ذکر جب چِھڑ گیا قیامت کا

انتظار حسین  جمعـء 26 جون 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کل صبح کی بات ہے۔ بارش کے ابھی کوئی آثار نہیں تھے۔ بجلی لوڈشیڈنگ کی رخصت پہ گئی ہوئی تھی۔ گرمی سے ہم بولائے ہوئے تھے۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ آصف فرخی بول رہے تھے۔ انتظار صاحب‘ کراچی میں تو جہنم آیا ہوا ہے۔

جہنم‘ ہم چکرائے‘ کونسا جہنم۔ کہا کہ دانتے والا جہنم۔ اس وقت تو بولائے ہوئے تھے۔ کوئی جواب بن نہیں پڑا۔ ورنہ کہتے کہ اس سے بڑھ کر ایک جہنم اور بھی گزرا ہے جس کا ذکر میر انیسؔ نے کر رکھا ہے۔ مگر خیر اس عزیز نے کراچی کا جو ابتر حال بیان کیا اس سے ہم واقعی کانپ اٹھے۔ اخباروں میں تو پڑھ رہے تھے اور پڑھ پڑھ کر حیران بھی ہو رہے تھے۔

گرمی بجا۔ اس پر لوڈشیڈنگ۔ ویسے بجلی جس طرح جاتی ہے خاص طور پر غریب غربا کے علاقوں میں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر کراچی میں اسے لوڈشیڈنگ کی اصطلاح کے سہارے سمجھا نہیں جا سکتا۔ ارے جب بجلی اس طرح سے جائے کہ پھر آنے کا نام ہی نہ لے اور ادھر سورج سوا نیزے پر ہو تو تصور کیجیے کہ غریبوں کا حال کیا ہوتا ہو گا۔ ارے ہم لاہور میں بیٹھ کر اس گرمی کا کیسے تصور کریں جہاں اس ظالم گرمی نے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔

اصل میں ہمارے حصے میں تو حیرانی ہی آئی ہے۔ حیرانی سی حیرانی۔ گرمی یہ قیامت بھی برپا کر سکتی ہے کہ گرمی کے ستم زدگان جلتے بھنتے جان سے گزرتے چلے جائیں۔ دسیوں‘ بیسیوں‘ پچاسیوں نہیں بلکہ سیکڑوں کے حساب سے۔ اور ہم حیران کہ دیکھتے دیکھتے چھ سو سات سو گرمی زدگان جان سے گزر گئے۔ اور جو شہر کے والی وارث ہیں وہ آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ لو ایک تن جلے اخبار نویس کی رپورٹ نظروں سے گزری۔ بتا رہا تھا کہ گرمی بہت تھی۔ اور گرمی تو اے سی میں آرام کرنے والوں کو بھی بہر حال لگتی ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب سو رہے تھے۔ بڑی مشکل سے ان تک یہ خبر پہنچائی گئی کہ شہر میں اب تک کتنے جنازے اٹھ چکے ہیں۔ لیجیے اس پر ایک شعر سن لیجیے؎

سوداؔ کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت
خدام ادب بولے‘ ابھی آنکھ لگی ہے

ارے بھائی یہ بندگی بیچارگی والا معاملہ ہے۔ ہم تو بس اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ جلے بھنے شعر سن کر اور سنا کر دل جلوں کو تھوڑی سی تسکین فراہم کر دیں۔ ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ اب تو خیر سے زمانہ بہت ترقی کر گیا ہے۔ بجلی کے پنکھے ہیں۔ اے سی ہے۔ پیاس بجھانے کے لیے جابجا اسٹالوں پر نئے مشروبات ہیں آئس کریم ہے۔ تب تو یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ غریبوں کے ہاتھوں میں دستی پنکھے ہوتے تھے۔

صاحب حیثیت لوگ گھروں میں خس کے پردوں کا اہتمام کر لیتے تھے۔ اور چھت میں آویزاں جھالر والے پنکھے۔ مگر لو تو اس زمانے میں بھی چلتی تھی۔ اور ان دوپہروں کی لو اب سے بڑھ کر ظالم ہوتی تھی۔ دیہاتی اس سے بچاؤ اس طرح کرتے تھے کہ پیاز کی گٹھی گرہ میں باندھ لیتے تھے۔ لو کا سب سے بڑا توڑ یہی تھا۔ پھر بھی کسی کو لو لگ جائے تو اسے پنا پلاؤ۔ یعنی ایک کچی امبیا لے کر گرم بھوبھل میں بھلساؤ۔ پھر صراحی کے ٹھنڈے پانی میں شکر ملا کر اسے گھولو اور گھونٹ گھونٹ لُو زدہ پیاسے کو پلاؤ پھر بھی لو سے اموات تو ہوتی تھیں۔

مگر اس بڑے پیمانے پر نہیں کہ نئے زمانے نے کتنی سہولتیں مہیا کی ہیں۔ مگر صرف ان کے لیے جو ان سہولیات کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ورنہ دھوپ اور لُو مل کر تمہارا وہی حال کرے گی جو کراچی میں کر رہی ہے۔

یہ کراچی عجب شہر ہے۔ پاکستان کے شہروں میں سب سے بڑھ کر یہ شہر ہے۔ مگر پاکستان کا سب سے بڑھ کر مصیبت زدہ شہر بھی یہی ہے۔ ملک میں جو بلا آتی ہے سب سے بڑھ کر اس شہر کو ستاتی ہے۔ یہ شہر کیا ہے اچھا خاصا خانہ انوریؔ ہے۔ اب یہ بتانا پڑے گا کہ خانہ انوریؔ کیا تھا۔ انوریؔ فارسی کے شاعروں میں شمار ہوتا تھا۔ مگر اسی حساب سے بڑی مصیبتوں میں گرفتار رہتا تھا۔ اس نے اپنا احوال یوں بیان کیا کہ اب تو آسمان سے جو بلا نازل ہوتی ہے وہ پہلے پوچھتی ہے کہ

خانۂ انوریؔ کُجا ست

انوریؔ کا گھر کدھر ہے اور جا کر اس پر ٹوٹ پڑتی ہے۔

مگر کراچی کا قصہ یہ ہے کہ بلائیں آسمان سے بعد میں نازل ہوتی ہیں۔ زمین والی بلاؤں کی اتنی بہتات ہے کہ پھر آسمانی بلاؤں نے بھی یہ گھر دیکھ لیا۔ اب اس شہر کے نام بلائیں ہی بلائیں ہیں۔ مگر کیوں اور کیسے۔ مگر کیوں۔ کیسے۔ فرد جرم میں کس کس کا نام لکھا ہوا ہے۔ لیجیے اب انیسؔ کا وہ شعر سن لیجیے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا تھا ؎

ساتوں جہنم آتش فرقت میں جلتے ہیں
شعلے تری تلاش میں باہر نکلتے ہیں

تو واقعی اس وقت تو شہر کا یہی نقشہ ہے کہ ایک دو نہیں‘ سات جہنم بھڑک رہے ہیں اور صرف بھڑک نہیں رہے بلکہ جیسے پوچھ رہے ہوں کہ ہمیں کس نے بھڑکایا ہے ع

شعلے تری تلاش میں باہر نکلتے ہیں
کس کی تلاش میں۔ شمر کی تلاش میں یا حرملہ کی تلاش میں یا سب سے بڑھ کر یزید کی تلاش میں۔ بوجھو تو جانیں۔ سوال یہ کھڑا ہونا ہی تھا کہ آخر اس شہر میں یہ کون لوگ ہیں اور کیا کیا گل کھلا رہے ہیں۔ مگر جیسے تلاش کرنے والے شعلوں نے پتہ لگا لیا ہو۔ کچھ عجب طرح سے گولر کاپیٹ پھٹا کہ کتنے راز یک دم سے طشت از بام ہو گئے۔
اس پر ایک تجزیہ نگار نے سارا تجزیہ کرنے کے بعد ٹکڑا لگایا کہ یوم حساب آ گیا ہے۔ کیا واقعی سچ مچ مگر پھر یوں بھی ہے کہ ایک مرتبہ ابلتی ہنڈیا سے ڈھکن اتر کر گر پڑے۔ پھر اس پر ڈھکن ڈالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے ؎

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔