سازشیں در سازشیں

اسلم خان  ہفتہ 27 جون 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

پارلیمان کوفوج کے سامنے کھڑاکرنے کا منصوبہ ناکام ہوگیا، بلوچستان میں باغیوں کی کمر ٹوٹ گئی، زرداری صاحب فوج کے خلاف شعلہ بیانی کے بعدسیاسی تنہائی کا شکار ہوکر دبئی سدھارچکے ہیں۔رینجرز کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور فشریز کوآپریٹو سوسائٹی کے دفاتر پر چھاپوں اور گرفتاریوں سے بلوچستان کے باغیوں کو اسلحے اور مالیاتی فنڈنگ کامحفوظ ذریعہ بند ہوگیا ہے۔

جناب وزیراعظم نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جناب زرداری سے ملاقات سے معذرت کرکے پانسہ پلٹ دیا‘اسی طرح مولانا فضل الرحمن اور چوہدری شجاعت حسین نے اپنے ’روایتی‘ تدبر، فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے جناب زرداری پر واضح کردیا کہ فوج اور اس کی قیادت کے خلاف توہین آمیز بیان کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

آصف زرداری کی تقریر کے اثرات ختم نہیں ہوگئے تھے کہ بی بی سی نے ایم کیو ایم کے بارے میں تہلکہ خیز رپورٹ جاری کرکے ایسی گرداُڑائی کہ جواب بیٹھنے کا نام نہیں لی رہی جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں اوپر سے نیچے تک ہر شعبے میں افراتفری پیدا کرکے معمول کی زندگی کو معطل کرنا ہے کہ ایسے صدمات سہتے سہتے ریاست پاکستان کا ڈھانچہ خاموشی سے زمین بوس (Implode)ہوجائے۔

ان تمام سازشوں کابنیادی ہدف افواج پاکستان ہیں جو پاکستان کے تمام دشمنوںکی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیںا ور بدقسمتی یہ ہے کہ مسلح افواج کواندرونی اوربیرونی محاذوں پر چومکھی لڑائی لڑنا پڑرہی ہے۔ پاکستان میں پارلیمان کی سربلندی، قانون کی حکمرانی جیسے بلندوبالا آدرشوں کے نام پر ہمارے نام نہاد روشن خیال عناصر اور نام نہادسول سوسائٹی مسلح افواج پر وار کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔

ایم کیو ایم کے بارے میں بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ میں کوئی چیزنئی نہیں ہے ۔ کراچی پولیس کے ایک متنازع افسر رائو انوار گذشتہ ہفتوں اسی طرح کے انکشافات کرچکے ہیں ۔ایم کیو ایم کی مخالفت کی شہرت رکھنے والے کراچی کے ایک روزنامے اورہفت روزہ میں اسی طرح کی بے شمار طوطا کہانیاں شایع ہوچکی ہیں ۔

بی بی سی کی اس رپورٹ کے ذریعے بھی دراصل پاکستان کی مسلح افواج کوہدف بنایا گیا ہے‘ اس رپورٹ کی آڑلے کر سوال اُٹھائے جارہے ہیں کہ جب ایم کیو ایم مبینہ طور پر بھارت سے بھاری رقوم اوراسلحہ لے کر اپنے کارکنوں کو تربیت کے لیے بھجوارہی تھی ‘اس دورانیے میں( 2000سے 2007)میں وہ اُس کے وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ شریک اقتدار تھی۔

12مئی 2007کا دن یہ کالم نگار کیسے بھلا سکتا ہے جب شاہراہ فیصل سمیت کراچی کے گلی کوچوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کوکراچی ائیر پورٹ پرعملاًقید کرکے باہر نکلنے نہیں دیاگیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے احکامات کوہوا میں اُڑا دیا گیا۔ 12مئی کی اسی شام جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک عوامی اجتماع میں فاتحانہ مکے لہرائے تھے اگر اس دوانئے میں ایم کیو ایم کی قیادت بھارت سے مبینہ گٹھ جوڑ میں تھی تو پھر جنرل پرویز مشرف کوایم کیو ایم کے شریک کار قرارکیوں نہیں دیا جائے گا۔

جنرل مشرف کوجناب وزیراعظم نواز شریف وسیع تر قومی مفاد میں معاف کرنے اور درگزرکرنے پر تیار نہیں ہیںا گرچہ وہ مشرف کے بھاری کم طبلچیوں کومعاف کرکے جھاڑ پونجھ کر گلے سے لگا چکے ہیں۔ عزت مآب سفیر برائے کینیڈا طارق عظیم، وفاقی وزیرقانون زاہد حامد اور ہمارے پیارے دانیال عزیز چوہدری سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے تو آخر پرویز مشرف کی جان بخشی کیوں نہیںہوسکتی؟

نجی ملاقاتوں میں جناب نواز شریف کی طاقت ور کچن کیبنٹ کے بعض ارکان کھل کر انکشاف کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اُن کے حالی وموالی بنے ہوئے ہیں۔

جناب زرداری کی تقریر پر بہت کچھ لکھا، کہا اور سناجاچکا جس میں مزیداضافے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔لیکن یہ عاجز کالم نگار 15منٹ پر محیط اس نارواتقریر کا تکنیکی تجزیہ (Digital Analysis) کرنا چاہتا ہے۔ پہلے 13منٹ میں سابق صدر نے کارکنوں کومصروف رکھنے کے لیے زورخطابت کامظاہرہ کیا جس میں انھوں نے کام کے صرف دو جملے بولے ’میں نے تمام سیاستدانوں کواس لیے اپنے گرد جمع کررکھا ہے تاکہ کوئی اور طاقت دخل اندازی نہ کرسکے‘ اس کے بعد فرمایا کہ میری مصالحت کی پالیسی پرہمارے جیالے کارکن بڑے ناراض ہیں ’میں کہتا ہوں کہ جس کو گیند بلادیا ہے انھیں کھیلنے بھی دو۔

ضرب عضب کا ایک سال مکمل ہونے پر اپنی تقریر کے آخری دومنٹ میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت افواج پاکستان اور جنرل راحیل شریف کو ہدف بنایا جس میں خاص طور پر اُن کی مدت ملازمت کے تین سال کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھا۔ اب وہ فرماتے ہیں جنرل راحیل شریف کا تو وہ بہت احترام کرتے ہیں اور اپنی فوج کے بارے میں نارواتبصرہ کرنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے ۔

ٹھنڈے مزاج کے زرداری آخراتنے مشتعل کیوں ہوئے۔ جس کا سب سے بڑا سبب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور فشریرز کوآپریٹو سوسائٹی کے دفاتر پر چھاپے اور سرکاری افسروں کی گرفتاریاں تھیں۔اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کے اس دور میں سندھ میں اُلٹی گنگا بہہ رہی تھی۔

گذشتہ دورحکومت میں سندھ اسمبلی کے موجودہ اسپیکر آغاسراج درانی وزیربلدیات تھے ۔اس وقت بلڈنگ کنٹرول سے متعلقہ ادارہ مقامی بلدیاتی اداروں کے ماتحت کام کررہا تھا۔ سندھ اسمبلی نے اچانک قانون سازی کرکے کراچی، حیدرآباد،سکھر اور دیگر بڑے شہروں میں قائم بلڈنگ کنٹرول کے تمام ادارے ختم کردیے‘ صوبائی سطح پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی قائم کرکے تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور صرف 7سال کی قلیل مدت میں اپنے منظورنظر منظورقادر کا کاکو ڈائریکٹر جنرل بنادیا۔الزامات یہ ہیں کہ یہاں سے سالانہ اربوں روپے (Speed Money) اکٹھے ہوتے جو حسب مراتب تقسیم کیے جاتے (Speed Money) رشوت کامہذب نام ہے جو قانون کی حد درجہ پابندی کرنے والے کھلاڑی استعمال کرتے ہیں ۔

شنید ہے کہ یہیں سے بلوچ باغیوں کورقم دی جاتی تھی۔ماہی گیروں کی غیر اہم فشریز کوآپریٹو سوسائٹی پررینجرز کے چھاپے کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی جہاں سے ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی لانچوں کو برادر خلیجی ریاستوں سے بلوچ باغیوں کے لیے بھاری رقوم کے’ تحائف ‘اورجدید اسلحے کی فراہمی کے لیے استعمال کیاجا رہا تھا۔

بلوچستان میں باغیوںکو ناراض عناصر‘ کامعصوم نام حسین حقانی نے دیا ہے جنھوں نے اوباماانتظامیہ کے مطالبہ پر کہا تھا کہ پاکستان کو فراہم کیے جانے والے جدید امریکی اسلحے کی کھیپ کے بارے میں یہ ضمانت حاصل کی جائے کہ وہ بھارت اور بلوچستان کے ناراض عناصر کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔

کراچی میں بعض سرکاری اداروں کومنظم عالمی سازش کے تحت دہشت گرد باغی بلوچوں کی مدد کے لیے استعمال کیاجارہا تھا جس کے بارے میں ناقابل تردید شواہد حاصل کرکے رینجرز نے کارروائی کی تو اسے اختیارات سے تجاوز،صوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت قرار دے کر مرنجان مرنجن وزیراعلی قائم علی شاہ نے فوجی حکام کو احتجاجی مراسلہ روانہ کردیا جس کی نقل وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خاں کوبھی بھجوائی گئی۔

المناک کہانی تویہ ہے کہ رینجرز کے چھاپے کوجنگلات کی بے آباد زمین کے لیے فوج کی 21سال پرانی درخواست سے جوڑنے کی نارواکوشش بھی کی گئی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اشارے کنائیے میں آواز جناب فرحت اللہ بابر نے بلند کی۔

شائستہ کلام بابر صاحب سیاست گری کے اس کھیل میں اپنے آپ کو آلودگی سے بچالے گئے اور پھر اگلے ہی روز چشم زدن میں یہ بے آباد اراضی الاٹ کردی گئی جو شہداکے ورثا کودی جائے گی جسے صرف زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاسکے گا ۔جناب زرداری اور ان کے قریبی ساتھی بیرون ملک چلے گئے ہیں۔جناب زرداری ایک بار پھر محفوظ راستہ اپنا کر اپنے آپ کو مستقبل کی کسی اور معرکہ آرائی کے لیے بچالے گئے ہیں لیکن واشنگٹن میں مقیم حسین حقانی کا کیا ہوگا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔