ہمدردی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 23 جون 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

جب بھی کوئی کسی سے ہمدردی کرتا ہے تو اس موقعے پر بولا جاتا ہے کہ تم نے تو ہمدرد کا دواخانہ کھول رکھا ہے، کبھی کسی سے جان چھڑانے کے لیے بھی یہ جملہ کہا جاتا ہے کہ ’ بھئی میں نے کوئی ہمدرد کا دواخانہ تو نہیں کھول رکھا ہے؟‘ حکیم محمد سعید شہید کی خدمات کا ہر کوئی معترف ہے شاید یہ جملے یا اصطلاحات ،ان کی خدمات کی وجہ سے ہمارے ہاں رائج ہوگئی ہیں۔

بلا شبہ ہمدردی ایک بہت اچھی بات ہے اور ہم سب کو ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا بھی چاہیے مگر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ہمدردی کے نام پر ہم نے اپنے معاشرے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ قانون کا احترام اور ایک دوسرے کے حقوق تک بالائے طاق رکھ دیے گئے ہیں۔

کراچی جیسے بڑے شہر کے زیادہ تر مسائل کی جڑ بھی ایسی ہی ہمدردیاں ہیں جن کے باعث نہ صرف قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے بلکہ ہم سب نے اپنی زندگی عذاب ہی بنا ڈالی ہے۔یہ ایک چھوٹی سے بات ہے کہ آپ کسی کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں مگر ساتھ میں قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اور یوں قانون کی خلاف ورزی پر لاقانونیت کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ہم ایک دوسرے کو الزام دینے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوتا ہے آئیے غورکریں۔

کراچی شہرکا ایک اہم مسئلہ ٹریفک جام کا ہے ، پہلے ہم سڑکوں کی تنگی کا رونا روتے تھے، لیکن اب تو کراچی کی کم ازکم تمام مرکزی شاہراہیں نہایت کشادہ ہوچکی ہیں، پھر کیوں ٹریفک جام ہوتا ہے؟ غورکریں تو معلوم ہوگا کہ کسی بھی شاہراہ پر پہلے کسی دکاندار نے اپنا سامان لاکر باہر تک رکھا ہوا ہے، اس کے بعد کسی نے کوئی ٹھییا، یا تخت لگا کر سامان فروخت کے لیے رکھا ہوا ہے، اس کے بعد بڑی گاڑیاں پارک کی جارہی ہیں، پھر موٹر سائیکل بھی کھڑی کی جاتی ہیں اس کے بعد کوئی رکشے والا سواری کا انتظار کررہا ہے سب سے آخر میں چلتی ہوئی بس جہاں چاہے رک کر مسافروں کو سوارکر رہی ہے۔

باقی بچ جانے والی ’ پتلی دبلی‘ سڑک پر بے چارے شہری سفر کر رہے ہیں ان میں بھی چند ایک بے صبرے شہری غلط ڈرائیوکرتے ہوئے آگے نکلنے کی کو شش کرتے ہیں۔بتائیے ٹریفک جام نہیں ہوگا تو کیا ہوگا ؟ اب اگر آپ دکاندار سے شکوہ کریں کہ بھئی آپ نے سامان اپنی دکان کے باہر کیوں سجا رکھا ہے؟ تو وہ جواب دے گا کہ لاکھوں کی دکان ہے ، پھر اپنی ہی دکان کے آگے رکھنا کون سا جرم ہے؟

اب اگر ان سب کے خلاف کارروائی کرکے ہٹانے کی بات کی جائے تو یہ جملے سننے کو ملیں گے ’’غریب آدمی کا ٹھیا ہٹا کر اسے بے روزگار کردیا گیا، ٹریفک پولیس غریب سوزوکی والے کی گاڑی اٹھا کر لے گئی یا غریب بس ڈرائیورکا چالان کردیا وہ بچارہ تو مسافروں کو بٹھا رہا تھا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ، غرض سڑک اور فٹ پاتھ کے غلط استعمال کرنے والوں کی ہم مذمت نہیں کریں گے۔

لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس عمل سے صرف ٹریفک نہیں جام ہو رہا ہے بلکہ فائر ٹینڈر اور ایمبولینس تک کو راستہ نہیں ملتا نتیجے میں ایک نہیں کئی جانیں چلی جاتی ہیں، یوں کسی بلڈنگ کی گیلری میں کوئی جان بچانے کے لیے لٹکا ہوا ہو کوئی فرد ہو یا کسی جلتی فیکٹری کے اندر پھنسے ملازمین مدد کو چلا رہے ہوں، ان کی مدد کو آنے والی ریسکیو ٹیمیں راستہ کلیئر نہ ملنے کے باعث اتنی دیر سے پہنچتی ہیں کہ ان کی امداد کی پھر ضرورت ہی نہیں رہتی، کیا ایسا کئی بار نہیں ہوا؟ ہمدردی کا یہ دواخانہ یہی ختم نہیں ہوتا، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں قانون کو توڑنا ہو تو بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ’جناب یہ غریب آدمی ہے، یا اس کی فلاں ضرورت ہے یا یہ بڑا مجبور ہے یا اس کا بیٹیوں کا ساتھ ہے۔ وغیرہ وغیرہ

ایسے مناظر بھی اب دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جب مرکزی شاہراہ اور بازار میں کھلا پٹرول فروخت کرنے والا فٹ پاتھ تو دورکی بات سڑک کے کنارے سے بھی آگے آکر پٹرول کے ڈبے کسی اسٹول پر رکھ کر فروخت کر رہا ہوتا ہے۔ رکشے والے کولڈ ڈرنک کی خالی بوتل میں پٹرول بھرکر اپنی نشست کے پیچھے لٹکا لیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وہی سے پٹرول پائپ لگاکر رکشہ چلاتے ہیں، اس قسم کے معاملات سے سنگین حادثات ہوسکتے ہیں۔

فٹ پاتھ تو ایک طویل عرصے سے کراچی کے شہریوں کے استعمال کے قابل نہیں رہے، کہیں کوئی اشیاء فروخت کرنے والا تو کہیں موٹر سائیکل کی پارکنگ ہے۔ رمضان وعید پر چھوٹی بڑی شاہراہوں پر اسٹالز لگا کر آدھی سے زائد سڑک بند کردی جاتی ہے جس سے گلی محلے تک میں ٹریفک جام ہونے لگا ہے، بقرعید پرگھاس فروخت کرنے والوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے۔

ہمارے ایک سنیئر ساتھی کا کہنا ہے کہ بسا اوقات ایسا ہی کچھ ایک چپڑاسی سے لے کر ایک استادکی تقرری میں بھی نظرآتا ہے ۔ہمارے ایک استاد ساتھی کا یہ کہنا ہے کہ جب کوئی طالب علم فیل ہوجائے تو اس قسم کی بھی سفارشیں آتی ہیں کہ اس کی والدہ بیمار ہیں، اس کی شادی ہونے والی ہے، اس کی نوکری کا سوال ہے، اس کا پروموشن رکا ہوا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

راقم نے جو یہاں صورتحال بتائی ہے بحیثیت ایک شہری ہم سب اس سے واقف ہیں، اس قسم کی تمام ہمدردیاں خالصتاً ہمدردیاں بھی ہوتی ہیں اور لوگ ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لیے بھی یہ بہانے بناتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کیا ہم اس طرح اپنے لیے ہی مسائل پیدا نہیں کر رہے ہیں؟

آخر ہم کسی کے ساتھ قانون اور نظم و ضبط کے ساتھ بھی تو ہمدردی کرسکتے ہیں، کیا کسی کی مدد کے لیے قانون اور نظم وضبط کو متاثرکرنا ضروری ہے؟ ہم خود اپنے لیے ہی اذیت پیدا کرتے ہیں اور پھر اس ملک، حکمرانوں اورمعاشرے کو برا بھلا کہتے ہیں، معاشرہ تو ہم سے بنتا ہے، اگر ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر غوروفکرکرلیں تو بہت سی ان پریشانیوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں جو کسی اور نے نہیں ہم نے خود اپنے اوپر لاکھڑی کی ہوئی ہے۔

بات تو چھوٹی سی ہے مگر آئیے غور کریں یہ ہمیں کس قدر پریشان کررہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔