ریاکاری کو کچل دو

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 23 جون 2015

نطشے نے کہا تھا ہنستے ہوئے شیر ضرور آئیں گے تو والیٹر آیا۔ اور اس نے بہت سی چیزیں غارت کر کے رکھ دیں۔ بات یہ ہے کہ ان دنوں ایک وسیع معاشی اور سیاسی تغیر واقع ہو رہا تھا حکومت بڑے بڑے امیر جاگیرداروں کے ہاتھ سے نکل کر متوسط درجے کے لوگوں کے ہاتھوں میں آ رہی تھی۔ والیٹر اور روسو اس عمل تغیر کے ترجمان تھے اور نقیب بھی۔

جب ترقی کرنے والی جماعت کسی قانونی یا رواج کے ہاتھوں تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ رواج پر خاک ڈالو یہ دیکھو کہ عقل کا تقاضہ کیا ہے قانون کو بھاڑ میں جھونکو دیکھو کہ فطرت کیا کہتی ہے۔ انقلاب عظیم کے نمودار ہونے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ پرانے رسوم و رواج کمزور کر دیے جائیں احساس اور فکر کو جلا دی جائے اور ان کا احیا کیا جائے اور ذہن انسانی کو نئے تجربوں اور تغیرات کے لیے تیار کیا جائے۔

جب شہنشاہ لوئی شانزدہم نے زنداں میں والیٹر اور روسو کی تصانیف دیکھیں تو کہا ان دو آدمیوں نے فرانس کو برباد کر دیا۔ والیٹر نے فرانس کے لوگوں میں یہ احساس پیدا کر دیا اور جب کوئی قوم ایک بار فکر کرنا شروع کر دے تو پھر اس عمل کو روکنا ناممکن ہے۔ والیٹر کو کسی دوست نے لکھا کہ ہوش کے ناخن لو خواہ مخواہ جان کیوں دیتے ہو۔

اس کے جوا ب میں اس نے لکھا آپ پھانسی پر چڑھنا پسند نہیں کرتے تو خیر یہ اور بات ہے لیکن دوسروں کو اس کام سے کیوں روکتے ہو۔ اس نے کہا تھا ہمیں خود اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے اپنی ہی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے، ہمیں اپنی بصیرت و بصارت ہی سے وہ کام لینا چاہیے جو لوگ کاہنوں، دیوتاؤں کے سہاروں سے لیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ تاریخ سے بات ثابت کی جا سکتی ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ ایسی تاریخ لکھوں جس میں لڑائیوں کا ذکر نہ ہو بلکہ معاشرے سے بحث ہو۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ذہن انسان کی تاریخ مرتب کی جائے مجھے امرا، شرفاء، بادشاہوں کی سوانح حیات سے کوئی بھی بحث نہیں۔ میں ان منازل اور مراحل سے بحث کر نا چاہتا ہوں، جن سے گزر کر ذہن انسانی بربریت سے تہذیب تک پہنچا ہے، بقول کسے والیٹر کی تالیف موجودہ علم تاریخ کی بنیاد ہے، والیٹر کے نزدیک تاریخ کا مقصد نسل انسانی کو جسمانی، ذہنی اور اخلاقی طور پر آزاد کر وانا ہے اس آزادی اور اس نجات کو حاصل کرنے کا واحد ہتھیار انسانی عقل ہے۔

وہ کہتا تھا کہ عوام کی آواز خدا کی آواز ہے وہ کہتا ہے کہ جب تم انسانوں کو بیلوں کی طرح ہانکتے ہو تو ہر شے سے محروم ہو جاتے ہو جلد یا بدیر وہ تمہیں اپنے سینگوں سے چھید ڈالیں گے اس کی عملی زندگی کی ابتدائی حصے کا ما ٹو یہ رہا تھا کہ ہنسو اور ہنسنے دو۔ بعد میں اس نے یہ پرانا ماٹو بدل دیا اور جو اپنایا وہ یہ تھا کہ سوچو اور سو چنے دو۔ اس نے کہا تھا کہ میرا مسلک یہ ہے کہ ریا کاری کو کچل دو۔ اس نے کلیسا اور اہل کلیسا کی بدعنوانیوں کا ذکر اس انداز سے کیا کہ فرانس کے لوگوں کے دل کانپ گئے۔

اس نے وہ عملی آتش فشانی کی جس کے شعلوں میں جبے اور عصا جل کر خاک ہو گئے۔ اس نے فرانس کے پادریوں کی کمر توڑ دی اس نے اپنے دوستوں ڈیڈیرو، والیمبار کو آواز دی اور انہیں للکار کر کہا آؤ مل کر کام کریں اور مذہبی دیوانوں اور بدمعاشوں کو مار کے گرا دیں۔

لوگوں کو مذہبی جنونیوں کا غلام نہ بننے دو آنے والی نسل کی آزادی اور عقلی ترقی کے ہم ہی تو ضامن ہیں، اس نے کہا کہ تمام قوموں کو تعصب توہمات، جہالت اور مذہبی انتہا پسندی کی بیماریاں گھن کی طرح کھائے جا رہی ہیں۔ عوام ان مضحکہ خیز اور مہلک فسادات کے ذمے دار نہیں یہ خوفناک مصائب عوام کی تخلیق نہیں بلکہ ان جھگڑوں کا موجب مذہبی جنونی ہیں۔ جو عوام کا خون چو س کر خود عیش و عشرت کی بے مصرف زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان مذہبی ٹھیکیداروں کا مقصد یہ نہ تھا کہ تم خدا کا خوف کر و بلکہ ان کا منشا تو یہ تھا کہ تم ان سے ڈرتے رہو۔

آج صدیوں بعد پاکستان کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے، اس میں مذہبی انتہا پسندی سرفہرست ہے مذہبی انتہا پسندی محض ایک عمل یا کارروائیوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ ہے جو پاکستانی معاشرے میں آہستہ آہستہ سرایت کر رہی ہے جو خودکش بم دھماکوں کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کی ثقافت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی اسلامی عمل ہے کہ بے گناہ لوگوں، معصوم بچوں اور عورتوں کو بموں سے اڑا دیا جائے اور نہ ہی کسی کو اس بات کا حق ہونا چاہیے کہ وہ بندوق لے کر اپنے نظریات سب پر تھوپ دے۔

ماضی میں روشن خیالی کا نعرہ اس لیے ناکام ہوا کہ ملک میں انتہاپسندی کے خلاف کوئی نظریاتی جنگ نہیں لڑی گئی بلکہ سارا زور اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے تھا۔ ملک میں انتہا پسندی کا مسئلہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے، قوم کو متحد کر کے ہی انتہاپسندی سے نمٹا جا سکتا ہے اور ہمیں والیٹر کی طرح مذہبی جنونیوں کو للکارنا ہو گا۔ پوری قوم کو اب انتہا پسندی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا، اس کے علاوہ ہمارے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ آئیں ہم مل کر ریاکاری کو کچل دیں، توہمات اور فساد معاشرت کے خلاف ایسا شدید اور موثر محاذ قائم کریں کہ ملک پاک ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔