’’فراریوں کا سرنڈر‘‘

تنویر قیصر شاہد  پير 22 جون 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

14 جون 2015ء کو کوئٹہ میں، نواب چنگیز مری کی رہائشگاہ پر منعقدہ ایک تقریب میں ریاست، صوبے اور عوام کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے ناراض بلوچوں کے دو فراری ’’کمانڈروں‘‘ نے صوبائی وزیر ثناء اللہ زہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے ملک سے وفاداری نبھانے اور ہتھیار ڈالنے کا مظاہرہ اور اعلان کیا۔ وہاں ڈی آئی جی، ایف سی بھی موجود تھے۔ ہتھیار ڈالنے والے فراری کمانڈروں کے نام دین جان عرف میاں محمد حسنی اور عبیداللہ عرف ببرک ہیں۔ دونوں ’’کمانڈروں‘‘ کے ساتھ 55 دیگر فراری بھی شامل تھے۔ سب نے گمراہ کرنے والوں کا جس انداز اور اسلوب میں ذکر کیا ہے، یہ الفاظ لندن، سوئٹزرلینڈ اور امریکا میں بیٹھے ان کے سرپرستوں نے سن لیے ہوں گے۔ وہ یقینا نادم بھی ہوں گے۔

برہم بلوچ نوجوانوں کے لیے معافی اور محبت کا دائرہ مزید وسیع کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ بلوچستان میں دخل انداز عالمی طاقتوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے عالمی فورموں میں ان کے خوں آشام اور نفرت آگیں چہرے بے نقاب کیے جا سکیں۔ جناب ثناء اللہ زہری اور صوبائی وزیر داخلہ جناب سرفراز بگٹی کا یہ اعلان اور بیان مستحسن ہے کہ پہاڑوں پر چڑھے ناراض بلوچ نوجوانوں کو ہتھیار پھینک کر قومی دائرے میں شامل ہو جانا چاہیے، انھیں خوش آمدید کہہ کر، اپنے بھائی اور بیٹے قرار دے کر، سینوں سے لگایا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مزہ قومی دھارے میں شریک ہو کر گلے شکوے کرنے اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے میں ہے، وہ انفرادی سطح پر اور کسی کے ذاتی مفادات کے لیے جنگ کرنے میں ہر گز نہیں۔

موج ہے دریا میں، بیرونِ دریا کچھ نہیں

ملک و قوم کے خلاف ہتھیار اٹھا کر جرم کرنے، فرار ہونے اور فراری کیمپ قائم کرنے سے اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگیاں تباہ کرنے اور انھیں جہنم بنانے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ فراریوں اور بلوچستان کے شکوہ کناں نوجوانوں کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مشیر اجیت ڈوول کے ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے جن میں صاف کہا گیا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں ناراض بلوچ نوجوانوں کو استعمال کر رہی ہیں اور آیندہ بھی انھیں پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائیگا۔ ہمارے ’’فراری بھائیوں‘‘ کے لیے اجیت ڈوول کے ان پاکستان دشمن الفاظ میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں اور عالمی دخیل طاقتوں کی شیطانیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایف سی نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان میں ایف سی کے ایک ڈی آئی جی بریگیڈئیر فرخ شہزاد اور ان کی اہلیہ پر دہشت گردوں نے خود کش حملہ کیا تھا۔ جناب فرخ کو اللہ تعالیٰ نے دوسری بار زندگی عنائیت فرما دی لیکن ان کی اہلیہ شہید ہو گئی تھیں۔ اس خودکش حملے میں ایف سی کے ایک کرنل سمیت 27 نوجوانوں نے تحفظِ وطن میں جانیں نچھاور کر دی تھیں۔ قوم ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اب فراری اور ان کے کیمپ ایف سی کی زد میں ہیں۔

’’فراری‘‘ ایک عجب لفظ ہے۔ اردو کے ممتاز اور مشہور ترقی پسند افسانہ نویس و ناول نگار جناب شوکت صدیقی کے معرکہ آرا ناول ’’جانگلوس‘‘ میں ’’فراری‘‘ لفظ بکثرت پڑھنے کو ملتا ہے۔ تشکیلِ پاکستان کے فوراً بعد کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر لکھے گئے اس ناول، جس کے مرکزی خیال پر ایک ڈرامہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی، کے سارے کردار پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ آجکل فراریوں کا تذکرہ زیادہ تر بلوچستان کے ناراض نوجوانوں سے منسلک ہو کر رہ گیا ہے۔ فیروز اللغات میں ’’فراری‘‘ کے معنی یوں بتائے گئے ہیں: ’’بھگوڑا۔ بھاگا ہوا۔ رُوپوش۔‘‘

ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کے بارے میں یہ کہنا اور لکھنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ بعض ایسے آزردہ دل نوجوان ہیں جو غلط فہمیوں کی بنا پر یا کسی کے بہکاوے میں آ کر غلط یا وطن عزیز کے مفادات کے منافی راستے کا انتخاب کر بیٹھے تھے، اب اللہ کے فضل اور توفیق سے واپس اپنے گھر آ گئے ہیں جہاں انھیں کامل امان بھی حاصل ہے اور اپنے بزرگوں کی شفقت و محبت بھی بدستور میسر ہے۔ لاریب بلوچستان کی صوبائی حکومت، بلوچستان میں بروئے کار تمام سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کی بھی یہ ایک نمایاں اور اجتماعی کامیابی ہے۔ کاش، میڈیا میں بھی اسے بڑھاوا ملتا۔ اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جانی چاہیے تھی تا کہ بلوچستان کے بدخواہوں اور ملک دشمنوں تک پاکستان کا پیغام واضح ہو کر پہنچ جاتا مگر ہمارا میڈیا بوجوہ ایسے مرکزِ مائل واقعات کو زیادہ سے زیادہ سامنے لانے سے گریز کرتا ہے۔

ہاں اگر کوئی مفسدانہ واقعہ ہو جائے تو ہمارے میڈیا کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے بھڑکتی اور آتش بجاں خبریں اور مناظر زیادہ مرغوب اور پسندیدہ موضوعات بن گئے ہیں۔ وہ بلوچ نوجوان جنہوں نے بلوچستان میں ریاست اور عوام کے خلاف اپنے سنگین جرائم اور غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے آیندہ راہِ راست پر رہنے، وطن سے محبت کو اپنے ایمان کا حصہ بنانے اور غیر ممالک میں عیش و عشرت کرنے والے سرداروں اور ان کی ذریت کا دست و بازو نہ بننے کا عہد کیا ہے، اب وہ ریاستی رہنمائی اور ہماری اجتماعی شفقت کے مستحق ہیں۔ ملک کے وسیع تر مفادات میں بعض اوقات تلخ گھونٹ پی کر ایسے اقدامات بھی کرنا پڑتے ہیں لیکن معافی تلافی اور درگزر کے ایسے واقعات کو نظیر(Precedent) بنائے جانے سے پرہیز بھی کیا جانا چاہیے کہ اس سے بہت اندیشے بھی وابستہ ہیں۔

گزرے ایام کے دوران بلوچستان میں غیر ملکی ہاتھوں کی پیہم مداخلت سے فراری کیمپوں میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ان عناصر پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ چونکہ فراری مسلسل اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ان پر کامل اور آہنی ہاتھ ڈالنا نسبتاً مشکل مہم ثابت ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ سال کوئٹہ میں ایف سی کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل محمد اعجاز شاہد نے ایک مفصل بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ بلوچستان میں ملک دشمن فراری کیمپوں کی تعداد ساٹھ اور ستر کے درمیان ہے۔ قانون کا نفاذ کرنے والے قومی اداروں کی عقابی نگاہوں سے مگر وہ زیادہ دیر تک چھپے رہ سکتے ہیں نہ ان کی سرگرمیاں اکثر اوقات کامیابی کا منہ دیکھ سکتی ہیں۔

جنرل (ر) کیانی کے دور میں بھی یہ کوششیں کی گئیں کہ وہ بلوچ نوجوان جو بوجوہ مرکزِ گریز قوتوں اور گروہوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں، انھیں واپس قومی دھارے میں لایا جائے۔ ان کی تالیفِ قلب کے لیے بہت سے مثبت اقدامات بھی کیے گئے۔ جنرل راحیل شریف نے بھی اس تحریک کو جاری رکھا ہوا ہے۔ میجر جنرل محمد اعجاز شاہد نے یہ بھی بتایا تھا کہ پہلے ایف سی کی بھرتی میں بلوچ نوجوانوں کا چھ فیصد کوٹہ تھا مگر اب اسے پندرہ فیصد کر دیا گیا ہے۔ اگلے بیس برسوں کے دوران ایف سی میں بلوچ نوجوانوں کاکوٹہ پچاس فیصد ہو جائے گا۔ یہ خوشخبری بھی ہے اور راہ سے ہٹے بعض شکوہ سنج بلوچ نوجواں کے لیے اپنا مستقبل سنوارنے کا ایک زریں قومی قدم بھی۔

اعجاز شاہد کا یہ گلہ بجا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ہمارا میڈیا ان ناپسندیدہ عناصر اور کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کے بیانات پوری طرح شایع کر رہا ہے جو بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملے بھی کرتے ہیں اور پھر دھڑلے سے ان کی ذمے داری بھی قبول کرتے ہیں۔ یہ شکوہ اب بھی، ایک سال گزرنے کے باوجود، اپنی جگہ بدستور قائم ہے۔ مثلاً گزشتہ ایام میں ایک این جی او نے بلوچستان کے حوالے سے ہماری سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کو بدنام کرنے کے لیے لاہور اور اسلام آباد میں اودھم مچایا اور اس دھما چوکڑی کو ہمارے میڈیا کے کچھ حصوں نے بھرپور کوریج دی۔ اسے صحافتی آزادی یا اظہارِ آزادی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

یہ تو اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی سر پر خاک ڈالنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان کے الجھے ہوئے سیاسی معاملات کو سیاسی انداز و اطوار ہی سے سلجھایا جانا چاہیے۔ گولی کی زبان ہمیشہ اور ہرجگہ مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی۔ شاکی اور برہم بلوچ نوجوانوں کو رہنمائی اور قومی قیادت کی طرف سے توجہ کی ضرورت ہے۔ یہی زخموں کا اندمال ہے اور اسی سے امن و تعاون کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کیا جا سکتا ہے۔ کندھے پر رکھا محبت بھرا ہاتھ ہی دستِ فاتح عالم بنتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔