خالصتان تحریک پھر زندہ ہوگئی

عبید اللہ عابد  اتوار 28 جون 2015
’’ریفرنڈم 2020‘‘ اور ا یئر انڈیا کے بائیکاٹ کے نعرے کو دنیا بھر کے سکھوں میں زبردست پذیرائی حاصل ہورہی ہے ۔  فوٹو : فائل

’’ریفرنڈم 2020‘‘ اور ا یئر انڈیا کے بائیکاٹ کے نعرے کو دنیا بھر کے سکھوں میں زبردست پذیرائی حاصل ہورہی ہے ۔ فوٹو : فائل

بھارتی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ دوعشروں سے خوب مزے سے جھوم رہی تھی کہ اس نے سکھوں کی علیحدگی پسند تحریک کو کچل دیاہے، بھارتی کارپوریٹ سیکٹر کی آنکھوں کا تارا وزیراعظم نریندرمودی بھی خوش تھا کہ کارپٹ کے نیچے گند چھپ گیاہے۔ ایک طرف وہ دنیا کو باور کرارہے ہیں کہ بھارت میں سب اچھا ہے لیکن دوسری طرف وہ پورے بھارت پر ہندوتوا کا رنگ چڑھاناچاہتے ہیں۔

مسلمانوں سے کہاجارہاہے کہ وہ پاکستان چلے جائیں، عیسائیوں اور ان کے کلیسائوں پر حملے ہورہے ہیں، عیسائی لڑکیاں گینگ ریپ کا شکار ہورہی ہیں، یہی برتائو باقی اقلیتوں سے ہورہاہے۔بھارت اپنی فوج کو آزادکشمیر پر چڑھائی کے لئے تیارکررہا ہے، اگرپاکستان کی طرف سے انتہائی سخت جوابی پیغام نہ ملاہوتاتو اب تک آزادکشمیر پر حملہ ہوچکاہوتا۔ مودی’ ہندوتوا ایجنڈا‘ کے پورا ہونے کے بارے میں یقینی کیفیت میں تھے تاہم ان کی بدقسمتی اور ان کے مخالفوں کی خوش قسمتی کہ یہ ایجنڈا بیک فائر کرگیا ہے۔

 

بھارت کے سر پر منڈلاتا خطرہ۔۔۔۔۔’’خالصتان‘‘

 

سکھ علیحدگی پسند تحریک جو 80ء کی دہائی کے اوائل میں بہت پرجوش اندازمیں شروع ہوئی، اور اگلے دس پندرہ برسوں میں کچل دی گئی، اب ایک بارپھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ایک نئے انداز اور نئے جوش وخروش کے ساتھ۔ 80ء کی دہائی والی تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی تھی تاہم اب اس کا نیا انداز سیاسی ہے۔ البتہ منزل آزاد مملکت خالصتان ہی ہے، سکھ قوم اس سے کم کسی چیز پر آمادہ نہیں۔ اسی لئے ہرسکھ کی زبان پر ’ریفرنڈم 2020ء‘ کا نعرہ ہے

کہ پنجاب کی سکھ قوم سے پوچھا جائے کہ وہ آزادمملکت خالصتان کے حق میں ہے یا بھارت کے ساتھ ہی زندگی بسر کرناچاہتی ہے۔ سکھ قوم سمجھتی ہے کہ سکھ یہاں کے پرانے باسی ہیں۔ یہ ان کا تاریخی وطن ہے، ان کا ایک الگ مذہب ہے اس لئے وہ ایک الگ مملکت میں رہنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی اورکینیڈا میں مقیم سکھ غیرمعمولی طورپر ’ریفرنڈم 2020ء‘ کی تحریک میں سرگرم کردار اداکررہے ہیں، وہ بڑے مظاہرے اور دیگرپروگرام منعقد کررہے ہیں۔

پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں بھی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ چھ جون کو امرتسر میں گولڈن ٹیمپل میں بھی بڑی تعدادمیں سکھ جمع تھے، وہ ’خالصتان زندہ باد‘،’ لے کے رہواں گے خالصتان‘،’ بن کے رہے گا خالصتان‘ کے نعرے لگارہے تھے۔مودی سرکار کے حکم پر پولیس نے مظاہرین کی زبان بندی کراناچاہی تو وہ مشتعل ہوگئے۔ یوں سکھ نوجوانوں اورپولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔

ایک بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت امرتسر میں شیرومانی اکالی دل کے حامیوں نے گولڈن ٹمپل پر سابق ممبرصوبائی اسمبلی دھیان سنگھ مند کی قیادت میں سکھوں کی روایتی چمکتی تلواروں کے علاوہ ’’خالصتان زندہ باد‘‘کے فلک شگاف نعرے بھی بلند ہوئے۔

احتجاجی مظاہرے پر پنجاب پولیس نے ہلہ بول کر 25سکھ مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ اکالی تخت کے جتھے دار نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پوری دنیا میں سکھ کمیونٹی کے گولڈن ٹمپل (آپریشن بلیو سٹار)کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے۔ یادرہے کہ آپریشن بلیو سٹار تین سے آٹھ جون 1984ء کو امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ میں ہوا۔ آپریشن میں بھارتی فوج کے10ہزارفوجیوں، سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے 700 اہلکاروں، بارڈرسیکورٹی فورس کے ڈیڑھ سو اہلکاروں سمیت پنجاب پولیس کی بڑے پیمانے پر نفری نے حصہ لیا جبکہ فضائیہ نے بھی مدد کی۔ آپریشن کے نتیجے میں 136فوجی اور سپاہی ہلاک ہوئے جبکہ دوسری طرف 140سے 200تک سکھ ہلاک ہوئے۔

ان میں خالصتان تحریک کے قائد سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی تھے۔بھارتی فوج اور دیگرسیکورٹی فورسز نے اس اندھا دھند آپریشن میں ہر سکھ کو علیحدگی پسند سمجھا، یوں انھوں نے 5000عام شہریوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالا۔ سکھ قوم برسوں سے جون کے پہلے ہفتے میں اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کرتی ہے تاہم اس بار مودی سرکار نے اعلان کیا کہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا نام کسی کی زبان پر نہ ہو چنانچہ ہرایسی تقریب کو الٹ دینے کا حکم دیاگیا۔

جموں اور کشمیر میں بھی سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کی تصویر پر مبنی ایک پوسٹر پھاڑے جانے پر بھارت مخالف مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے اس وقت تشدد آمیز ہوگئے جب پولیس سے جھڑپوں میں ایک سکھ نوجوان ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ وہاں کے سکھوں کا کہناہے کہ تاریخ میں پہلی بار سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کی تصاویر نہیں چسپاں کی گئیں، برسوں سے ان کا یہ معمول ہے۔ تاہم اس بار مودی سرکار کی فرعونیت کی وجہ سے حالات میں بگاڑ پیدا ہوا۔

اندرا گاندھی کے بعد کی حکومتوں نے ’آپریشن بلیوسٹار‘ کو بظاہر غلطی قراردیتے ہوئے سکھوں سے معافی مانگی تھی ، سکھوں کا مطالبہ تھا کہ اس آپریشن کے تمام ذمہ داران کوکڑی سزادی جائے۔ تاہم ایسا نہ ہوا۔ اس کا نتیجہ اب ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کچلی ہوئی تحریک پھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے اورخالصتان کا نعرہ ایک بار پھر پورے زوروشور سے لگ رہاہے۔ سکھ تنظیم شیرومانی اکالی دل کاکہنا ہے کہ نئی مملکت( خالصتان) پاکستان، بھارت اور چین کے درمیان ’بفرنیشن‘ کا کردار اداکرسکتی ہے۔

خطے میں امن کے لئے جوہری ہتھیاروں سے پاک نئی ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔ تنظیم کے سربراہ سمرن جیت سنگھ کا کہناہے کہ خالصتان تمام قومیتوں کے درمیان امن ومفاہمت کی بہترین مثال ثابت ہوسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بہت جلد مملکت خالصتان کا نقشہ جاری کریں گے۔ واضح رہے کہ خالصتان کے لئے جدوجہد شیرومانی اکالی دل ہی نہیں کررہی ، بلکہ ’خالصہ راج پارٹی‘سیاسی جماعت ہے۔ اس کے سربراہ ڈاکٹرجگجیت سنگھ چوہان ہیں جو21 سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرکے اب بھارت میں موجود ہیں۔ تنظیم بھی عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ بھی اعتراف کرتے ہیںکہ گزشتہ عرصے میں مغربی ممالک میں آزاد سکھ ریاست ’خالصتان‘ کے قیام کے حامی فعال ہو رہے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا کے ملکوں میں سکھ عسکریت پسند تنظیموں کے لیے چندہ جمع کرنے کی بھرپور مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ جبکہ بھارتی اداروں کا کہناہے کہ بھارت اور اسی طرح بہت سے یورپی ملکوں میں ’ببّر خالصہ انٹرنیشنل‘ اور ’خالصتان کمانڈو فورس‘ جیسی کالعدم تنظیموں نے اپنے مشن کے لیے نوجوان افراد بھرتی کرنا شروع کردئیے ہیں۔

مغربی ملکوں میں بسنے والے نوجوانوں کو خاص طور پر کیے گئے انتظامات کے دوران جذبات ابھارنے والی فلمیں مثلاً ’’آپریشن بلیو سٹار‘‘دکھائی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرا پروپیگنڈا مواد بھی دکھایا، سنایا یا تقسیم کیاجارہا ہے۔ بھارتی ذرائع کے مطابق اس تشہیری مہم میں کم از کم 50 سوشل نیٹ ورک سائٹوں اور 20 ویب سائٹوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت اسے بہت زیادہ تشویشناک امر سمجھتاہے، اس کی کوشش ہے کہ غیرملکی حکومتیں ایسی بھارت مخالف سرگرمیوں سے نمٹیں تاہم وہاں آزادی فکر وعمل کے سبب سکھ گروہوں کے خلاف کوئی اقدام کرنا مشکل ہے۔

اسّی اور نوے کے عشرے کے اوائل میں سکھ علیحدگی پسندوں کی مسلح جدوجہد نے بھارت کو غیرمعمولی طورپر نقصان پہنچایا۔ ہزاروں عام لوگ، سینکڑوںفوجی، پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس ضمن میں سب سے بڑا نقصان اکتوبر 1984ء میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل تھا۔ وہ اپنے ذاتی سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔قاتلوں نے سینہ تان کرکہاکہ انھوں نے آپریشن بلیوسٹار کا بدلہ لیاہے ۔ تاہم نوّے کی دہائی میںسکھ عسکریت پسندوں کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ خالصتان تحریک دب گئی ہے، اب ایسالگتا ہے کہ سکھ علیحدگی پسند پھر سے فعال ہو چکے ہیں۔

سٹرٹیجک سٹڈیز کے ایک ادارے سے وابستہ روسی ماہربورس وولہونسکی کہتے ہیں:’’ ایک نسل گزر جانے کے بعد موجودہ سیاسی حالات بھی علیحدگی پسندی کے رجحان کو پھر سے ابھارنے میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں‘‘۔ جبکہ بھارت حسب عادت ایک بارپھر پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزام عائد کررہا ہے کہ وہ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کو مضبوط کررہی ہے۔ اس مقصد کے لئے خالصتان کی تحریک ببر خالصہ اور خالصتان زندہ باد فورس کو جعلی کرنسی اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔

آئی ایس آئی پر الزام عائد کرنے والی بھارتی حکومت اور اس کے ادارے شاید آپریشن بلیوسٹار کے اثرات کو بھول رہے ہیں۔ انھیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ کوئی قوم اپنے ساتھ اس قدر بڑی زیادتی اور ظلم کو بھلانہیں سکتی، بالخصوص سکھ قوم ایسا کرہی نہیں سکتی۔ ایسی قوم کے انتقامی جذبات ہی کسی بڑی تحریک کی بنیاد بن جاتے ہیں، اسے کسی دوسری قوم یا ادارے کی مدد کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس وقت سکھ قوم بڑے پیمانے پرسیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے لئے حق خودارادیت کا مطالبہ کررہی ہے۔ ایک طفل مکتب بھی سمجھ سکتاہے کہ اگر ریفرنڈم کا مطالبہ نہ مانا گیاتوپھر آزادی پسند سکھ نوجوان بے چین اور مضطرب ہوں گے۔ ان کا اضطراب ایک بڑی معاشی طاقت بھارت کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوگا۔

اس کا اندازہ سکھ نوجوانوں کی ایک تنظیم کی طرف سے بھارتی فضائی کمپنی ’ایئرانڈیا‘ کے بائیکاٹ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔یادرہے کہ امریکا میں مقیم سکھوں کی تنظیم ’ سکھس فار جسٹس‘ ریفرنڈم 2020 کے لئے کام کررہی ہے، اس کی سرگرمیوں پر مودی سرکار پابندیاں لگارہی ہے۔ تنظیم کا موقف ہے کہ وہ ناجائز مطالبہ نہیں کررہی بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ایک جائز اور قانونی مطالبہ کررہی ہے۔ اب اس کا نعرہ ہے:

ائیرانڈیا کے لئے ’’ناں‘‘

پنجاب میں ریفرنڈم کے لئے ’’ہاں‘‘

خالصتان کے لئے ہونے والی مسلح جدوجہد
بھارت میں خالصتان تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والی بڑی سکھ عسکریت پسند تنظیموں میں ’ببرخالصہ‘ ہے، اس میں سابقہ سکھ فوجی، سابقہ پولیس اہلکار اور سکھ مذہبی تنظیموں کے افراد شامل ہوئے۔ پنجاب میں کارروائیوں میں اس کا نام ہی گونجتارہا۔ تلوندرسنگھ پرمار، سکھدیو سنگھ ببر اور ودادھا سنگھ ببر چوٹی کے کمانڈرز ہیں۔90ء کی دہائی میں اس کے متعدد کمانڈرز مارے گئے جس کی وجہ سے اس صدی کے اواخر تک یہ تنظیم کمزور پڑ گئی اور اس سے وابستہ عسکریت پسند نئی قوت حاصل کرنے لئے غیرمتحرک ہوگئے۔ تاہم حالیہ دنوں میں ببرخالصہ کے لوگ نئے سرے سے صف بندی کررہے ہیں۔

انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن بھی خالصتان کے قیام کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔ یہ برطانوی سکھ نوجوانوں کی تنظیم ہے۔بھارتی حکومت آئی ایس آئی پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن پر خاص توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

خالصتان کمانڈوفورس بھی ایک اہم نام تھا تاہم نوے کی دہائی میں یہ تنظیم بھی کچلی گئی۔ خالصتان لبریشن فورس 1986ء میں قائم ہوئی اور اس کی سرگرمیاں آج بھی جاری ہیں۔ تنظیم نے متعدد اہم شخصیات کو ہلاک کیا۔ خالصتان لبریشن آرمی بھی خالصتان کمانڈوفورس کا ایک ونگ ہے۔ یہ بھی زندہ ہے۔دیگرمتحرک تنظیموں میں ببرخالصہ، انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن، دل خالصہ، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس شامل ہیں۔

’خالصتان زندہ باد فورس‘ کے سربراہ رنجیت سنگھ نیتا ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد پنجاب اور اس سے ملحقہ بھارتی اضلاع پر مشتمل ’آزاد ریاست خالصتان ‘ کا قیام ہے۔ یہ جموں وکشمیر میں رہنے والے سکھوں کی تحریک ہے۔ بھارت نے اس کے سربراہ کو ’20موسٹ وانٹیڈ پرسنز‘ میں شامل کررکھاہے۔ یہ تنظیم کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتی ہے۔ بھارتی خوشنودی کی خاطر یورپی یونین نے دسمبر 2005ء اسے دہشت گرد تنظیم قراردیدیا، اس کے 25ممالک میں اس کے اثاثے منجمد کردئیے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔