امید و پیہم کی منجدھار میں ہچکولے کھاتا معذورخاندان

عبدالقیوم فہمید  اتوار 28 جون 2015
وسائل کی کمی نے ان کے علاج کی کوئی صورت پیدا نہ ہونے دی۔ ۔  فوٹو : فائل

وسائل کی کمی نے ان کے علاج کی کوئی صورت پیدا نہ ہونے دی۔ ۔ فوٹو : فائل

ندیم حمید کا تعلق آزاد کشمیرکے شہرمظفرآباد سے ہے۔ جسمانی طورپر معذور اور مفلوج ندیم اور اس کی معذور دو بہنوں کی کہانی جتنی دلخراش ہے اْتنی ہی پراسرار اور جسمانی و ذہنی اعتبار سے تندرست و توانا لوگوں کے لیے سبق آموزبھی ہے۔ اس فیچرمیں ہم ندیم اور اس کی بہنوں کی پراسرار بیماری اور مشکلات سے بھرپور زندگی میں ان کے زندہ رہنے کے جذبے اور کچھ کرنے اور کرگزرنے کی دھن کے بارے میں قارئین کو بتا رہے ہیں۔ یہ کوئی افسانوی کہانی یا فرضی کردار نہیں بلکہ حقیقت کی دنیا میں موجود ایک پسماندہ خاندان کی کتھا ہے جو معذوری اور پراسراربیماریوں سے لڑتے ہوئے زندگی کے شب وروز گزار رہا ہے۔

ندیم کی عمراس وقت پچیس سال کے لگ بھگ ہے۔ اسے اور اس کی دو بہنوں کو لاحق ایک لاعلاج مرض کی کہانی نئی نہیں بلکہ اس بیماری کا شکارہونے والی یہ دوسری نسل ہے۔ وسائل کی کمی نے ان کے علاج کی کوئی صورت پیدا نہ ہونے دی۔

ندیم کے تایا طالب حسین مرحوم کی عمرکوئی پندرہ سال ہوگی جب چلتے پھرتے اور کام کاج کرتے اچانک اس کے قویٰ مضمحل ہونا شروع ہوئے۔ یہ 1960ء کی بات ہے۔ تب آزاد کشمیر کے پسماندہ علاقوں میں جان لیوا امراض کیا معمولی نوعیت کی بیماریوں کا بھی کوئی علاج نہیں تھا، لوگ صرف گھریلو ٹوٹکے استعمال کرکے صبرو شکر کرلیتے تھے۔ طالب حسین کے ہاتھ پائوں مڑنا شروع ہوئے اور وہ بتدریج پانچ سال کے اندر اندر صرف ایک زندہ لاش بن کر رہ گیا۔

اس کی والدہ ہاجرہ مرحومہ نے بیٹے کو بچانے کے لیے تمام تر گھریلو ٹوٹکے استعمال کیے مگرکام نہ بن سکا۔ طالب حسین نے قرآن پاک اپنی والدہ سے پڑھ رکھا تھا۔ معذوری کے بعد اس نے اپنے کسی دوسرے عزیزکی مدد سے کچھ اورادو وظائف بھی یاد کرلیے۔ قدرت نے اس کی زبان میں بلا کی تاثیر رکھ دی تھی۔ لوگ اس کے پاس بیماریوں کے لیے دم درود کرانے آتے۔ یہاں تک کہ طالب حسین علاقے میں ’متو بابا‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ ان کے پاس آنے اور شفاء پانے والے ان کے مرید ہوتے چلے گئے۔ وہی لوگ ’متو بابا‘ کے گھر کے کفیل تھے، وہ وقتاً فوقتاً اناج، غلہ یا نقدی کی شکل میں ان کی مدد کرتے رہتے۔

سنہ 1999ء تک متو بابا اوران کے خاندان کے دیگر احباب وادی نیلم میں مقیم رہے۔ ان برسوں میں بھارت نے بلا اشتعال گولہ باری شروع کی تو ہزاروں لوگوں کے ساتھ متو بابا کے خاندان نے بھی مظفرآباد کی طرف ہجرت کی۔ یہاں ان کے کسی چاہنے والے نے ایک عارضی شیلٹر انہیں سرچھپانے کے لیے دے دیا۔ نیلم میں رہتے ہوئے متو بابا کے ایک دوسرے بھائی عبدالحمید کی ایک بیٹی زاہدہ دس سال کی عمرمیں اسی پراسرار بیماری کا شکار ہوئی اور بتدریج معذور ہوتے ہوئے تایا کی طرح بس ایک زندہ لاش بن گئی۔ یہ اس خاندان کا دوسرا سانحہ تھا۔

اسی دوران عبدالحمید کا ایک بڑا بیٹا محمود جلد کے کینسرکا شکار ہوا۔ اس کے والد نے بیٹے کے علاج کے لیے زمین اور مال مویشی سب کچھ بیچ ڈالے مگر بیٹے کے زندگی نہ بچ سکی۔ مگر قدرت کو ابھی انہیں اور آزمانا تھا۔ محمود کی بیماری کے عرصے میں اس کا چھوٹا بھائی ندیم جو ان دنوں سکول کی ابتدائی جماعتوں کا طالب علم تھا، معذور ہونا شروع ہوا اور چند ہی سال کے عرصے میں چلنے پھرنے سے قاصرہوگیا۔ تاہم اس نے بیماری کے باوجود وہیل چیئرپرسکول آنا جانا جاری رکھا۔ پانچویں پاس کرنے کے بعد تمام لوگ مظفرآباد شفٹ ہوگئے۔

مظفرآباد آنے کے بعد ندیم نے ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور سنہ 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے وقت وہ میٹرک میں تھا۔ جب زلزلہ آیا تو وہ اس وقت مظفرآباد میں اپرچھترکے ایک دو منزلہ سکول میں کمرہ جماعت میں اپنی وہیل چیئرپر تھا۔ زلزلہ آتے ہی تمام بچے، اساتذہ اور دیگر عملہ فوری بھاگ نکلے مگر ندیم تنہا لرزتی عمارت میں رہ گیا۔

ہرطرف قیامت خیز تباہی تھی اور نفسا نفسی کا عالم تھا۔ زلزلے کو کئی منٹ گزرگئے اور سکول کی اوپر والی منزل گرگئی۔ نچلی منزل کی دیواریں آہستہ آہستہ سرک رہی تھیں لیکن قدرت کو ندیم کو زندہ رکھنا تھا۔ اس دوران اسکول کے باہر کسی ہم جماعت کو اس کا خیال آیا اور وہ دوڑ کرگرتی سکول کی عمارت میں ندیم کے پاس پہنچ گیا۔ اس خوفناک صورت حال سے ندیم خود بھی ڈرگیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ موت کتنے منٹ بعد مجھ پرحملہ آور ہوگی۔

تاہم اس کے ہم جماعت کی شکل میں اس کے پاس رحمت کا فرشتہ آیا جس نے اس کی وہیل چیئرکو گھسیٹ کرسکول کے باہر کھڑا کردیا۔ وہ لڑکا خود تو چلا گیا اور ندیم ایک بار پھرمایوسی کے عالم میں وہیل چیئرپربیٹھا اپنے امی، ابا، دو معذور بہنوں کے لیے فکرمند تھا۔ ادھر اس کے گھرمیں مکان کی دیوار گرنے سے اس کے والد کی ریڑھ کی ہڈی اور ایک ٹانگ بری طرح زخمی ہوگئی تھیں اورکسی کو ندیم کی یاد تک نہ تھی، سب انہیں سنبھالنے میں لگے ہوئے تھے۔

کچھ دیر بعد اس کی والدہ کو خیال آیا کہ اس کا معذور لخت جگر تو اسکول میں ہے۔ پتا نہیں اس کا کیا بنا۔ یہ کہتے ہوئے وہ ننگے پائوں اسکول کی طرف دوڑ پڑی۔ اسکول کی طرف آنے والی سڑک مکانات کا ملبہ گرنے سے بند ہوچکی تھی اور جگہ جگہ لاشوں کے انباراور خاک وخون میں لت پت زخمیوں کی آہ و بکا کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایسے میں ندیم کی والدہ اور بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی تاہم وہ روتی چلاتی اسکول کے احاطے میں پہنچی تو ندیم کو وہیل چیئرپر بیٹھے دیکھ کر اس کے اوسان بحال ہوئے۔ راستہ وہیل چیئرچلانے کے قابل نہیں تھا۔ چنانچہ والدہ نے ندیم کو اپنی کمرپر اٹھایا اور گھرکی طرف چل دی۔

زلزلے سے کچھ عرصہ قبل ندیم کی چھوٹی بہن آمنہ بھی اسی پراسرار بیماری کا شکار ہو چکی تھی مگر وہ اس وقت تک لاٹھی کے سہارے اسکول جاتی تھی۔ تاہم اگلے ایک سال میں آمنہ بھی مکمل طورپر اپنے بھائی ندیم تایا طالب حسین، اور بڑی ہمشیرہ زاہدہ کی صف میں شامل ہو چکی تھی۔

زلزلے کے کچھ عرصہ بعد طالب حسین انتقال کرگئے، لیکن ندیم، اس کی دو بہنیں ہنوز اپنے معذور والد اور والدہ کے لیے آزمائش ہیں۔ بہنوں کے برعکس ندیم نے تمام ترجسمانی معذوری کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ اس نے وہیل چیئرپراسکول میں تعلیم جاری رکھی اور اعلیٰ نمبروں کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اس نے کشمیرتعلیمی بورڈ سے ایف اے اور آزاد کشمیر یونیورسٹی سے نمایاں پوزیشن کے ساتھ’بی اے‘ کیا اور اب وہ اوپن یونیورسٹی کے تحت سوشیالوجی میں ایم اے کررہا ہے۔

ندیم کے والد لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں۔ ان کا ان معذور بیٹے بیٹیوں کے علاوہ ایک اور بیٹا بھی ہے جو جسمانی طورپر تندرست مگر نفسیاتی عوارض کا شکار ہے۔ ندیم اپنی تمام ترمعذوری کے باجود نہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنے گھر ہی میں اس نے ایک چھوٹا سا ٹیوشن سینٹر بنا رکھا ہے، جس میں محلے کے کچھ بچے اس کے پاس پڑھنے آتے ہیں۔

یوں ندیم ہی اپنی معذور بہنوں اور والدین کا کفیل بن کر معذوری کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہے۔ خاندان کا گذراوقات اسی کی چند سو روپے کی ٹیوشن سے ہوتا ہے۔ ندیم کے حالات دیکھ کر جہاں دل خون کے آنسو روتا ہے وہیں اس کی بلند حوصلگی اورحصول علم کی لگن ہمارے لیے ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

ندیم کے والد جو خود بھی نیم معذوری کی زندگی بسرکررہے ہیں اپنی معذور اولاد کے مستقبل کے حوالے سے سخت پریشان ہیں۔ بچوں کے حالات پربات کرتے ہوئے وہ باربار رو دیے۔ انہوں نے کہا کہ ندیم اب’ایم اے‘ تک تعلیم حاصل کرچکاہے مگر میں نہیں جانتا کہ اعلیٰ تعلیم اس کے لیے کوئی سہارا بن سکے گی یا نہیں کیونکہ ہمارے ہاں تندرست وتوانا لوگوں کو روزگار نہیں ملتا۔ میرے معذوربیٹے کو کون نوکری دے گا؟

جہاں تک ان معذوروں کی مستقبل میں دیکھ بحال کا معاملہ ہے تو وہ واقعی ایک سنجیدہ سوال ہے۔ عبدالحمید اور ان کی اہلیہ معذور بچوں کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بوڑھے ہوچکے ہیں اور ہماری اولاد جوان مگراپنے سہارے سے پہلو بھی نہیں بدل سکتی۔ ہمارے دنیا سے چلے جانے کے بعد کون ان کی دیکھ بحال کرے گا یہ فکرہمیں اندر ہی اندر سے ہمیشہ کھائے رکھتی ہے۔

عبدالحمید کا یہ سوال بار بار میرے کانوں سے ٹکراتا ہے کہ کیا ملک میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو معذوروں کی مستقل بنیادوں پر دیکھ بھال کرتا ہو؟ وہ کہتے کہ میں نے ان معذوروں کے حوالے سے بہت تگ ودو کی لیکن مجھے کہیں سے بھی کوئی تعاون نہیں مل سکا۔ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں ایسے کئی ادارے کام کررہے ہیں جو معذوروں کی کفالت کرتے ہیں۔ یقینی ہماری یہ آواز ان تک بھی پہنچے گی۔

بچوں کی تعلیم کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عبدالحمید کا کہنا تھا کہ میں خود پڑھا لکھا نہیں۔ تاہم ہمارے گھرمیں تمام افراد نے قرآن پاک پڑھ رکھا ہے۔ بیشتر ترجمہ کے ساتھ بھی قرآن کو سمجھتے ہیں۔

میری دونوں معذور بچیوں نے بھی قرآن پاک پڑھا ہے۔ ندیم نے اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ میں اس کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔ یہ اس کا اپنا حوصلہ ہے کہ سخت تکلیف کے باوجود کتاب اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ چھوٹی بیٹی آمنہ جب تک چل سکتی تھی، اسکول جاتی تھی لیکن معذور ہونے کے بعد اسے وہیل چیئرپر اسکول لانے اور لے جانے والا کوئی نہیں۔ وہ جسمانی معذوری کے علاوہ بخار میں بھی مبتلا رہتی ہے۔

ندیم کے یہ الفاظ میرے دل میں تیرکی طرح ترازو ہوگئے کہ’’مجھے اپنی اور بہنوں کی جسمانی معذوری سے زیادہ دکھ لوگوں کی ناخواندگی پرہے۔ میری خواہش ہے کہ میں محلے کے ان بچوں کوبھی تعلیم دوں جو والدین کی عدم توجہی یا وسائل کی عدم دستیابی کے باعث تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔ کاش! کوئی ندیم کی اس خواہش کو پورا کرنے میں اس کا حامی و ناصر ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔