عوامی راج کا بھوت

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 1 جولائی 2015

لنکن کی لاش کو لے کر جنازے کی گاڑی بے پناہ ماتمی ہجوم میں سے گزرتی ہوئی الی نائز کی طرف روانہ ہوئی تمام گاڑی کریب سے لپٹی ہوئی تھی اور انجن جنازے کے گھوڑے کی طرح بہت بڑے سیاہ کمبل سے ڈھانپا ہوا تھا، جس پر سفید ستارے بہت بھلے معلوم ہو رہے تھے۔ جب گاڑی شمال کی طرف بڑھی راستے پر لوگ نمودار ہونے شرو ع ہو گئے، ان کی تعداد میں جلدی اضافہ ہو گیا۔

فلا ڈلفیا اسٹیشن ابھی بہت دور تھا لیکن دونوں طرف انسانوں کی دیوار نظر آتی تھی، جب گاڑی شہر کے اندر پہنچی تو لوگ ہزارو ں کی تعداد میں بازاروں میں جمع تھے اور چلنے پھر نے کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں تھی۔ سوگواروں کی قطار آزادی کے ہال سے تین میل تک پھیلی ہوئی تھی لوگ دس گھنٹے سے قدم قدم فاصلہ طے کر رہے تھے تا کہ لنکن کے چہرے پر آخری نظر ڈال سکیں۔ ہفتے کے روز آدھی رات کے وقت ہال کے دروازے بند کر دیے تھے لیکن مشتاقین نے منتشر ہونے سے انکار کر دیا رات بھر اپنی جگہ پر کھڑے رہے۔

اتوار کی صبح تین بجے ہجوم پہلے سے کہیں زیادہ تھا اور لڑکے اپنی جگہ دس ڈالر میں بیچ رہے تھے پیادہ اور گھڑ سوار فوج گلیوں میں آمد و رفت جاری کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی اس وقت سیکڑوں عورتیں بے ہوش ہو گئیں اور تجر بہ کار سپاہی جنہوں نے گٹیس برگ کے معرکے میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے تھے انتظام کرنے میں ناکام ہو گئے۔ جنازے کی رسومات ادا کرنے سے چو بیس گھنٹے پہلے ہی اسپیشل گاڑیوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی اور ہجوم اتنا زیادہ ہو گیا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔

ہوٹل مکان پارک اور دخانی کشتیاں لوگوں سے اٹی پڑی تھیں، اگلے روز سولہ سفید گھوڑے جن پر حبشی سوار تھے، جنازے کی گاڑی کو براڈوے تک لے گئے اس وقت عورتیں غم سے پاگل ہوئی جاتی تھیں اور گاڑی پر پھول نچھاور کر رہی تھیں اس کے پیچھے ایک لاکھ ساٹھ ہزار کا ماتمی جلوس قدم قدم چلتا ہوا آ رہا تھا۔

ان کے ہاتھوں میں سیاہ جھنڈیاں تھیں۔ جن پر یہ الفاظ تحریر تھے ’’خاموش ہو جائو اور سمجھ لو کہ میں خدا ہوں‘‘ پچاس ہزار تماشائی جلوس کو دیکھنے کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو کچل رہے تھے براڈ وے کے مکانوں کی بالائی منزلوں کی کھڑکیاں کرائے پر اٹھ چکی تھیں ایک کھڑی کا کرایہ 40 ڈالر وصول کیا جاتا تھا کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے گئے تھے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ باہر جھانک سکیں۔ گانے والے طائفے سفید لباس پہنے بازاروں کے کونوں پر دعائیں ترنم کے ساتھ پڑھ رہے تھے اور بینڈ غم ناک دھنیں بجا رہے تھے ہر منٹ کے بعد ایک سو توپیں داغی جاتی تھیں۔ شہر کے ہال میں جنازے کے پاس بہت بڑا ہجوم تھا کچھ لوگ لنکن کے چہرے کو چھونے کی کوشش میں تھے۔

صدر لنکن نے اپنی زندگی کی اہم ترین تقریر میں کہا تھا ہمارے بزرگوں نے اس براعظم پر ایک نئی قوم کی بنیاد آزادی پر استوار کی اور ان کی پیش نظر ایک ہی مقصد تھا کہ تمام لوگ پیدائشی طور پر برابر ہیں اور یہ قوم خدائے برتر کے زیر سایہ آزادی کی فضا میں ایک نیا جنم لے گی اور عوام کی حکومت ان ہی کے تحت اور ان کے فائد ے کے لیے تصور کرہ ارض سے معدوم نہیں ہو گا۔ لنکن نے سیاسی مذہب کے طور پر جن الفاظ کو اپنایا وہ یہ ہیں آزادی اور اتحاد ہمیشہ کے لیے ایک چیز ہیں اور ناقابل تقسیم ہیں۔

آج کل پاکستان کے سیاسی حالات بظاہر بہت گھمبیر نظر آتے ہیں لیکن اصل میں یہ بالکل سیدھے سادے ہیں اس میں کوئی الجھا ئو نہیں ہے اصل مسائل سب کے سامنے ہیں اور یہ تمام مسائل عوام کے مسائل ہیں۔ یاد رہے اتحاد اور اتفا ق ہی کامیابی اور ترقی کا راز ہیں۔ اتحاد اور اتفا ق کے ذریعے ہی سماج میں کافی عرصہ تک آہستہ آہستہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن سماج کی ساخت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی پھر یکایک یہ تسلسل ٹوٹتا ہے اور انقلاب آتا ہے اور پرانے قسم کے سماج کی جگہ نئی قسم کا سماج آتا ہے۔

ایک نئے سماج کی تشکیل کی راہ پر ہمیشہ اولین قدم آسان نہیں ہوتے جمود پسند اور رجعت پسند ہمیشہ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور یہ ہی کچھ ہمیں آج پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے کیونکہ رجعت پسند اور جمود پسند قوتوں کو عوامی راج ایک بھوت کی شکل میں نظر آتا ہے یہ لوگ دراصل ہر وقت عوام سے خو فزدہ رہتے ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر عوام بااختیار ہو گئے تو انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا لیکن اب ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ پاکستان میں اپنے فرسودہ نظا م کو برقرار رکھ سکیں، وہ اپنی ساری جاگیریں اور دولت بھی اس مقصد کے لیے خرچ کر دیں تو نتیجہ کچھ حاصل نہ ہو گا، ان کے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ وہ عوامی حاکمیت کے فلسفے پر یقین کر لیں اور عوام کے راستے سے ہٹ جائیں۔

پاکستان کے عوام نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت طویل جدوجہد کی ہے۔ اور پاکستان کے عوام اپنی قربانیوں کو ہرگز رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ نپولین نے کہا ہے کہ لکڑیاں علیحدہ علیحد ہ جلائو تو دھواں دیتی ہے اکھٹی جلائو تو روشنی فراہم کرتی ہے۔ ایک بات بہت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا مقابلہ عوام دشمنوں کے ساتھ ہے اور فتح کی واحد ضمانت ہمارے مکمل اتحاد میں ہے پرانی کہاوت ہے کہ شکاری نے جال لگایا کبوتر پھنس گئے کبوتروں نے باہم صلاح مشورے سے وحدت کا رنگ اختیار کیا اور جال سمیت اڑ گئے ۔ ہم سب کو لنکن کی طرح ان الفاظ کو اپنانا ہو گا کہ آزادی اور اتحاد ہمیشہ کے لیے ایک چیز ہیں اور ناقابل تقسیم ہیں ۔کیونکہ لنکن کی کامیابی کا یہی راز تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔