’کم جوان دی موت‘

اگر مستقبل میں اِس ملک کے لیے کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تو اپنی ذات سے تبدیلی کا آغاز کرئیے۔


تفہیم سحر June 22, 2015
ہم انتہا پسند رویے سے اُسی وقت چھٹکارا پاسکتے ہیں جب خود اپنی انا کے خول سے باہر نکلیں۔

ہمارے ہاں اگر کوئی بھی شخص معاشرے میں 'کچھ نیا' متعارف کرانے کی کوشش کرے، چاہے وہ نئی فکر سے لے کر کیبل ٹی وی یا انٹرنیٹ تک کی کوئی بھی چیز ہو، کوئی شخص روایتی طریقوں سے ہٹ کر پرفارم کرنا چاہے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ فتووں کے حملوں سے محفوظ رہے۔ فتوے مولویانہ بھی ہوسکتے ہیں اور غیر مولویانہ بھی۔ مثلاً اول الذکر میں آپ مترد، بدعتی اور کافر قرار دیے جائیں گے اور ثانی الذکر میں بھارتی، امریکی اور اسرائیلی ایجنٹ آپ کا عہدہ قرار پائے گا۔



اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب جو آپ پر اس قسم کے فتوے لگائیں گے اُن میں سے 90 فیصد لوگوں نے آپ کو ایک چھٹانک بھی مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔ صرف سُنی سنائی پر آپ مرتد سے لیکر غیر ملکی ایجنٹ تک سب قرار پائیں گے۔ اگر آپ معاشرے میں کچھ نیا کرنا چائیں گے تو دفتر کے چپڑاسی سے لے کر وزیر تک سب آپ کے دشمن ہوجائیں گے۔ آپ کے کھاتے میں وہ قرض بھی لکھ دیے جاتے ہیں جو آپ پر کبھی واجب ہی نہ تھے۔ آپ سیاست میں عمران خان، طاہر القادری سے لے کر شہباز شریف تک کی کارکردگی کا مطالعہ کرلیں۔ فکر میں حسن نثار اور جاوید غامد سے لے کر جاوید چوہدری اور اوریامقبول جان سب کا جائزہ لے لیں۔ آپ کو صحافت سے جڑے لوگ صرف تب تک پسند آئیں گے جب تک وہ آپ کی سیاسی پارٹی، آپ کے فرقے کے حق میں لکھتے رہیں گے۔ جس دن اُن کا قلم پھسلا، اُسی دن وہ لفافہ صحافی سے لے کر مرتد و ایجنٹ قرار پائیں گے۔

https://twitter.com/lefafa_sahafat/status/511123328250032128

اب آتے ہیں سیاست کی طرف، اُن لوگوں پر تب بالکل بھی تنقید نہیں ہوتی جب عمران خان کی سیاست صرف اسمبلی فلور میں تقریر تک محدود تھی۔ عمران خان جیسے ہی تبدیلی کا نعرہ لیے گلیوں میں نکلے تو اُنہیں یہودی ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ شہاز شریف تب تک بالکل ٹھیک تھے جب تک قائم علی شاہ کی طرح صرف وزیراعلی ہاوس تک محدود تھے لیکن جیسے ہی یہ میٹرو بنانے کے لیے باہر نکلے ظالم اور سرمایہ دار بن گئے۔ حالانکہ جن باتوں کے لیے اُن پر تنقید ہونی چاہیے مجال ہے اُس معاملے پر کوئی تنقید کرے۔ میٹرو پر یہ تنقید تو ہونی چاہیے کہ دنیا میں اِس طرح کے پراجیکٹ 10 ارب میں مکمل ہوتا ہے تو پنجاب میں 70 ارب میں کیوں پایہ تکمیل تک پہنچا، لیکن اِس حوالے سے کوئی تنقید نہیں کرے گا کیونکہ اِس حوالے سے تنقید کرنے کے لیے پوری دنیا کے میٹرو پروجیکٹس کی فزیبیلٹی رپورٹ کو پڑھنا جو پڑے گا۔

https://twitter.com/mrcruizy/status/607142760085258242

دوسری بات یہ کہ اِس طرح کی تنقید کے لیے پہلے پاکستانی مارکیٹ کے حساب سے خود کو فزیبیلٹی رپورٹ مرتب کرنا پڑے گی، پھر عدالت میں چیلنج کرنا ہوگا، پھر کہیں جاکر اِس قابل ہوں گے کہ سوشل میڈیا اور ٹاک شوز میں کرپشن کے الزامات لگاتے اچھے لگیں، لیکن اتنا کام کوں کرے؟ ہمارے بابا جی اکثر کہتے تھے کہ ''کم جوان دی موت''، اور شاید وہ ٹھیک ہی کہتے تھے۔ ہم اِس انتہا پسند رویے سے اُس وقت چھٹکارا پاسکتے ہیں جب خود اپنی انا کے خول سے باہر نکلیں۔ لوگوں کو ایجنٹ و مرتد قرار دینا بند کریں۔ میری تمام ان دوستوں سے درخواست ہے جو خود کو 'انقلابی' کہلواتے ہیں اور مستقبل میں اِس ملک کے لیے کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تو آئیے اپنی ذات سے شروع کرتے ہیں۔ آج سے ہم کسی کو کافر و ایجنٹ قرار دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں گے کہ ہمارے ذمہ جو کام تھا کیا وہ پورے ہوگئے؟

ایسا کرنے سے یقینی طور پر آپ خود مستقبل میں فتووں سے بچ سکتے ہیں۔

[poll id="497"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

مقبول خبریں