عشق عبادت سے عشق کمینہ تک

شاہ فیصل نعیم  ہفتہ 27 جون 2015
پہلےعشق عبادت سمجھ کر کیا جاتا تھا اور عاشق کی ساری عمر کی کمائی یار کی ایک جھلک ہوتی۔ فوٹو: فائل

پہلےعشق عبادت سمجھ کر کیا جاتا تھا اور عاشق کی ساری عمر کی کمائی یار کی ایک جھلک ہوتی۔ فوٹو: فائل

یہ لق ودق صحرا کا منظر ہے وہ دور کہیں ریگستانی جہاز کے کھڑے ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔ اُس کے پہلو میں ہونے والی حرکات و سکنات سے انسانی زندگی کی موجودگی کا پتا ملتا ہے۔ نگاہیں اس منظر کا تعاقب کرتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسافر ہے جو خدا کے حضور سر تسلیم خم کیے کھڑا ہے۔ اس منظر سے کچھ فاصلے پر ایک اور منظر دکھائی دیتا ہے۔

بالوں میں ریت، چہرے پر جمی گرد کی تہیں، پیاس کی شدت سے لٹکتے ہوئے ہونٹ، جگہ جگہ سے پھٹا بوری نما لباس، پاؤں میں آبلے اور آنکھوں میں ایک ناختم ہونے والی کھوج  لیے گرتا سنبھلتا ہوا ایک شخص اُونٹ کے پاس نماز پڑھتے ہوئے شخص کی طرف بڑھ رہا ہے مگر وہ کسی کی تلاش میں اس قدر مستغرق ہے کہ اُسے پتا ہی نہیں چلتا کے وہ ایک نماز پڑھتے شخص کے سامنے سے گزر رہا ہے ۔۔۔ نماز پڑھنے والا نماز چھوڑ کر اُس مجنون سے شخص کو رُوکتا ہے اور پوچھتا ہے؛

’’تمہیں نظر نہیں آتا میں نماز پڑھ رہا ہوں اور تم آگے سے گزر رہے ہو‘‘؟

صحر انوردیہ الفاظ کہتا ہے اور نمازی کی سوچوں میں طوفان برپا کرتے ہوئے چلا جاتا ہے؛

’’کتنی عجیب بات ہے نا ۔۔۔۔ میں ایک عورت کی تلاش میں اس قدر کھویا ہوا ہوں کہ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ  اس صحرا میں کوئی اور بھی موجود ہے ۔۔۔۔ اور تم اس کائنات کو وجود دینے والے خالق کے حضور کھڑے ہو اور تمہاری اُس سے وابستگی کاعالم یہ کہ تم آنے جانے اور سامنے سے گزرنے والوں کا دھیان رکھ رہے ہو‘‘۔

حسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو

کوئی پتھر سے نا مارے میرے دیوانے کو

مولانا روم عاشق کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک عاشق عشق کی مشق سے فراغت پانے اور پیکرِ عجز و نیاز بننے کے بعد جب درِیار پر دستک دیتا ہے تو اندرسےآواز آتی ہے؛

’’کون‘‘؟

باہر سے جواب ملتا ہے؛

’’میں‘‘!

اندرسے بھی ایک جواب ملتا ہے؛

’’لوٹ جاؤ۔۔۔۔ تم وصال کی منزل کو نہیں پاسکتے ۔۔۔۔ تم میں ابھی انا باقی ہے ۔۔۔۔ جاؤ پہلے اسے مارو۔۔۔۔ پھر آنا اس در پر‘‘۔

عاشق لوٹ جاتا ہے پھر کئی سال تک عشق کی الکھ نگری میں بھٹکتا رہتا ہے ۔۔۔۔ اُس پر عشق جیسے راز کے پردے کھلتے جاتے ہیں ۔۔۔۔ پھر جب لوٹ کے آتا ہے اور درِیار کا سوالی بنتا ہے تو اُسے ہرطرف وہ ہی وہ نظر آتا ہے۔

یہ اُس وقت کی باتیں ہیں جب عشق عبادت سمجھ کر کیا جاتا تھا اور عاشق کی ساری عمر کی کمائی یار کی ایک جھلک ہوتی تھی۔ مگر آج کا عشق عبادت سے سفر کرتا ہوا کمینہ بن چکا ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی جذبہ ایسا ہو جو اِس قدر بدنام ہوا ہو۔ آج عشق کیسے ہوتا ہے اور عاشقوں کا کیا حال ہے اُس زمن میں کچھ واقعات یاد آگئے ہیں جو آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔

وہ میرا یار ہے، حرکتیں اُس کی یارماروالی ہیں، بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔۔۔۔ مگر یہ اب اُس کی عادت بن چکی ہے اور یہی یاروں میں اُس کی پہچان ہے۔ بڑا عاشق مزاج بندہ ہے ۔۔۔۔ اُس کا معشوقہ کس انتہا پر ہے اِس کا اندازہ اُس کی باتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔

ایک دن میرے ساتھ یونیورسٹی جارہا تھا تو بتانے لگا؛

’’شاہ جی! ہم نے کبھی غرور نہیں کیا، اللہ کا شکر ہے آج تک جس لڑکی پر بھی لائن ماری ہے اُسے پھر کسی اور جال میں پھنسنے نہیں دیا۔ یوں سمجھ لیں کہ وہ پھر یار کی ہو کر رہ گئی ہے‘‘۔

عاشقوں کی دوریاں مٹانے کے لیے قاصد کا کردار آج بھی اُتنا ہی اہم ہے جتنا ماضی میں ہوا کرتا تھا، مگر آج کے جدید دور میں اسے جدید خطوط پر استوار کردیا گیا ہے۔ پہلے پہل یہ کام کبوتروں سے لیا جاتا تھا ۔۔۔۔ پھر معشوق کے چھوٹے بہن بھائیوں اور سہلیوں کو یہ وراثت منتقل ہوئی، آج بھی کسی حد تک موخرالذکر ہی اس رسم کو نبھا رہے ہیں مگر آج ذرائع جدید ہیں ۔۔۔۔ سوشل میڈیا اس میں بہت معاون ثابت ہو رہا ہے۔

یہ پچھلے سال کی بات ہے ابھی گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئی تھیں ۔۔۔۔ ہم کچھ دوست ہاسٹلز کے ساتھ والی سڑک پر گھوم رہے تھے کہ کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا ۔۔۔۔ دو لڑکیاں جا رہی تھیں ۔۔۔۔ اُن میں سے ایک دوست فون پر کسی سے بات کررہی تھی ۔۔۔۔ اُس کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ یہی وہ عظیم ہستی ہے جو دو دلوں کو ملانے کا کام سرانجام دی رہی ہے ۔۔۔۔ اُس کے ساتھ چلتی اُس کی دوست کی اپنے آشنا سے کسی بات پر لڑائی ہوگئی تھی اور فون پر بات کرتی لڑکی ثالث کا کردار ادا کررہی تھی ۔۔۔۔ مگر کچھ بات بن نہیں رہی تھی، اُس کی ناراض دوست اس بات پر مصر تھی کہ

’’تم جو مرضی کرلو میں ۔۔۔۔ میں اُس وقت تک بات نہیں کروں گی جب تک یہ مجھے آئی لو یو نہیں کہتا‘‘۔

ہم دوست ان باتوں پر ہنستے ہوئے آگے نکل گئے، لیکن میرا دوست پلٹ کر دیکھ رہا تھا اور بتا رہا تھا؛

’’مبارک ہو یارو! لگتا ہے بی بی کی صلح ہوگئی ہے، شاید اِسی لیے اب وہ بات بھی کر رہی ہے اور مسکرا بھی رہی ہے‘‘۔

جاتے جاتے ایک واقعہ اور سنا دیتا ہوں۔

’’جڑیں مضبوط نہیں کھوکھلی ہو رہی ہیں‘‘۔ یہ وہ جملہ اُچھالتا ہوا میرے پاس سے گزر گیا۔ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ یہ اشارہ کس کی طرف ہے؟ پھر میری نظریں وہ دور کھڑے جوڑے پر ٹک گئیں کہ جن کی ادائیں اُن کے تعلق کا پتا دے رہی تھیں۔ دونوں عاشق و معشوق درخت کے نیچے کھڑے تھے، عاشق داستانِ غم سنا رہا تھا اور معشوق اُس کی صدائے عاشقانہ سے بے نیاز درخت کے پتوں سے محوِ شغل تھی۔ دو ایسے پریمی جن کو ہر راہ چلتے سے عشق لڑانے میں مزہ آتا ہے۔ یہ نہیں تو وہ سہی ۔۔۔۔ وہ نہیں تو کوئی اور سہی ۔۔۔۔ اس راہ کے مسافر تنہا رہنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔

مگر میری سوچوں کے زاوئیے ابھی ابتدائیہ جملے پر اٹکے ہوئے تھے اور پھر ایک لمبی کشمکش کے بعد میں اُس سے متفق ہوگیا۔ ہمارے معاشرے میں عام، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خاص کر پھیلنے والی یہ وبائے عشق کئی امراض کا پیش خیمہ ہے اور چشمِ ما روشن دل ماشاد اس ناسور کو اپنانے کی روش ۔۔۔۔ ہماری اخلاقی قدروں کو تباہ کرتے ہوئے ہمیں تباہی کی دلدل میں دھکیل چکی ہے اور ہم اسے سر آنکھوں پر سجائے  ہوئے ہیں۔ اسلام نے جو دائرہ مرد و زن کے لیے کھینچا ہے، اُسکے اندر رہنے میں ہی ہماری فلاح ہے۔ اس کے باہر قدم رکھتے ہی آپ تباہی کو اپنا ہم سفر پاؤگے۔ جو لوگوں کو دعوتِ گناہ دے رہی ہے۔ جس کی صدائے پیہم ہر دم کہہ رہی ہے آؤ لوگو آؤ ۔۔۔۔ میں بہت سی رنگینیوں کا لبالب بھرا ہوا خزانہ ہوں۔ آؤ مجھے سمیٹ لو، آؤ لوگو آؤ۔۔۔!

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔