ہمارا علاج فکر کے سوا کچھ نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 27 جون 2015

مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کوئی ایسی چیز ہوتا ہے جس میں آپ داخل ہو جائیں۔ بلکہ مستقبل وہ چیز ہے جو ہم خود بناتے ہیں ہمیں کبھی پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ہم اس راستے پر نہیں جا رہے ہیں، ہر کامیاب آدمی کے پیچھے لا تعداد ناکامی کے سال ہوتے ہیں ہمارا بہترین استاد ہماری غلطیاں ہونی چاہیں ماریا روبنسن نے ٹھیک کہا ہے کہ کوئی بھی ماضی میں جا کر نئی شروعات نہیں کر سکتا لیکن ہم آج نئی شروعات کر کے ایک نیا اور خوشگوار مستقبل بنا سکتے ہیں ۔

یہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ سفر کرنا ہے اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کریں گے تو وقت آگے نکل جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں‘‘ آئیں ہم بے باکی سے آتش نمرود میں کود پڑیں اور اپنے مسائل کا اسی طرح مطالعہ کریں کہ ہر جز کل میں سما جائے۔

ہمارا علا ج فکر و نظر کے سوا کچھ نہیں انسانی کردار اور ایمان میں کبھی بھی اتنی گہری اور خطر ناک تبدیلیاں نہیں ہوئیں جتنی آج کل ہو رہی ہیں، آج پھر سقراط کا زمانہ ہے۔ ہماری اخلاقی زندگی خطرے میں ہے، آج ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج ہم سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے زندگی کے اس ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنیٰ ہو رہی ہے کسی زمانے میں عظیم شخصیتیں سچائی کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتی تھیں۔

سقراط نے اس کے لیے دشمنوں سے بھاگنے کے بجائے جام شہادت پینا منظور کیا۔ افلاطون نے اس کے لیے ایک ریاست قائم کرنے کی خاطر دو مرتبہ اپنی جان خطر ے میں ڈالی۔ مارکس اور پلیٹس کو تخت و تاج سے زیادہ اس سے محبت تھی برونو اس کا وفادار ہونے کے جر م میں آگ میں جلا دیا گیا۔ کسی زمانے میں کلیسیا اور حکومتیں اس سے کانپتی تھیں اور اس کا نام لیوائوں کو اس لیے قید و بند میں ڈال دیتی تھیں کہ ان کی وجہ سے حکومتوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا۔

دوسر ی طرف ہم ہمیشہ بہرے بنے رہے ہمارے سامنے سچ بار بار آ کے چلا تا رہا دہائیاں دیتا رہا لیکن ہم میں کبھی اسے سننے کی ہمت اور جرأت نہ ہو سکی جب بھی وہ ہمارے سامنے آتا ہم اس سے خو فزدہ ہو کے اس سے ڈر کر بھاگ کر چھپ جاتے لیکن ہماری تما م تر بزدلی اور ڈر و خوف کے با وجود ہم سچ سے نہ چھپ سکے آج سچ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہے اب ہمارے پاس نہ بھاگنے کی کوئی جگہ باقی بچی ہے اور نہ چھپنے کی۔
آج سچ چیخ رہا ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کا کیا سے کیا حال کر دیا، اپنے ملک کو تباہی اور دیوالیہ پن کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے آج پورے ملک میں خاک اڑاتی پھر رہی ہے۔ بربادی وحشیانہ رقص میں محو ہے موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے، آج ہمارا ملک ایسا ملک بن گیا جہاں سیاست دان جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں، جہاں علماء مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہیں جہاں بزنس مین اپنے منافعے کی خاطر لوگوں کو زندہ درگور کرنے پر تلا بیٹھا ہے ۔

جہاں جاگیردار ذراسی بات پہ اپنی تسکین کی خاطر اور دھاک بٹھا نے کے لیے بے کس و بے بس کسانوں کی بیٹیوں کی عزت تار تار کر دیتے ہیں جہاں ڈاکٹر کو مریض کی زندگی بچانے کے بجائے اپنی فیس کی زیاد ہ فکر ہوتی ہے جہاں شرافت، تعلیم، تہذیب و تمدن، اخلاص، خلوص محبت کو کوئی ٹین ڈبے والا بھی نہیں خریدتا۔ جہاں رشتوں کے لیے لڑکیوں کا معائنہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہو تا ہے جہاں ہر جا ئز کام ناجائز طریقے سے انجام پاتا ہے۔ اور ناجائز کام جائز طریقے سے ہوتا ہے۔ جہاں تھانے، نوکریاں، ٹھیکے سرعام بکتے ہیں جہاں کفن، تابوت، رشوت، کمیشن کا کاروبار دن رات ترقی کرتا جا رہا ہے۔

جہاں مزدوروں کا دن رات خو ن پیا جا رہا ہے۔ جہاں ہر دو نمبر کام عروج پر ہے، جہاں عقل سے پیدل تہذیب و تمد ن سے عاری سمجھ و دانش سے محروم نرے جاہل عقل مندوں، تعلیم یافتہ، دانش مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔ جہاں ابن الوقتوں، مفاد پرستوں، لٹیروں کی چاندی ہی چاند ی ہے جہاں عوام کے ٹیکسوں پر چند ہزار لوگ عیش و عشرت میں غرق ہیں جہاں ٹیکس دینے والوں کے گھروں میں ماتم بر پا ہے۔

وہیں اس ٹیکس کے روپوں سے چند لوگ عیاشیوں میں مصروف ہیں وہ یا ان کے پیارے بیمار پڑیں تو وہ اپنا علاج خیراتی اسپتال میں کروانے پر مجبور ہیں جہاں وہ بغیر دوائی یا دو نمبر دوائی کی وجہ سے سسک سسک کر جان دینے پر مجبور ہیں جب کہ وہ لوگ جو ان ٹیکسوں کی وجہ سے زندہ ہیں وہ بیمار ہوں تو اپنا علاج بیرون ملک کرواتے ہیں۔ ٹیکس دینے والوں کے بچے پیلے اسکول سے پڑھیں اور ان لٹیروں کے بچے عالیشان، ایئرکنڈیشنڈ انگلش اسکولوں سے تعلیم حاصل کریں، ٹیکس دینے والوں کے بچوں کے لیے مالی اور چپڑاسی کی نوکری نصیب بنا د ی گئی ہے اور تمام اعلیٰ اور منا فع بخش نوکریاں وہ اپنے پیاروں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔
67 سالوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے عوام قربانیوں کے لیے تیار ہو جائیں۔ بجلی، پیٹرول، گھی، آٹا، گیس، چاول، چینی میں اضافہ کرنا نا گزیر ہو گیا ہے ساری کی ساری قربانیاں عام لوگ دیں اور عوام کے ٹیکسوں پر یہ زندہ صرف عیاشیاں ہی عیاشیاں کرتے رہیں۔ آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیں آپ کسی رکن پارلیمنٹ، بیو روکریٹ، جاگیردار، سر مایہ دار کے بچوں کی شادی یا میت میں جا کر معائنہ کر لیں آپ ان کی شان و شوکت، ان کے کھانے، ان کے لباس ہیرے جواہرات دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں گے۔

کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ عوام قربانیاں دیتے رہیں فاقے کرتے رہیں خود کشیاں کرتے رہیں۔ ماتم کرتے رہیں اور ان کے پیسوں پر چند ہزار لوگ عیاشیوں میں غرق رہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا قول ہے کفر کا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ طے ہے کہ اب انجام دور نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔