، وہ ایک روز قبل یعنی 21 جون 1966ء کو رونما ہوا تھا۔ ہمارے پیپلز پارٹی کے دوستوں کو 21 جون محترمہ شہید کے یوم ولادت کے طور پر تو یاد ہے، مگر وہ اس اہم واقعہ کو شاید فراموش کر بیٹھے ہیں، جس نے پاکستان کی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ 48 برس قبل پارٹی کا قیام، اس کی بے پناہ مقبولیت، اقتدار میں آنا، پھر اقتدار سے جبراً ہٹایا جانا، بانی چیئرمین سمیت اس کے خاندان کے بیشتر افراد کا سیاسی بنیادوں پر قتل، وہ اہم واقعات ہیں، جنہوں نے پیپلز پارٹی کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب بنا دیا۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ماضی میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے والی جماعت، آج غیر مقبولیت کی اس سطح تک جا پہنچی ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تو اس کا صفایا ہوا ہی ہے، گلگت بلتستان میں بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب کہ سندھ میں بری حکمرانی اور کرپشن کے الزامات اس کی مقبولیت کو مزید گہن لگانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ ایک ایسی جماعت جو کبھی مقبولیت کے بام عروج پر تھی، آج اس مقام تک کیوں کر پہنچی، ان واقعات کا اعادہ ضروری ہے، جو اس کی مقبولیت کا باعث بنے۔

ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاست میں وہ سیماب صفت کردار رہے ہیں، جو تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ سندھ کے معروف سیاست دان سر شاہنواز بھٹو کے فرزند جنہوں نے ممبئی سے اپنی وکالت کا آغاز کیا، قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ سندھ مسلم لاء کالج میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ 1955ء میں اسکندر مرزا کی نظر انتخاب کے نتیجے میں نائب وزیر کی حیثیت سے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے۔ ایوب خان کے اقتدار میں آنے کے بعد مختلف وزارتوں سے ہوتے ہوئے 1962ء میں وزارت خارجہ تک پہنچے۔ جو ان کی شناخت اور مقبولیت کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی۔ لیکن انھیں بے مثل مقبولیت 1965ء کی جنگ کے موقع پر اقوام متحدہ میں کی جانے والی پرجوش تقریر پر حاصل ہوئی۔ کبھی وہ ایوب خان کے قریب ترین اور بااعتماد دست راست تصور کیے جاتے تھے۔ پھر ان کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے، جو بعد میں دشمنی پر منتج ہوئے۔

جولائی 1965ء میں سرحدوں پر شروع ہونے والی کشیدگی ستمبر میں باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ اس جنگ نے پاکستان کی معیشت کے علاوہ سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ ملک کے سپید و سیاہ پر قابض وہ مرد آہن، جو جنوری 1965ء کے صدارتی انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کے بعد اخلاقی طور پر کمزور ہو گیا تھا، پاک بھارت جنگ نے بوڑھے جرنیل کے کمزور ہوتے اعصاب کر مزید مضمحل کر دیا، جس کی وجہ سے اقتدار پر ان کی گرفت کمزور پڑ گئی۔

دوسری طرف امریکا کا رویہ بھی سرد مہری پر مبنی تھا۔ اس نے اس جنگ میں اپنے حلیف کی حمایت کرنے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کو ترجیح دی۔ اس موقع پر سوویت یونین نے آگے بڑھ کر نہ صرف جنگ بندی میں فعال کردار ادا کیا بلکہ بعد از جنگ مفاہمتی معاہدہ کرانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ 10 جنوری 1966ء کو تاشقند کے مقام پر اس معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے سے موجود ایوب بھٹو اختلافات کو اس معاہدے کی بعض شقوں نے مہمیز لگائی۔ یہی سبب تھا کہ تاشقند سے واپسی پر بھٹو مرحوم نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔

کہا جاتا ہے کہ بھٹو مرحوم کے ایوب خان مرحوم سے اختلافات صدارتی انتخابات کے فوراً بعد پیدا ہو گئے تھے، جو تاشقند معاہدے کے نتیجے میں اپنی انتہا کو پہنچے۔ اس سلسلے میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایوب خان بھٹو مرحوم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان رہنے لگے تھے اور ان سے چھٹکارا پانے کے بہانے تلاش کر رہے تھے۔ ساتھ ہی وہ انھیں 1965ء کی جنگ کا ذمے دار بھی سمجھتے تھے۔ لہٰذا جب بھٹو مرحوم نے استعفیٰ دیا تو اسے فوری منظور کرتے ہوئے انھیں تین ماہ تک کام کرنے کو کہا گیا، تا کہ نئے وزیر خارجہ کا تقرر کیا جا سکے۔

منظور قادر مرحوم نے جب بطور وزیر خارجہ ذمے داریاں سنبھال لیں تو بھٹو کو فارغ کر دیا گیا۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکا سمیت مغربی ممالک بوڑھے ایوب خان کی پالیسیوں کو ناپسند کرنے لگے تھے۔ ساتھ ہی 1965ء کی جنگ کے خاتمے اور بعد ازاں ہونے والے تاشقند معاہدے میں سوویت یونین کے کردار کو پسند نہیں کر رہے تھے۔ اس لیے انھوں نے ایوب بھٹو اختلافات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پہلے تاشقند معاہدے کو متنازع بنا کر ہمیشہ کے لیے داخل دفتر کروا دیا، پھر بوڑھے جرنیل کی حکومت کو عوامی مظاہروں کے ذریعے ختم کرا دیا۔

بہرحال پس پردہ کہانیاں کچھ ہی کیوں نہ ہوں، ان سے قطع نظر، پاکستان میں جنم لینے والے اس نئے سیاسی کلچر پر گفتگو کرنا چاہیں گے، جس نے نہ صرف پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا، بلکہ ملک کی سیاسی تاریخ میں بھی انمٹ نقوش مرتب کیے۔ مستعفی ہونے کے بعد ایک ماہ کے قریب اسلام آباد میں دوستوں، سنگیوں اور ساتھیوں سے طویل مشاورتوں کے بعد بھٹو مرحوم نے لاہور جانے کا قصد کیا۔ جس کے بارے میں انھیں بتایا جا رہا تھا کہ وہاں ان کی مقبولیت آسمانوں کو چھو رہی ہے اور پورا شہر ان کی آمد کا منتظر ہے۔ یوں وہ علی الصبح خیبر میل سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ ہر اسٹیشن پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ لاہور پہنچتے پہنچتے ٹرین کئی گھنٹے لیٹ ہو چکی تھی۔ لیکن لاہور اسٹیشن پر ان کا جو استقبال ہوا، وہ ملک کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر اس روز عوام کا ٹھاٹھیں مارتا جو سمندر دیکھنے کو ملا، اس کے بعد ایسا کوئی استقبال دیکھنے میں نہیں آیا۔

اس وقت سیاسی فضا میں جمودی کیفیت طاری تھی۔ ملک میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا تعلق دائیں بازو سے تھا۔ ان میں سے بیشتر کو ایوب حکومت سے اختلاف کے باوجود کام کرنے میں رکاوٹ کا سامنا نہیں تھا، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ انھیں خطرناک نہیں سمجھتی تھی، جب کہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعتیں اول تو نہ ہونے کے برابر تھیں، جو تھیں انھیں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ کیونکہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ انھیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھی، خاص طور پر نیشنل عوامی پارٹی کے دونوں دھڑے (ولی اور بھاشانی)۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ ان میں کمیونسٹ گھسے ہوئے ہیں اور دوسرے ان کا بالترتیب پختون اور بنگالی قوم پرستی کے لیے نرم گوشہ، ان کی حب الوطنی کو مشکوک بناتا ہے۔

ایسی صورتحال میں ایک ایسی سیاسی جماعت کے لیے گنجائش پیدا ہو گئی تھی، جو اپنی سرشت میں روشن خیال ہونے کے ساتھ Centerist رجحانات کی حامل ہو۔ پورے ملک بالخصوص پنجاب کے اربن علاقوں سے تعلق رکھنے والے مڈل کلاس کے روشن خیال دانشور (جن میں سے بیشتر کمیونسٹ نہیں تھے) ایک ایسی جماعت کی تشکیل کے خواہاں تھے، جو عوامی مسائل کے ادراک کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی قابل قبول ہو۔ مغربی جرمنی کے سفارت خانے میں اعلیٰ عہدے پر تعینات ڈپلومیٹ جے اے رحیم اس جماعت کے ابتدائی خاکے پر کام کر رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور میں دوستوں سے ملاقات کے بعد بھٹو مرحوم کراچی چلے گئے، وہاں ان کی سابق طالب علم رہنما معراج محمد خان سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے معروف خالق دینا ہال میں بھٹو مرحوم کی بائیں بازو کے دانشوروں، مزدور اور طالب علم رہنماؤں سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ یہ نشست بھی ایک جلسے میں تبدیل ہو گئی۔

بھٹو پھر چند ماہ کے لیے بیرون ملک گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جرمنی میں ان کی جے اے رحیم سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور نئی پارٹی کے مسودے پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ بالآخر بھٹو مرحوم جے اے رحیم کے مسودے کے تحت نئی پارٹی کے قیام اور اس کی قیادت کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اسی اثنا میں جے اے رحیم سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہو کر پاکستان آ گئے۔ اس طرح ایک نئی پارٹی کی تشکیل کا عملی مرحلہ شروع ہو گیا۔ اس نئی جماعت میں روشن خیال اور لبرل اربن دانشوروں کے ساتھ چین نواز کمیونسٹوں کے ایک بڑے حلقہ کو بھی شمولیت پر آمادہ کر لیا گیا تھا، خاص طور پر معراج محمد خان اور مختار رانا نمایاں شخصیات تھے۔ 30 نومبر 1967ء کو پیپلز پارٹی وجود میں آئی۔ بعد میں نیپ سے میاں محمد علی قصور ی کے ساتھ خورشید حسن میر سمیت کئی بڑی سیاسی شخصیات شامل ہوئیں اور اس کا دامن مزید وسیع ہوا۔

پیپلز پارٹی جو ایک روشن ماضی کی امین رہی ہے۔ اس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جہاں مقبولیت کے نئے جھنڈے گاڑے، وہیں اس نے جانوں کی قربانیوں کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ اس کے کارکنوں نے فکری اور جذباتی وابستگی کی نئی تاریخ رقم کی۔ کارکنوں کی بے مثل قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق جیسا سفاک آمر بھی اس جماعت کا بال بیکا نہیں کر سکا۔ لیکن بقول شاعر اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چرغ سے۔ آج پیپلزپارٹی جس بدترین زوال آمادگی کا شکار ہے، وہ کسی اور کے نہیں اس کی قیادت کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی تقریباً نصف صدی پر محیط سیاست کا مطالعہ پاکستان کے سیاسی مد و جذر کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔