بلوچستان کا سوال

غلام محی الدین  منگل 16 اکتوبر 2012
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

90 کی دہائی کے آغاز میں بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچ پشتون کشیدگی خطرناک حدوں کو چھو رہی تھی‘معاملہ اتنا بڑھا کے ایک روز میں کئی افراد مارے گئے جس پر صوبائی انتظامیہ نے شہر میں کرفیو لگا دیا۔

عملی زندگی میں کرفیو کو بھگتنے کا میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔ صحافتی کارکنوں کو جاری کیے جانے والے پرمٹ کی وجہ سے ہمیں شہر میں گھومنے پھرنے کی سہولت حاصل تھی۔ موسم سرما میں کوئٹہ شہر ویسے ہی سرشام سنسان ہونے لگتا ہے‘ کرفیو سے یوں لگا جیسے بستی کے مکین کسی قدرتی آفت کے خوف سے ہجرت کر گئے ہوں۔ ایک رات دفتر میں بیٹھے بیٹھے بیزاری سے اُکتا کر میں باہر سڑک پر نکل آیا‘ ہر طرف ہو کا عالم تھا‘ میرے سامنے سڑک کے کنارے پر ایک کوڑا دان تھا جس کے اردگرد بھی کوڑا بکھرا پڑا تھا اور وہاں تین بلیاں خوراک تلاش کر رہی تھیں۔ جوں جوں میرے اور بلیوں کے درمیان فاصلہ کم ہو رہا تھا‘ میرے اندر یہ خواہش شدت اختیار کر رہی تھی کہ بلیوں کو میرے راستے سے ہٹ جانا چاہیے۔ وہ بلیاں جو پالتو نہ ہوں ہمیں دیکھتے ہی ادھر ادھر کھسکنے کی کوشش کرتی ہیں۔

صورتحال توقع سے مختلف رُخ اختیار کرنے لگی تو خوف سر اُٹھانا لگا۔ انتہائی قریب پہنچ جانے پر بھی جب بلیوںنے مجھے کوئی اہمیت نہ دی تو میں رُک کر انھیں گھورنے لگا۔ میری اس حرکت کے بعد جو کچھ ہو اس نے خون میری رگوںمیں منجمند کر دیا‘ ان بلیوں نے دانت نکوسے اور بالکل اس حالت میں آ گئیں جو درندے حملہ کرتے وقت اختیار کرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایسی وحشت تھی کہ میں غیر ارادی طور پر پیچھے ہٹنے لگا اور پلٹ کر دفتر لوٹ آیا۔

جو جانور انسانی معاشروں کا حصہ بن چکے ہیں ان کے رویئے بھی ہماری معمولات زندگی سے مطابقت اختیار کر لیتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ جانور ہمارے لیے بڑا مسئلہ پیدا کریں۔ انھیں انسانی بستیوں میں رہتے ہوئے، اپنی حدود کا ادراک ہوتا ہے، یہ حدود بستیوں کے اندر انسانی سرگرمیوں کے باعث وجود میں آتی ہیں۔ انسانی سرگرمیاں جانوروں کے لیے ایک طرح کا ڈسپلن ہے جو انھیںایک خاص حد سے تجاوز نہیں کرنے دیتا۔ اندازہ لگائیں کہ چند دنوں کے لیے ان حدود کا شکنجہ ٹوٹنے سے ایک ناتواں جانور میں کیسی تبدیلی آجاتی ہے۔ انسانی معاشروں میں انسانوں کے مابین تعلقات کار کی نوعیت بھی اس سے مختلف نہیں ہوتی۔

ڈسپلن کو یقینی بنانے کے لیے ریاست کو جس قوت نافذہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ قوت معاشرہ خود ریاست کو فراہم کرتا ہے‘ یعنی عوام کی اکثریت ریاست کے منصفانہ رویئے کے جواب میں اسے رضا کارانہ تعاون فراہم کرتی ہے۔ دوسری جانب جب نظم و ضبط قائم رکھنے کا یہ باہمی ربط ٹوٹ جاتا ہے تو پھر وہی کیفیت وجود میں آتی ہے، جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ ہمارا ملک بھی عمومی طور پر ایسی ہی صورتحال کا شکار ہے جہاں بہت سے علاقوں میں ریاست اور عوام کے درمیان معاشرے کو ایک ضابطے کے تحت چلانے کے لیے درکار باہمی اعتماد اور اس کے نتیجے میں روبہ عمل آنے والا تعاؤن مفقود ہو چکا ہے۔

ملک کے جن علاقوں میں ریاست کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں ایک بلوچستان بھی ہے اور اس بارے میں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بالعموم بلوچستان کو بھی ملک کے دیگر علاقوں میں جاری تشدد اور بدامنی کے ساتھ خلط ملط کر دیا جاتا ہے حالانکہ بلوچستان کا معاملہ بالکل مختلف ہے اور اسے الگ سے دیکھنے‘ سمجھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بد امنی کے شکار دوسرے علاقوں سے مماثلت محض اس حد تک ہے کہ یہاں بھی ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے درکار عوامی تعاؤن خطرناک حد تک کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف امریکی حملے، پاک فوج کے آپریشن اور ان کے جواب میں عسکریت پسندوں کی ملک بھر میں کارروائیاں ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان میں ہونے والے تشدد کے واقعات میں بڑا تنوع ہے۔ وہ حملے ہیں جن کی ذمے داری بی ایل اے یا کوئی اور عسکریت پسند تنظیم قبول کر لیتی ہے۔ تاجک باشندے مارے جاتے ہیں جو پولیس سرجن پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کرتا ہے اسے بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی کارکنوں کا قتل، دوسرے صوبوں سے محنت مزدوری کے لیے آنے والے بالخصوص پنجابی محنت کشوں کی ہلاکتیں۔ شعیہ ہزارہ برادری کے لوگوں کا قتل۔ سیکیورٹی فورسز اور سرکاری اہلکاروں پر حملے۔ اغوا برائے تاوان، آباد کاروں کی جائیدادوں پر قبضے وغیرہ۔ لوگوں کی اکثریت کو اس بات کا علم نہیں ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب بلوچ عسکریت پسندوں اور فوج میں لڑائی جاری تھی تو جنگجو قبائلی لڑائی کے علاقے سے گذرنے والے سرکاری ملازمین کو روک کر ان کی خاطر تواضح کرتے اور مکمل تحفظ فراہم کیا کرتے تھے۔

اس مختصر سے جائزے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس صوبے میں بیک وقت کئی قوتیں سرگرم عمل ہیں‘ اس لڑائی کے کئی فریق ہیں جن میں دشمنوں کے ساتھ ہمارے کچھ ’’برادر اسلامی ملک‘‘ بھی پیش پیش ہیں‘ جنھیں گوادر کی بندرگاہ کی کامیابی کی صورت میں اپنی بحری گودیوں پر کاروبار میں مندی کا خطرہ درپیش ہے۔ اس گھمسان کی لڑائی سے اڑنے والی دھول میں بہت سے مقامی کھلاڑی اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے سرگرم ہیں کیونکہ اس مارا ماری میں ہر جرم دہشتگردی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

بلوچستان کی بدامنی کا سب سے بڑا نقصان ہمیں بین الاقوامی معاملات میں ہوا ہے۔ عالمی فورموں پر اور دو طرفہ معاملات میں پاکستان اپنی وہ اخلاقی برتری کھو چکا ہے جو اسے کشمیر‘ سیاچن اور سرکریک جیسے تنازعات پر حاصل تھی۔ بلوچستان سے اٹھنے والی آوازوں کی موجودگی میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف مؤثر انداز میں آواز کیسے اٹھائی جا سکتی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کے اس صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ کن ممالک کو ہو رہا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی اپنی زمین کے ساتھ وارفتگی اور وابستگی ہی وہ سب سے اہم فیکٹر ہے جسے استعمال کر کے ہمیشہ سیاسی فوائد حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔ مقامی سطح پر سیاست دانوں کی اکثریت چھوٹی سے چھوٹی بے قائدگی کو وفاق کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔

دوسری جانب وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہمیشہ یا تاثر سامنے آتا ہے کہ بلوچستان میں سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے معاملات کو یہاں تک پہنچانے کی ذمے دار ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے جو مستقبل کے سیاسی خاکوں کی تشکیل اور ان میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ ملک میں آنے والی فوجی حکومتوں کے طویل ادوار میں پورے ملک میں یہی کھیل کھیلا جاتا رہا۔ کسی مقبول پارٹی کو تباہ کرنا ہے تو اس کے مقابل ریاستی طاقت کے زور پر کوئی اور گروپ کھڑا کر دو اور اسے بے پناہ وسائل کے ساتھ سب کچھ کر گزرنے کی کھلی چُھٹی دے دو۔ غیر مقبول قیادت کو مصنوعی طریقے سے اقتدار میں لاؤ تاکہ اپنے اقتدار کوقانونی جواز مہیا ہو جائے۔ مار دھاڑ‘ بلیک میلنگ‘ تحریص‘ دھمکی غرض جس طرح بھی کام نکل سکے نکال لیا جائے۔

بدقسمتی سے بلوچستان کی قبائلی معاشرت کو سمجھے بغیر یہاں بھی اسی قسم کے حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ بار بار یہ ہوا کہ جن سیاسی رہنمائوں کی عوام میں کوئی حیثیت تھی انھیں پیچھے دھکیل کر ناپسندیدہ لوگوں کو ان پر مسلط کر دیا گیا۔ بلوچستان میں تو صورتحال اس حد تک بگاڑ دی گئی کہ اگر کسی مقبول سردار کا رویہ پسند نہیں آیا تو اس کے مقابل سردار کھڑا کردیا گیا۔ اگر اصل سردار کے پاس 700 تنخواہ دار مسلح جوان ہیں تو دوسری طرف مخالفت میں لائے جانے والے سردار کے ساتھ 4000 لوگ ہیں جو اپنی تمام تر ضرورتیں مقامی لوگوں سے بندوق کے زور پر پوری کرتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایسی صورتحال میں معاشرتی ڈھانچے کا کیا حشر ہو گا۔

کیا حکومت اور کیا حزب اختلاف سبھی نمائشی اقدامات اور فوٹو شوٹس سے آگے نہیں بڑھ پائے، کسی نے بلوچستان کی حقیقی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے معاملے کو قومی ترجیحات میں پہلا درجہ حاصل ہو۔ اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے اور عوام پر ناپسندیدہ قیادت مسلط کرنے کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جانا چاہیے۔ اس بات کو تسلیم کر لیا جانا چاہیے کہ وہاں کے لوگ اپنے معاملات خود چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی قومیت یا صوبے کی وفاداری پر سوال اُٹھائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔