قومی، علاقائی، بین الاقوامی دھارا

اوریا مقبول جان  پير 29 جون 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ چند سالوں سے انگریزی کا ایک لفظ مین اسٹریم ’’Main Stream‘‘ بہت زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ’’مین‘‘ کا لفظی ترجمہ سب سے بڑا، بنیادی یا سب سے اہم ہے اور اسٹریم ندی یا دریا کو کہتے ہیں۔ اسی طرح انسانی تہذیب و تمدن کی بھی ایک مین اسٹریم ہوتی ہے جو دو طریقوں سے اپنا راستہ متعین کرتی ہے۔ تاریخ میں ایک راستہ وہ ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے دنیا کو بتلایا اور ابتدائے آفرینش سے لے کر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم تک اخلاق، اقدار، چال چلن، انسانی رویوں اور اللہ کے سامنے جوابدہی کے تصور سے دنیا کو ایک لائف اسٹائل یعنی طرز زندگی عطا کیا۔ یہ طرز زندگی یا الوہی لائف اسٹائل دراصل پہلی قسم کی ’’مین اسٹریم‘‘ ہے۔ دوسری ’’مین اسٹریم‘‘ وہ ہے جو اس الوہی ’’مین اسٹریم‘‘ یا لائف اسٹائل کی ضد اور مخالفت میں انسان خود ترتیب دیتا ہے۔ صدیوں سے انسانوں نے پیغمبروں کی مخالفت اس طرح کی کہ ان کے مقابلے میں اپنے ایک لائف اسٹائل کو جنم دیا اور اس کے تحفظ کے لیے لڑتے بھی رہے۔

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے غیر فطری فعل کو اپنے لائف اسٹائل کا جزو لاینفک بنایا اور ان کی اکثریت نے عین جمہوری مزاج کے طور پر اسے اپنے لیے جائز قرار دیا۔ یہ ان کا مین اسٹریم یا قومی دھارا تھا۔ اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے کم تولنے کو ایک لائف اسٹائل کے طور پر اپنایا اور پوری قوم میں سے صرف چند لوگ ایسے تھے جو اس مین اسٹریم سے علیحدہ اور حضرت شعیبؑ کا ساتھ دیتے تھے۔ نمرود، شداد، فرعون اور ہر اس فرد جس نے پیغمبروں کی مخالفت کی ہمیشہ دنیا کو ایک مختلف لائف اسٹائل دیا اور پھر اس کے تحفظ کی لڑائی لڑتا رہا۔ یہ دوسرا طریقہ ہے دنیا کو ایک طرز زندگی دینے کا۔ یہ دونوں طریقے ازل سے لے کر آج تک ایک دوسرے کی ضد رہے ہیں لیکن جدید تہذیب کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے لائف اسٹائل کو مین اسٹریم کا نام دے کر پوری دنیا کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ دیگر مذاہب کے جدید مین اسٹریم کا حصہ بن جائیں۔

ان کے نزدیک یہ ایک بین الاقوامی دھارا ہے جس میں علاقائی اور قومی دھارایں ضم ہو جائیں۔ انھیں تھوڑی دور علیحدہ چلنے کی اجازت ہے لیکن ان کا رخ اور سمت بین الاقوامی دھارا یا مین اسٹریم کی طرف ہی ہونا چاہیے ورنہ ہم بزور طاقت ان کا رخ بدل دیں گے اور انھوں نے اس کا مظاہرہ بار بار کیا جاتا رہا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد دنیا میں دو طاقتیں اپنے دو لیڈروں کی زبانی اس جنگ کا اعلان کرتی نظر آتی ہیں۔ امریکا اور برطانیہ، جارج بش اور ٹونی بلیئر۔ ان دونوں نے ایک ہی بات کی کہ ’’ہم اپنے لائف اسٹائل کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔ اس مین اسٹریم کے مقابلے میں کوئی افغانستان یا عراق میں نظر آیا تو تہہ وبالا کر دیں گے اور اگر ہمارے ملکوں میں ہوا تو سیکیورٹی قوانین اس قدر سخت بنا دیں گے کہ سانس لینا مشکل کر دیں گے اور دنیا کے دیگر تمام ممالک کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے تمام طبقات کو اس مین اسٹریم اور بین الاقوامی دھارے کا حصہ بنائیں۔

اس بین الاقوامی دھارے اور لائف اسٹائل کو دو بنیادی ادارے آج کے دور میں جنم دیتے ہیں۔ ایک میڈیا اور دوسرا نظام تعلیم۔ میڈیا چونکہ مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں ہے اور وہ ہر ملک میں اس کی مخصوص آزادی کا خود تحفظ کرواتے ہیں۔ لیکن دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں اس لائف اسٹائل کے مخالف ایک واضح اکثریت موجود ہے وہاں ان کے تعلیمی ماہرین آن دھمکتے ہیں۔ ان کے تعلیمی ادارے جابجا کھل جاتے ہیں۔ وظائف کے انبار لگا دیے جاتے ہیں تا کہ لوگ ان کی یونیورسٹیوں میں جا کر تعلیم حاصل کریں اور واپس آ کر ان کے لائف اسٹائل کے وکیل بن جائیں۔ نرسری نظموں سے لے کر اے لیول اور او لیول کی کتابوں، یہاں تک کہ ملک کے علاقائی سلیبس میں بھی ایسے ماحول کو پیش کیا جاتا ہے جو اس ’’مین اسٹریم‘‘ لائف اسٹائل سے مطابقت رکھتا ہو۔

انسانی تاریخ میں اس لائف اسٹائل کے مقابل ہمیشہ سے ہی ایک دوسرا لائف اسٹائل رہا ہے جسے الوہی ہدایت یافتہ طرز زندگی کہتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین سو سالہ تعلیمی نظام اور گزشتہ ایک سو سالہ معاشی اور عسکری برتری نے ایک نیا راستہ نکالا ہے کہ اس الوہی نظام کے پیروکاروں کو بھی اپنی مین اسٹریم کا حصہ بنایا جائے۔ پچاس کی دہائی میں رینڈ کارپوریشن نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی، تمام دنیا میں مسلمان مذہبی گروہوں، تنظیموں اور پارٹیوں کو اگر مین اسٹریم سیاست یعنی الیکشن اور جمہوریت کا حصہ بنا دیاجائے تو ان میں جدید مغربی لائف اسٹائل کی مخالفت دم توڑ جائے گی۔ اگر وہ ایسا کریں گی بھی تو سسٹم کے اندر رہ کر کریں گی جس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس وقت سے اب تک اسلامی سیاسی پارٹیاں شکست در شکست کھاتی ہیں اور اگر جیتنے بھی لگیں تو الجزائر اور مصر کی طرح انھیں طاقت سے کچل دیا جاتا ہے۔ لیکن انھیں اصل خطرہ اس نظام تعلیم سے ہے جو مدرسوں کی صورت آج تک اس روح کو قائم رکھے ہوئے ہے۔

اس لائف اسٹائل کے تحفظ کی جنگ لڑ رہا ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے چودہ سو سال پہلے عطا کیا تھا۔ یوں تو عام لوگوں کو اس بات کا عادی کر دیا گیا ہے کہ تم بچوں کو مین اسٹریم تعلیم یعنی ایم اے، ایم بی اے، میڈیکل، انجینئرنگ وغیرہ پڑھاؤ تا کہ دنیا میں کامیاب ہو جائیں اور اگر دل چاہے تو شروع میں ناظرہ قرآن پاک پڑھا کر دینی ذمے داری پوری کر دو۔ یوں اکثریت کے نزدیک مین اسٹریم تعلیم دنیا کی کامیابی کے لیے ہے اور آخرت کی کامیابی کے لیے تھوڑی بہت اضافی تعلیم کافی ہے۔ یہ وہی لائف اسٹائل ہے جو مغرب نے عیسائیت کو ریاست سے نکال کر سیکولر اخلاقیات نافذ کر کے عطا کیا تھا۔ جب کہ ہمارے اسلاف کا لائف اسٹائل یہ تھا کہ اصل تعلیم آخرت کی فلاح کے لیے ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی فلاح کی تعلیم بھی پڑھنی چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ سات صدیاں مسلمانوں میں سے دنیا کے علوم کی سربراہی کرنے والے ایسے عالم پیدا ہوئے جن کا طرز زندگی اللہ کے بنائے اصولوں کے مطابق تھا۔ بو علی سینا سے لے کر ابن الہیثم اور جابر بن حیان تک جو سب فزکس، کیمسٹری اور میڈیسن کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، اپنی طرز زندگی میں سچے اور کھرے مسلمان تھے کیونکہ ان کے ہاں تعلیم میں ترجیح اول وہ تعلیم تھی جو اللہ کے قرب اور آخرت میں سرخروئی کا باعث بنے۔ لیکن گزشتہ چار سو سالوں سے مسلم دنیا پر مغربی قبضے نے ایک ایسے لائف اسٹائل کو جنم دیا ہے جس میں انسانی زندگی کی مین اسٹریم دنیاوی تعلیم ہو گئی ہے اور دینی علم کو چرچ کی طرح دینی مدرسوں تک محدود کر دیا۔ یورپ میں یہ تجربہ کامیاب تھا۔ پادری بپتسمہ دینے، شادی کرانے اور دفن کی رسومات تک محدود ہو گیا۔ یہاں بھی جب تک گورے کا اقتدار رہا، مولوی کو محدود رکھا گیا لیکن اس کے باوجود ساری بغاوتیں اسی مدرسے کے مولوی نے کیں، پھانسیاں، جیلیں اور کالے پانی کی سزائیں اسی نے کاٹیں۔

اب یہ اپنے سخت جان رویے کی صورت پوری مغربی تہذیب کے لیے ایک خطرہ بن کر ابھرا ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا کا رخ اسے بدنام کرنے کی جانب ہے۔ اس کے لیے ایک عجیب و غریب نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ انھیں مین اسٹریم میں لایا جائے۔ انھیں قومی، علاقائی اور بین الاقوامی دھارے کا حصہ بنایا جائے۔ ان تمام مدارس کو جدید نصاب تعلیم بھی ساتھ ساتھ پڑھانے پر مجبور کیا جائے۔ اس کے لیے لفظ یہ استعمال ہوتا ہے کہ انھیں مین اسٹریم میں لایا جائے، یعنی انسانی زندگی کی معراج، ترقی اور کامیابی کو صرف دنیا کی کامیابی اور ترقی مان لیا جائے اور آخرت کی کامیابی کو ایک اضافی کامیابی تصور کر کے تھوڑی بہت تعلیم دی جائے۔ یوں اس ساری دینی تعلیم کا رخ مین اسٹریم یا دھارے کی طرف مڑ جائے گا۔

جو لوگ مدرسے کے طالب علم کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ دنیا میں کامیاب ہوں۔ وہ عام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے۔ کیا اولیول، اے لیول یا میٹرک کے طالب علم کو آخرت کی کامیابی اور اس کے حصول کے علم اور عمل کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے قومی دھارے یا مین اسٹریم اداروں میں دین کو اضافی حیثیت دینے کو بھی تیار نہیں اور مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا عزم کیے ہیں۔ یہ ترقی، تہذیب اور دہشت گردی نہیں بلکہ لائف اسٹائل کی جنگ ہے۔ یہ قومی، بین الاقوامی یا علاقائی دھارا نہیں طرز زندگی ہے۔ یہ خسارے کا سودا ہے۔ دنیا میں کامیابی اور آخرت میں خسارے کا سودا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔