پاکستان کا پریشان کن سیاسی منظر نامہ

مقتدا منصور  جمعرات 25 جون 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ملک میں جیسے جیسے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے جس رفتار سے سندھ میں رینجرز کا دائرہ کار بڑھ  رہا ہے، اسی رفتار سے سندھ حکومت پر دبائو اور وفاقی حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے ، اگر سندھ حکومت کو اپنا چل چلائو نظر آرہا ہے، تو وفاقی حکومت کو اگلا ہاتھ اپنے گریبان پر محسوس ہو رہا ہے۔

ادھر بابائے مفاہمت کی تلخ و شیریں تقریر نے سیاسی فضاء کو نہ صرف گرما دیا ہے، بلکہ سیاسی تقطیب (Polarization) کو بھی واضح کر دیا۔ اب9ہزار6 سو ایکڑ زمین کا تحفہ یا عطیہ دے کر درجہ حرارت اور تلخیوں میں مزید اضافے سے بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن کھیل بہرحال جاری رہنے کا امکان ہے۔حالات کس سمت میں جا رہے ہیںاور کہاں پہنچ کر رکیں گے، اس کا اندازہ تو سبھی کو ہے ، مگر منہ کھولنے پر کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔

وطن عزیز میں چونکہ اقتدار و اختیار کے درمیان فرق کو سمجھنے کا کوئی تصور نہیں ہے، اس لیے ان کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنے کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔ اس لیے ادارہ جاتی اختیارات سے تجاوز کرنے اور حاصل مینڈیٹ کے غلط استعمال کی روایت خاصی پرانی ہوچکی ہے۔ معاملہ صرف ریاستی اداروں تک محدود نہیں ہے، سیاسی قوتیں بھی اپنے حاصل شدہ مینڈیٹ سے تجاوز کی طویل تاریخ رکھتی ہیں۔

چوہدری خلیق الزماں اپنی سوانح میں لکھتے ہیں کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کو اس وقت کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کا فون آیا کہ کل صبح دس بجے گورنر جنرل صاحب نے یاد فرمایا ہے۔ گزشتہ روز جب وزیراعظم گورنر جنرل ہائوس پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ ملک غلام محمد کو ملک کا وزیر خزانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن سے آج حلف لیا جائے گا۔ دنیا کی پارلیمانی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ تھا کیونکہ پارلیمانی جمہوریت میں اپنے وزراء کا انتخاب وزیر اعظم کرتا ہے جن سے حلف صدر(یاگورنرجنرل) لیتا ہے۔

دوسرا مسئلہ جس نے ریاست کے منطقی جواز کو مضحکہ خیز بنا دیا ہے، وہ وفاقیت کے اس اصول سے مسلسل انحراف ہے، جو پاکستانی ریاست کے قیام کی آئینی و قانونی بنیاد ہے۔ اس تصور سے انحراف کی بدترین مثال پیرٹی کا اصول تھی جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔اس اصول کے ذریعے ایک طرف ایک صوبے کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ جب کہ دوسری طرف مغربی حصے کے چار وفاقی یونٹوں کا انضمام کر کے ان کی تاریخ، ثقافت اور لسانی شناخت پر شب خون مارا گیا۔

یوں پاکستان میں اقتدار اعلیٰ کی جانب سے ان صوبوں کے استحصال کی بنیاد رکھی گئی، جن کی اسٹبلشمنٹ میں نمایندگی کم تھی یا نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہی سبب تھا کہ چھوٹے صوبے روز اول ہی سے ریاستی استحصال کا شکار رہے ہیں۔ پختونخوا اس بدترین استحصال سے کسی حد تک اس لیے بچا رہا کیونکہ اس کی اسٹبلشمنٹ میں تھوڑی بہت نمایندگی ہے۔ اردو بولنے والی کمیونٹی بھی1960 کے عشرے تک اس امتیازی سلوک سے بچی رہی ، کیونکہ اس کی سول بیوروکریسی میں نمایندگی تھی۔

اسی طرح اقتدار اعلیٰ پر قابض تینوں آمروں (ایوب، ضیاء اور مشرف) نے کبھی نیا آئین بنا کر اور کبھی موجود آئین میں من مانی تبدیلیاں، ملک کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کو پارلیمانی سے صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جب بھی موقع ملا ، انھوں نے پارلیمانی طرز جمہوریت کو بحال ضرور کیا۔

مگر عملاً اقتدار کی مرکزیت کو ختم کرنے میں اس  لیے کامیاب نہیں ہوسکیں، کیونکہ ان کے اپنے اندر موجود فیوڈل اور قبائلیMindset انھیں اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت سے روکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہوس اقتدار بھی انھیں بعض اہم تاریخی حقائق کو جھٹلانے پر مجبور کرتا  ہے۔ نتیجتاً اقتدار اعلیٰ میں مختلف نوعیت کے تنازعات کا پیدا ہونا اور ان کا گہرا ہونا حیرت کی بات نہیں ہے۔

درج بالا جائزے  کے تناظر میں کراچی میں22ماہ سے جاری دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے پوشیدہ حقائق سامنے آتے ہیں۔ اول، کراچی میں آپریشن کا خیال کسی اور حکومت کو کیوں نہیں آتا، صرف مسلم لیگ ن کی قیادت ہی اس حوالے سے کیوں پریشان ہوتی ہے؟ دوئم، جب بھی وہ اقتدار میں آتی  ہے، کبھی فوجی عدالتیں قائم کرتی ہے اور کبھی ایسے قوانین منظور کرانے کی کوشش کرتی ہے، جن سے اقتدار و اختیار کی مضبوط مرکزیت قائم ہو۔ سوئم، حالات و واقعات کی نزاکتوں کو سمجھنے کے بجائے ایسے اقدامات کر گذرتی ہے۔

جو ان کی اپنی حکومت اور جمہوریت کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔ ستمبر 2013ء میں جب کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا، تو راقم سمیت کراچی کے کئی سینئر صحافیوں نے اس کے طریقہ کار پر اپنے تحفظات کا اظہارکیا اورآج تک کر رہے ہیں اور جس مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا وعدہ خود وزیر اعظم نے کیا تھا اور جس کا وفاقی وزیر داخلہ نے بار بار اعادہ کیا۔ دو برس ہونے کو آئے ہیں،اس کمیٹی کے قیام سے مسلسل مختلف حیلوں بہانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ یہ طرز عمل حکومت کی نیت کے بارے میں شکوک وشبہات کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔

سندھ کے عوام دہشت گردی ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں نمایاں کمی پر مطمئن ہیں۔ ان کی اکثریت اس انکشاف کو بھی غلط نہیں سمجھتی کہ سیاسی جماعتوں میں جرائم پیشہ افراد پائے جاتے ہیں۔ وہ جرائم پیشہ عناصر اور مافیائوں کے قلع قمع کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن جس انداز میں یہ آپریشن جاری ہے، اس سے اس کے مقاصد کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔

سندھ کے عوام کا خیال ہے کہ ’’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘ کے مصداق وفاقی حکومت کی حالیہ کارروائیوں کا اصل مقصد کراچی کے عوام کو ریلیف دلانا نہیں، بلکہ سوداگروں کے ایک مخصوص ٹولے کے شہر کے وسائل پر قبضہ کو یقینی بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی آڑ میںصوبے کی دونوں نمایندہ سیاسی جماعتوںکا میڈیا ٹرائل اور Political Victimization  کی جارہی ہے۔

اب جہاں تک سندھ میں گورننس اور بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں کا معاملہ ہے، تو اس میں دو رائے نہیں کہ پیپلز پارٹی کی موجود حکومت نااہلی کی تمام حدود پھلانگ چکی ہے۔ ساتھ ہی سندھ کی دونوں بڑی اور نمایندہ جماعتوں کے درمیان غیر سنجیدگی اور بدنیتی پر مبنی تعلقات بھی بری حکمرانی کو مہمیز لگانے کا ایک اہم سبب ہیں۔ اگر دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے، سندھ کے وسیع تر مفاد میں سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ تعاون کرتیں ، تو سندھ کے معاملات میں وفاقی حکومت کو مداخلت کی جرأت نہ ہوتی۔

مگر ان دونوں جماعتوں نے پچھلے پانچ برس لڑنے جھگڑنے میں ضایع کردیے۔ وقت اور حالات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کو ملک گیر سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس لیے اسے چاہیے کہ وہ اپنی سیاست کا محور صرف سندھ تک محدودکر لے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سندھی عوام اور سندھ کی سیاسی قوتوں کے ساتھ تعلقات کو ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنانے پر توجہ دے۔ اسے دیہی اور شہری کے فرق کے خاتمے کے لیے بھی سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ کیونکہ اب اربن سندھ میں صرف اردو بولنے والی ہی نہیں، سندھی اربن کلاس بھی موجود ہے۔

دوسرے پیپلز پارٹی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایم کیو ایم 1988 سے ان نشستوں پر کامیابی حاصل کررہی ہے، جو 1970 سے آج تک پیپلز پارٹی کا حلقہ انتخاب نہیں رہی ہیں۔ یہ نشستیں اس نے مذہبی جماعتوں سے چھینی ہیں، جو 1970 اور1977 میں مناسب لبرل امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب ہوگئی تھیں۔ اگر 1970 کے عام انتخابات میں معراج محمد خان اور ڈاکٹر شمیم زین الدین خان لودھی لیاقت آباد اور ناظم آباد کی نشستوں کے لیے ملنے والے ٹکٹوں کو نہ ٹھکراتے تو کم ازکم یہ دونوں نشستیں کسی مذہبی جماعت کو کبھی نہ مل پاتیں۔

اس کے علاوہ ان دونوں جماعتوں کو اس حقیقت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ سندھ کے وسائل پر مختلف حلقوں کی نظریں جمی ہوئی ہوئی ہیں جو سندھ کے مستقل باسیوں کے باہمی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر ان کے وسائل پر قابض ہونے کے حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ اور سندھی عوام کے وسیع تر مفاد میں سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں، تو سندھ ملک کا خوشحال ترین صوبہ بن سکتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق کو صوبوں کے معاملات میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرنا چاہیے، جب تک کہ وہ صوبہ وفاق سے درخواست نہ کرے۔ جرائم پر قابو پانا اور اس کی بیخ کنی کے لیے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کی ہر ممکن مدد کرنا چاہیے۔ مگر اپنے فیصلے صوبائی حکومت پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ لوگ یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ وہ وفاقی حکومت جو بڑے صوبے میں کالعدم تنظیموں اور بڑے جرائم پیشہ گروہوں کی موجودگی سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی نظر عنایت صرف سندھ پر کیوں مرکوزکیے ہوئے ہے؟

لہٰذا غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے ان تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہونا چاہیے، جو ملک میں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کا باعث ہیں اور جن کی محفوظ پناہ گاہیں پنجاب میں موجود ہیں۔ اگر وفاقی حکومت دیانت داری کے ساتھ شدت پسندی، دہشت گردی اور جرائم کا خاتمہ چاہتی ہے، تو پہل اپنے صوبے سے کرنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔