زندہ لاشوں کا قبرستان ۔۔۔۔ کراچی

رئیس فاطمہ  اتوار 28 جون 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

24 جون کے اخبار میں فرنٹ پیج پر ایک بڑی سی تصویر چھپی ہے۔ جس میں قومی اسمبلی کے ارکان پارلیمنٹ بلڈنگ کے باہر کراچی میں گرمی سے مر جانے والوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں۔ اور اس کے بالکل اوپر وزیر مملکت پانی و بجلی کا بیان ان کی تصویر مبارک کے ساتھ حکومت کے ماتھے پہ جھومر کی طرح جگمگا رہا ہے کہ ’’گرمی سے کوئی مر جائے تو حکومت ذمے دار نہیں۔‘‘ نماز جنازہ پڑھنے والوں کے عقب میں قومی اسمبلی کی عمارت بھی نظر آ رہی ہے۔

جس کے یخ بستہ ماحول سے نکل کر یہ معزز اراکین حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے چند منٹ کے لیے بادل نخواستہ یا پھر ’’حکمِ حاکم مرگ مفاجات‘‘ کے محاورے کے تحت پرنٹ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں اپنی تصویر لگوانے کے لیے اکٹھے کھڑے ہو گئے ہیں۔ دل ہی دل میں کراچی والوں کو کوس بھی رہے ہوں گے کہ کمبخت خود تو مر گئے، اب ہمیں ان کی نماز جنازہ کے لیے اسمبلی کے ٹھنڈے فلور سے باہر آنا پڑا۔

کراچی میں سیکڑوں کی تعداد میں گرمی سے مرنے والوں کی ذمے دار حکومت ہرگز نہیں۔ کیونکہ اگر ایسے بیانات جو نفرت اور بے حسی پہ مبنی ہیں ان کے تناظر میں یہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ ان عوامی نمائندوں نے اسمبلی کے باہر آ کر یہ تماشا کیوں لگایا؟ اگر واقعی کراچی میں مرنے والوں سے زبانی کلامی ہمدردی کرنی ہی تھی تو اسمبلی کے اندر چلنے والے اے سی ایک دو گھنٹے کے لیے بند کر دیے جاتے تو وہاں کتنوں کی سانسیں رک جاتیں؟ لیکن انھیں احساس تب بھی نہیں ہونا تھا۔ اور پھر ایئرکنڈیشنر بند ہونے کی تصاویر اور خبریں ’’نماز جنازہ‘‘ کا سا تاثر کہاں پیدا کر سکتی تھیں۔

وزیر پانی و بجلی یہ بتانا پسند کریں گے کہ کن لیڈروں نے سلطان راہی والے انداز میں چھ مہینے میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی نوید جانفزا سنائی تھی۔ اور منتخب ہونے کے بعد بجلی کے بحران پر صرف دو سال میں قابو پانے کی باتیں کی تھیں۔

کراچی پر آفت ٹوٹ پڑی، سورج بھی سوا نیزے پہ آ گیا، اسپتال بھر گئے، مردہ خانوں میں میتیں رکھنے کی جگہ نہ رہی، گورکنوں نے قبروں کی قیمتیں بڑھا دیں، کفن دفن کا سامان مہنگا ہو گیا، لوگ توبہ استغفار کرنے لگے کہ انسان اس حد تک بھی گر سکتا ہے کہ میتوں کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ بے حسی اور ہوس کی انتہا ہو گئی؟ لیکن مجھے اس غیر انسانی رویے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ جہاں رمضان میں پانچ چھ دن کی تراویح کی دیہاڑی لگا کر کمر کس کر سو گنا زائد قیمت پر مال بیچنے نکل آئے، مذہبی حلیے بنا کر پرانا غیر معیاری سامان تگنی قیمت پر اس انتباہ کے ساتھ کہ ’’خریدا ہوا مال نہ واپس ہو گا نہ تبدیل ہو گا۔‘‘

جہاں پورے ملک میں جعلی دوائیوں کا کاروبار عروج پر ہو۔ جہاں حکومتی کارندے لینڈ مافیا اور ٹینکر مافیاز چلا رہے ہوں، وہاں کفن دفن کے سامان کی زائد قیمت وصول کرنا اور قبروں سے کمائی کرنا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ یہ تو وہ شہر ہے جہاں خون کے رشتے خون چوستے ہیں، پنج وقتہ نمازیں، روزے اور تراویح بظاہر ادا کرنے والے مذہب کی روح سے ناواقف، خون کو خون سے جدا کرنا، ناخنوں کو گوشت سے الگ کرنا، مکر و فریب، جھوٹ اور کم ظرفی سے انھیں نقصان پہنچانا جو ان کے برے وقت میں کام آئے۔

جنھوں نے محبتوں کو ہر سنگدلی کا علاج سمجھا، لیکن بدلے میں پیرانہ سالی میں تنہائی اور بیماری جن کا مقدر بنی۔ تو ان کفن فروشوں اور گورکنوں سے کیا امید رکھنا۔ یہ تو مرنے والوں کے بھائی، بہن، یا رشتے دار تو نہیں، جب ہر طرف لوٹ مار مچی ہو، ہر غلط کام جائز ہو، حتیٰ یہ کہ کھلے عام گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہو، اور حکومت خاموش بیٹھی جھولا جھول رہی ہو تو کسی سے کیا شکایت؟

جس طرح پہلے روزے سے 25 جون تک سیکڑوں کی تعداد میں لوگ بجلی نہ ہونے سے مر گئے، قبرستانوں میں جگہ نہ رہی، مرنے والے تو مر گئے، لیکن جن خوش نصیبوں کے لواحقین موجود ہیں وہ قبروں کے لیے مارے مارے پھرتے رہے کہ امیر شہر نے دستانے پہن رکھے ہیں تا کہ خون ناحق کا ثبوت نہ مل جائے۔ مرنے والے اس شعر کی تفسیر بن گئے۔ ذوق نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

جن کا مرنا جینا کراچی کے ساتھ ہے وہ زندہ درگور ہو کر نیا قبرستان بنائیں گے۔ بابا کے مزار کو بھی اب قبرستان کا درجہ دے دینا چاہیے۔ تا کہ موجودہ اور آنے والی حکومتیں ایک ’’نیا پاکستان‘‘ تعمیر کر سکیں۔ جس طرح مشرقی بازو کٹنے کے بعد ہمارے لیڈروں نے کہا تھا کہ ’’شکر ہے پاکستان کو بچا لیا گیا‘‘ اور اب کراچی کو ختم کر کے ایک نیا پاکستان بنانے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ کہ یہاں قطار میں لگ کر بجلی کے بل دینے والوں اور سو فیصد ریکوری والے علاقوں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔

اور ایم این ایز اور ایم پی ایز جو صرف ڈیسک بجانے کے عوض لاکھوں کماتے ہیں کہ یہ ریس میں دوڑنے والے وہ گھوڑے ہیں جن پر بہت بڑی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اور جب یہ ریس جیت جاتے ہیں تو اپنے منصب کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں کا ہار چوری اور دیدہ دلیری سے سینہ ٹھونک کر اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ لیکن پھر وہی بات کہ جب حکومت ہی خودغرضوں کی ہو تو وہ ہر شے کو اپنا مال سمجھتے ہیں۔

کراچی میں قیامت خیز گرمی اور سیکڑوں اموات کے ساتھ ساتھ 24 جون کے ہی اخبار میں دو اور خبریں بھی ہیں پہلی یہ کہ فریال تالپور چھٹیاں منانے دبئی سے امریکا جائیں گی تا کہ اپنے بچوں کے ساتھ امریکا میں چھٹیاں گزار سکیں۔ دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی ثاقب سومرو جرمنی چلے گئے۔ وہ جماعت جس نے روٹی کپڑا اور مکان کا جھوٹا اور جذباتی نعرہ لگا کر ایک عرصے تک لوگوں کو سوشلزم اور جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنا کے ووٹ حاصل کیے۔

اس کے ’’ہمدرد‘‘ آج کہاں ہیں؟ میں نے گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد بار اس طرف اشارہ کیا تھا کہ ’’جہاز تیار ہیں لوٹا ہوا مال پہلے ہی غیر ملکی بینکوں میں منی لانڈرنگ کے ذریعے محفوظ ہے۔ یہ بھی جب خطرہ محسوس کریں گے تو بریف کیس اٹھا کر بھاگ جائیں گے۔‘‘ یہ ہے غریبوں کی پارٹی اور اس کے لیڈر۔ افسوس اس بات کا ہے کہ انھیں کسی قوت نے بیرون ملک جانے سے کیوں نہیں روکا؟ کراچی کے لوگوں کو گرمی، بجلی، پانی اور مہنگائی کی دلدل میں چھوڑ کر؟ کیا اب بھی کچھ سادہ لوح لوگ باقی ہیں جو اس جماعت کو عوامی سمجھتے ہیں۔ ان کی بات الگ ہے جن کی دیہاڑیاں ہی نعرہ بازی سے لگی ہوئی ہیں۔

میدان سجا کر بلاول کو میدان میں اتارا۔ وہ روپیہ کہاں سے آیا تھا؟ کیا اس پیسے سے اندرون سندھ اور کراچی میں پانی اور بجلی کے مسائل پہ قابو نہیں پایا جا سکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ یہ نہ اندرون سندھ سے مخلص ہیں نہ کراچی سے۔ یہ تو کراچی کو قبرستان بنانے آئے ہیں، زندہ لاشوں کا قبرستان۔ ان سے ہمدردی کی توقع ایسی ہی ہے جیسے سورج کے مغرب سے نکلنے کی تمنا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔